"KDC" (space) message & send to 7575

معاشی ایمرجنسی اور صدرِ مملکت کے اختیارات

اگلے روز چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسٰی نے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کے کیس کی سماعت کے دوران نگران حکومت پر سوالات اٹھاتے ہوئے ریمارکس دیے کہ 1990ء اور 2002ء کے انتخابات نگران حکومتوں کے بغیر ہو چکے ہیں۔ نگران حکومتوں کا کام کیا ہوتا ہے؟ شفاف الیکشن کاکام تو الیکشن کمیشن کا ہے۔ صاف شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کوکراناہیں تو نگران حکومت کیوں بنائی جاتی ہے؟ الیکشن کمیشن کا پھر کیا کام ہے؟در اصل1973ء کے آئین میں نگران حکومت سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ پاکستان میں عام انتخابات سے قبل نگران حکومت بنانے اور اس نگران حکومت کی سربراہی میں نئے انتخابات کرانے کا تصور 1977ء کے بعد پروان چڑھا جب بھٹو حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد نے تحریک شروع کی اور 1977ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر انہیں کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیے جانے کے بعد ازسر نو انتخابات کرانے پر رضامند ہو گئے تو اپوزیشن اتحاد کے رہنماؤں نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر عدم اعتماد کرتے ہوئے نگران وزیراعظم بنانے کا مطالبہ کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ بیورو کریسی چونکہ وزیراعظم پاکستان کے تابع ہوتی ہے لہٰذا نگران سیٹ اَپ چیف جسٹس آف پاکستان اور اپوزیشن اتحاد کے رہنماؤں سے مشاورت کے بعد تشکیل دیا جائے اور اس مقصد کے لیے قومی اسمبلی کے ذریعے آئین میں ترمیم کی جائے؛ وزیراعظم بھٹو نے مذاکرات کو طول دینے کے بعد ان کے مطالبات مسترد کر دیے جس کے نتیجہ میں پانچ جولائی 1977ء کو ملک میں مارشل لاء نافذ ہو گیا اور 1985ء کی غیر جماعتی قومی اسمبلی نے 8ویں ترمیم کی صورت میں آئین میں یہ شق شامل کر دی کہ آئندہ انتخابات نگران حکومت کے زیرنگرانی ہوں گے۔ اس کے باوجود گوکہ 1988ء میں ہونے والے پاکستان کے چوتھے عام انتخابات صدر غلام اسحاق خان کی حکومت کی نگرانی میں ہوئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیرِاعظم بنیں لیکن بعد ازاں پانچ اگست 1990ء کو صدر غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد غلام مصطفی جتوئی کو پاکستان پہلا نگران وزیراعظم مقرر کیا جس کے بعد اس روایت کا آغاز ہو گیا اور نگران سیٹ اَپ آئین کا باقاعدہ حصہ بن گیا اور اٹھارہویں ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 224 میں بھی اس حوالے سے مزید ترمیم کی گئی۔ اب انوار الحق کاکڑ ملک کے آٹھویں نگران وزیر اعظم ہیں۔18ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مرکز میں نگران حکومت‘ نگران وزیراعظم اور اسی طرح چاروں صوبوں میں نگران وزرائے اعلیٰ اور نگران حکومتوں کے حوالے سے نیا طریقہ کار متعارف کروایا۔ نئے طریقہ کار میں پہلے حکومت اور اپوزیشن‘ پھر پارلیمنٹ اور آخر میں الیکشن کمیشن کو اس معاملے میں شامل کیا گیا ہے۔پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے نگران سیٹ اَپ کی تشکیل اسے دنیا کے دیگر ممالک سے الگ کرتی ہے کیونکہ عموماً آج کل جمہوری ممالک میں اس قسم کے کسی بندوبست کی مثال نہیں ملتی۔ ایسا نظر آ رہا ہے کہ مستقبل کی منتخب حکومت نگران سیٹ اَپ کے حوالے سے ازسرنو ترمیم کرے گی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی آئندہ نگران حکومتوں کا کردار ادا کرے گا۔
سپریم کورٹ نے 9 مئی کے پُرتشدد مظاہروں میں ملوث ہونے پر گرفتار عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیاہے۔جسٹس اعجاز الااحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے چار ایک کی اکثریت سے یہ فیصلہ سنایا جس میں آرمی ایکٹ کے سیکشن 2(1)(d) اور آرمی ایکٹ کے سیکشن (4)59 کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں جن شہریوں کا فوجی عدالت میں ٹرائل شروع ہوچکا ہے‘ اسے بھی کالعدم قرار دے دیا گیاہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ فیصلہ بعض آئینی اور قانونی ماہرین کے نزدیک بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ایک بڑے سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے اور یہ عدل و انصاف پر مبنی اور زمینی حقائق کے عین مطابق ہے۔ تاہم اگر تصویر کا دوسرا رُخ یعنی نو مئی کے واقعات کے تناظر میں آرمی تنصیبات اور فوجی عمارتوں کو پہنچنے والا نقصان کو دیکھا جائے تو پُر تشدد واقعات میں ملوث افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی ہونا چاہیے تھا۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی صورت میں یہ مقدمات روزانہ کی بنیاد پر بھی نمٹائے جا سکتے ہیں جبکہ فوجداری عدالتوں میں مقدمات کی سماعت طویل عرصے تک چلتی رہتی ہے۔ سبکدوش ہونے والی قومی اسمبلی نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حق میں ایک قرارداد منظور کی تھی جسے اب عدالت ِ عظمیٰ نے سویلین بالادستی کے خلاف قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ شنید ہے کہ حکومت نے فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ نظرِثانی کی اپیل کے بعد بھی وہی فیصلہ برقرار رہتا ہے جو عدالت پہلے سے سنا چکی ہوتی ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنی ماضی کی روایات برقرار رکھتے ہوئے آئندہ عام انتخابات کی مانیٹرنگ کرنے کے لیے غیرملکی میڈیا اور مبصرین کو مدعو کر لیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے غیرملکی میڈیا اور مبصرین کی رجسٹریشن کے لیے اوپن ڈور پالیسی رکھی ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ افراد کی رجسٹریشن نہیں کی جائے گی۔ ہر غیر ملکی صحافی کو تمام کوائف اور دستاویزات جمع کروانا ہوں گے۔ اداروں سے منسلک افراد کیلئے اتھارٹی لیٹر کی شرط لازم قرار دی گئی ہے۔ غیر ملکی مبصرین کو حکومتِ پاکستان کی سکیورٹی کلیئرنس کی شرائط پر بھی پورا اترنا ہو گا۔یہ ہدایات ماضی میں بھی جاری ہوتی رہی ہیں۔ غیرجانبدار مبصرین اور غیر سرکاری تنظیموں‘ جن کو وزارتِ اقتصادی امور کے ہاں رجسٹریشن مل چکی ہے‘ ان کو ہی مبصرین کا درجہ دیا جاتا ہے۔
آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے قیاس آرائیاں کرکے عوام میں کنفیوژن پیدا کیا جا رہا ہے کہ خیبر پختونخوا مالی بحران کی وجہ سے دیوالیہ ہو رہا ہے اور امکان ہے کہ گورنر خیبر پختونخوا آئین کے آرٹیکل 235 کے تحت صوبے کو دیوالیہ قرار دے کر معاشی ایمرجنسی نافذ کر کے ملک میں عام انتخابات کو مؤخر کرنے کی سفارشات پیش کر دیں۔ اس بابت آئینی پس منظر یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 235 کے تحت معاشی ایمرجنسی لگانے کے لیے صدرِ مملکت متعلقہ گورنر کی سفارشات پر معاشی بحران کو دیکھتے ہوئے معاشی ایمرجنسی لگانے کے مجاز ہیں لیکن تمام اختیارات صدرِ مملکت کو حاصل ہیں اور اس مقصد کیلئے آئین کے آرٹیکل 234(4) کے تحت تین ماہ کیلئے درپیش معاشی بحران کے پیشِ نظر معاشی ایمرجنسی لگائی جا سکتی ہے اور اس کیلئے آئین کے آرٹیکل 233 کے تحت بنیادی حقوق سے متعلق آئین کے آرٹیکل 15‘16‘17‘18اور19کو معطل کرنا پڑے گا۔ اگر کسی صوبے کے گورنر نے معاشی ایمرجنسی آئین کے آرٹیکل 235 کے تحت لگانے کی سفارش صدرِ مملکت کو بھجوا دی تو تمام صوابدیدی اختیارات صدرِ مملکت کو ہی حاصل ہوں گے یعنی گورنر کے معاشی ایمرجنسی لگانے کے اختیارات صدرِ مملکت کی منظوری سے مشروط ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں