(کل رات خواب میں دیکھا کہ لاہور کے اقبال پارک میں ایستادہ مینار پاکستان بہت اُداس ہے اور آنسو بس ٹپکنے ہی والے ہیں۔ اُداسی اور افسردگی کا سبب پوچھا تو بَھرّائی ہوئی آواز میں بولا کہ وطن اور اہل وطن کو دیکھ دیکھ کر دِل بیٹھا جارہا ہے۔ مینار پاکستان نے دُکھی مَن سے جو کچھ کہا وہ ہم یہاں بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔) میں چھ عشروں سے ایک جگہ کھڑا ہوں۔ مگر اِس دوران مُلک کہیں سے کہیں نکل گیا ہے اور اہل وطن خدا جانے کون کون سے کوچوں کی خاک چھانتے پھر رہے ہیں۔ میں کہیں جانا بھی چاہوں تو نہیں جاسکتا۔ قراردادِ پاکستان کی نشانی ہوں۔ یہ وہ قرارداد ہے جس پر ہندوستان کے مسلمان ڈٹ گئے تھے، اِس لیے احتراماً میں بھی اب تک ڈٹا ہوا ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگ مجھے بھول گئے ہیں۔ اہلِ پاکستان کے دِل میں میرا احترام ہے۔ اِس کا سب سے بڑا ثبوت میرا اب تک برقرار رہنا ہے۔ اگر عوام کے دِلوں میں میرے لیے پائے جانے والے احترام کا خوف نہ ہوتا تو اختیار رکھنے والے نہ جانے میرے ساتھ کیا کرتے۔ لوگ میری طرف آتے وقت بہت جوش و جذبہ دکھاتے ہیں مگر اقبال پارک میں داخل ہوتے ہی سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ اُنہیں یاد نہیں رہتا کہ جس جگہ میں آج بھی گردن اونچی کرکے کھڑا ہوں وہاں برصغیر کے مسلمانوں نے اللہ کے دین کو عملی شکل دینے کے لیے ہندوستان میں ایک قطعہ زمین حاصل کرنے کا ارادہ کیا اور پھر اُس پر ڈٹ گئے۔ یہ اُن کا مُصمّم ارادہ ہی تھا جس نے خواہش کو نتیجہ خیز ثابت کیا۔ مگر افسوس کہ خوابوں کی جنت پاکستان حاصل کرنے کے بعد ارادوں میں مضبوطی، خیالات میں گہرائی و گیرائی اور کردار میں عظمت باقی نہ رہی۔ میری خواہش ہے کہ جو لوگ میری زیارت کو آئیں وہ میرے سینے پر لِکھی ہوئی قراردادِ پاکستان پڑھیں، کچھ تحریک پائیں اور مُلک کے لیے کچھ کر گزرنے کے عزم کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کریں۔ یہ بات بھی میرے دِل کو دُکھاتی ہے کہ میرا مسکن یعنی اقبال پارک اب صرف وقت گزارنے کا مقام ہوکر رہ گیا ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ میں سَر اُٹھائے کھڑا ہوں۔ مگر سچ یہ ہے کہ میرا سَر جُھکا ہوا ہے۔ کیوں نہ جُھکے؟ اب ایسا کیا ہے کہ فخر سے سَر اُٹھاکر رہوں؟ اہلِ وطن نے کبھی سوچا ہے کہ بانیانِ پاکستان کے ارادوں کی بلندی کیا تھی اور وہ کِن پستیوں میں جا گرے ہیں۔ لوگ میرے دامن میں آکر وطن اور وطن پرستی دونوں کو بُھلاکر لغویات کے پہلو نشیں رہتے ہیں۔ کون سا کھیل تماشا ہے جو میرے دامن میں اور میرے سامنے نہیں ہوتا۔ میرا وجود کیا اب اِس کام کے لیے رہ گیا ہے کہ دُنیا بھر سے چھانٹے ہوئے دعوے میرے سائے میں بڑھک کے سے انداز سے دُہرائے جائیں؟ کیا میرا یہی مصرف ہے کہ لوگ آئیں اور صرف موج میلہ کرکے چلے جائیں؟ اہل وطن کو یاد ہوگا۔ علامہ اقبالؔ نے کہا تھا ؎ زائرانِ کعبہ سے اقبالؔ یہ پوچھے کوئی کیا حرم کا تحفہ زَم زَم کے سوا کچھ بھی نہیں میں بھی اہلِ وطن سے ایسا ہی سوال کرنے پر مجبور ہوں۔ کیا علامہ اقبالؔ سے موسوم اِس پارک کے قلب میں میرا وجود اب صرف اِس لیے ہے کہ لوگ آئیں، کچھ دیر ہنسی مذاق کریں اور دامن جھاڑ کر اپنے اپنے گھروں کو چل دیں؟ میں جس جگہ کھڑا ہوں اُسے اقبال پارک سے قبل منٹو پارک کہا جاتا تھا۔ لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید علامہ اقبالؔ سے قبل یہ پارک سعادت حسن منٹو سے موسوم تھا! یہی سبب ہے کہ میرے سائے میں بیٹھ کر اُنہوں نے منٹو کے افسانوں کی زبان میں بولنا اور اُن افسانوں میں بیان کردہ حرکات و سَکنات کو اپنانا شروع کردیا! منٹو کی زبان کو صرف پڑھا جاسکتا ہے، دُہرایا اور اپنایا نہیں جاسکتا۔ رہی سہی کسر اہل سیاست نے پوری کردی ہے۔ جس کِسی کو جلسے کے نام پر سیاسی کھیل تماشا کرنا ہو وہ میری طرف دوڑا چلا آتا ہے۔ میرے سامنے بلکہ میرے سائے میں سیاست دان عوام کو بہلانے پُھسلانے کے لیے ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ میں تو کھڑا رہتا ہوں مگر میرا سَر شرم سے جُھکا رہتا ہے۔ کاش کوئی میرے سَر کا جُھکنا دیکھ سکے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اِن سبز باغ دِکھانے والوں کو کیسے روکوں؟ وطن اور اہلِ وطن کا جو حال ہے اُسے دیکھ دیکھ کر کُڑھتا رہتا ہوں اور دِل مَسُوس کر رہ جاتا ہوں۔ کاش ایسا ہو کہ لوگ میرے پاس آئیں اور وطن کے لیے کچھ کر گزرنے کا عزم لے کر جائیں۔ اللہ نے بر صغیر کے مسلمانوں پر جو احسان کیا تھا اُس کا شُکر ادا کرنے کی توفیق اب تک کِسی کو نہیں ہوئی۔ چھ عشرے بیت چکے ہیں مگر اب تک طے نہیں ہو پایا کہ 23 مارچ 1940 کو منظور ہونے والی قرارداد پر عمل کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والے ملک کا کیا کرنا ہے۔ سبھی اِس سے کھیلتے آئے ہیں اور میرے نصیب میں صرف تماشا بنا رہنا لِکھ دیا گیا ہے۔ امن اور بد امنی کے درمیان چوہے بلی کا کھیل جاری رہتا ہے۔ کچھ دِن ڈھنگ سے گزرتے ہیں اور پھر مُلک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ آج پھر قوم یہ عہد کر رہی ہے کہ اِس سرزمین کے لیے سب کچھ قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔ مگر صاحب !یہ سب تو بس دعوے ہیں، باتیں ہیں اور باتوں سے بھی کبھی کِسی کا بھلا ہوا ہے؟ سب کچھ قربان کرنے کی باتیں کرنے والے کچھ نہیں کرتے۔ اور میں کب کہتا ہوں کہ قربانیاں دیجیے؟ سوال مَر مِٹنے کا نہیں، ڈھنگ سے جینے کا ہے۔ میری حسرت ہے کہ لوگ اِس سرزمین کے لیے صرف مَر مِٹنے کا جذبہ نہ رکھیں بلکہ جینے کا حوصلہ بھی پیدا کریں۔ کچھ مُشکلات تو دُشمنوں کی پیدا کردہ ہیں۔ اور وہ تو فِطری ہیں۔ اُن کا تدارک قوم کو کرنا ہے۔ مگر اُن پریشانیوں کا کیا علاج جو اپنوں کی ’’عنایت‘‘ ہیں؟ اُن سے بھی ہمی کو نبرد آزما ہونا ہے۔ اچھا ہے کہ دُشمنوں سے نِمٹنے سے قبل اپنوں کو مَنالیا جائے، قومی دھارے میں لے آیا جائے۔ ہاں، جن کی فِطرت یا جبلّت میں شرارت لِکھی ہو اُن سے سختی کے ساتھ ہی نمٹا جانا چاہیے۔ 73 سال قبل منظور کی جانے والی قرارداد پر پوری دیانت اور لگن سے عمل ہوتا تو آج مُلک کا یہ حال نہ ہوتا اور میں آزردہ و شرمسار نہ ہوتا۔ رب سے دعا ہے کہ اِس قوم کے ارادے ایسے بلند ہوں کہ میں دیکھوں تو کوتاہ قامتی کا احساس ہو۔ اللہ اِس قوم کو میرے دُکھ دُور کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!