ہم پر حملہ ہوا۔ دفاع کے سوا اب کوئی راستہ نہیں۔ اللہ کی شریعت یہی کہتی ہے۔ عقلِ عام کا تقاضا یہی ہے اور اقوامِ متحدہ کا چارٹر بھی اسی بات کی تائید کرتا ہے۔
نریندر مودی داخلی اپوزیشن کا سامنا کر سکے اور نہ بین الا قوامی اور سفارتی محاذ ہی پر کوئی کارکردگی دکھا سکے۔ جھنجھلاہٹ ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ کسی حماقت کے لیے یہ کیفیت سب سے ساز گار ہوتی ہے اور جذبات کی رو میں بہنے والا اکثر منجدھار میں جا نکلتا ہے۔ مودی نے بھی بھنور میں قدم رکھ دیا۔ جنگ بلا شبہ ایک بھنور ہے۔ آج کل فتح و شکست کے روایتی مفاہیم غیرمتعلق ہو چکے۔ دونوں فریقوں کو جنگ کی ایک قیمت ادا کرنی ہے۔ بھارت کرے گا اور مودی ذاتی حیثیت میں بھی ایک قیمت دیں گے۔ جب یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں جنگ کے بادل چھٹے نہیں۔ خبر کی حقانیت کو جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ واقعات کی صحت کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں۔ اس لیے اس صورتحال پر ایک اصولی بات ہی کی جا سکتی ہے۔
یہ تو طے ہے کہ پہل ہم نے نہیں کی۔ اس لیے اخلاقی بوجھ ہمارے کندھے پر نہیں۔ امریکی صدر کا ابتدائی ردِ عمل بھی یہی بتاتا ہے کہ عالمی قوتیں کم ازکم ظاہر میں بھارت کے ساتھ نہیں۔ یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے۔ بھارت نے انسانی آبادیوں پر حملہ کیا۔ یہ اقدام بھی جنگ کے قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ سب باتیں پاکستان کے حق میں ہیں۔ اس جنگ کے آغاز کے لیے اب دنیا کا کوئی فورم پاکستان کو ذمہ دار قرار نہیں دے سکتا۔ اب پاکستان اگر اپنے دفاع میں کوئی قدم اٹھاتا ہے تو وہ حق بجانب ہو گا۔ یہ ہماری پہلی فتح ہے۔
سوال یہ ہے کہ کسی بین الاقوامی اشیر باد کے بغیر بھارت نے یہ حملہ کیوں کیا؟ اس کا سادہ سا جواب ہے: تکبر۔ بھارت کچھ عرصہ سے اس زعم میں ہے کہ وہ علاقے کا تھانیدار ہے۔ وہ خطے کی سب سے بڑی اقتصادی قوت ہے۔ امریکہ سے اس کی دوستی ہے جو بھارت کے ہاتھوں پاکستان کو نیچا دکھانا چاہتا ہے‘ لہٰذا اسے اب اپنی اس حیثیت کو منوانا ہے۔ سب اس کو بڑا مانتے ہیں۔ اس کو اگر کوئی چیلنج درپیش ہے تو وہ پاکستان ہے۔ اسے یہ تھانے داری قبول نہیں۔ اب بنگلہ دیش بھی سر اٹھا رہا ہے اور اس کی وجہ بھی پاکستان ہے۔ بھارت اس لیے پاکستان پر اپنی برتری جتانے کے لیے کوئی نہ کوئی حرکت کرتا رہتا ہے۔ اس کے لیے پہلے کرکٹ کا انتخاب کیا گیا۔ ساری دنیا کی ٹیمیں پاکستان آ رہی ہیں لیکن اس کی ہٹ دھرمی باقی ہے۔ جو کھیل کرکٹ کے میدان میں کھیلا گیا وہ اب جنگ کے میدان میں بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ پس منظر میں وہی نفسیات کار فرما ہے کہ خود کو خطے کا تھانے دار ثابت کیا جائے۔ اس نفسیات سے اب کیسے نبٹا جائے؟
اس طرح کے لوگ کسی اخلاقیات پر ایمان نہیں رکھتے۔ وہ اپنی اَنا کے اسیر ہوتے ہیں اس لیے معاملے کو سود و زیاں کے پہلو سے دیکھتے ہیں۔ اگر انہیں یہ یقین ہو جائے کہ فلاں کام میں سراسر خسارہ ہے تو وہ اس سے دور رہتے ہیں۔ اگر وہ جنگ کی خواہش رکھتے ہوں تو انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی ایک قیمت انہیں بہر حال ادا کرنا پڑے گی۔ گویا مودی کے بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری دفاعی قوت کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ اس کا مقصد واضح ہے کہ بھارت کی جارحیت سے بچا جائے۔ ذرا سوچئے کہ جو ملک شہری آبادی پر حملہ کر سکتا ہے اگر کسی جوابی اقدام کے خوف سے بے نیاز ہو جائے تو کیا نہیں کر سکتا۔ اس کے ساتھ ہمیں عالمی سطح پر بھی یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان ہر گز جنگ کا حامی نہیں ہے۔ ہم اس خطے میں امن چاہتے ہیں اور اس کے لیے کسی حد تک جانے کے لیے آمادہ ہیں۔ 'کسی حد تک‘ جانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ آپ دفاع کے حق سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ یا اپنے کسی اصولی مؤقف کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا سادہ مفہوم ہے کہ آپ جارحیت نہیں کرتے۔ پہل آپ کی طرف سے نہیں ہو گی اور اگر امن کے لیے کوئی قدم اٹھایا جائے گا تو آپ اس کی عملی حمایت کریں گے۔
اب تک کا منظر نامہ اگر سامنے رہے تو پاکستان کا پلڑا ہر طرح سے بھاری رہا۔ سفارتی محاذ پر ہم سرخرو ہوئے۔ کسی نے بھارتی کی حمایت نہیں کی۔پیشہ ورانہ محاذ پر بھی ہم نے اپنی برتری ثابت کی۔ پانچ طیاروں کا مار گرانا معمولی واقعہ نہیں۔ اخلاقی برتری بھی واضح ہے۔ ہم نے سویلین آبادی پر حملہ نہیں کیا۔ جنگ کو محاربین تک محدود رکھا۔ اس کے برخلاف بھارت نے عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ بچوں اور خواتین کی جان لی۔ اسے بہادری نہیں کہتے۔ یہ کم ظرفی ہے کہ آپ پیشہ ورانہ فوج کا سامنا نہ کر سکیں اور نہتے شہریوں کی جان لیں۔ ان تمام عوامل کو سامنے رکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ جنگ کا پہلا فیصلہ ہمارے حق میں رہا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
پاکستان کا مؤقف اب یہ ہے کہ وہ جوابی اقدام کا فیصلہ اپنی رعایت سے کرے گا۔ یہ مقدمہ اخلاقی اور قانونی طور پر درست ہے۔ پاکستان کو اپنی حکمتِ عملی تشکیل دینے کا حق ہے۔ اس لیے ہمیں ہر طرح سے تیار رہنا چاہیے۔ تاہم اس کے ساتھ ہمیں سفارتی سطح پر بھی اپنی کوششیں جاری رکھنا ہوں گی اور دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ دفاع ہمارا حق ہے مگر جنگ ہمارا انتخاب نہیں ہے۔ اگر دنیا یہ چاہتی ہے کہ حالات مزید خراب نہ ہوں تو پھر ان کے وعظ و نصیحت کا اصل مستحق انڈیا ہے‘ پاکستان نہیں۔
اس صورتحال میں اہلِ دانش کا بڑا امتحان ہے۔ انہیں ایک طرف حب الوطنی کا بھرم رکھنا ہے اور دوسری طرف درست بات بھی کہنی ہے۔ اس وقت پاکستانی دانش مند تو اس امتحان میں کامیاب رہے کہ انہیں انتخاب نہیں کرنا پڑا۔ جو درست بات تھی وہی پاکستان کا مؤقف بھی تھا۔ مسئلہ بھارت کے اہلِ دانش کا ہے۔ ہمارے صحافی اور میڈیا اس معاملے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ وہ انہیں متوجہ کر سکتے ہیں کہ ریاست کی باگ جب مودی جیسے انتہا پسندوں کے ہاتھ میں چلی جائے تو وہ ریاست کے مفادات کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔ وہ عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور انہیں جنگ کے دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔ بھارت کو اگر ترقی کرنی ہے تو اسے استحکام چاہیے۔ اگر مودی جیسے حکمران رہیں گے تو وہ 'ہندوتوا‘ جیسے فلسفوں سے پہلے قوم میں انتشار پیدا کریں گے اور پھر کسی ہمسایہ ملک سے غیر ضروری جنگ چھیڑ دیں گے۔ انہیں اس پر ضرور سوچنا چاہیے کہ اتنے قیمتی جہاز گنوا کر اور بے گناہ عام شہریوں کو قتل کر کے بھارت نے کیا حاصل کیا؟
اس جنگ نے موقع پیدا کیا ہے کہ پورے جنوبی ایشیا میں ایک نئی سوچ سامنے آئے۔ یہ نئی سوچ پورے خطے میں امن کی سوچ ہو۔ اگر بھارت کشمیر کے مسئلے کو اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے پر آمادہ ہو جائے تو پھر اس علاقے میں کوئی بڑا جھگڑا باقی نہیں رہے گا۔ پھر یہاں کی قیادتیں پورے خطے کی خوشحالی کے لیے بڑے منصوبے بنا سکتی ہیں جیسے یورپ کے مما لک نے بنائے۔ اس سے پاکستان‘ افغانستان اور ایران کو بھی باہمی تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ ایک بڑی سوچ ہی علاقے کے مقدر کو بدل سکتی ہے۔ یہ پیغام ہماری طرف سے بھارت کے شہریوں کو ملنا چاہیے۔ یہ طے ہے کہ مودی صاحب کے ہا تھوں بھارت کا مستقل محفوظ ہے نہ خطے کا۔ 'مودی نامنظور‘۔ 'انتہا پسندی نامنظور‘۔ اگر یہ جنوبی ایشیا کے عوام کا نعرہ بن جائے تو یہ خطہ خوشحال ہو سکتا ہے۔