روشنیوں کا شہر۔ رونقوں کی بستی۔ قہقہوں کا معمورہ۔ زندہ دِلی سے مُزیّن گلیاں۔ ہنستے گاتے گلیارے، پُرمسرت زندگی۔ پُرکیف شب و روز۔ محنت کرتے لوگ۔ پسینے کے موتیوں سے چمکتی جبینیں۔ مشقت کا صِلہ پاتے ہاتھ۔ علم کی توقیر۔ فن کا احترام۔ کبھی الفاظ کے یہ مجموعے کراچی کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوا کرتے تھے۔ اِن میں سے کوئی بھی لفظ ایسا نہیں جو جانا پہچانا نہ ہو۔ تب کراچی بھی جانا پہچانا تھا۔ زندگی کو بیان کرنا ہو تو زیست کہیے، حیات کہیے، حیاتی کہیے، جیون کہیے، جندڑی کہہ جائیے۔ مگر جب زندگی کے نام پر محض سانسوں کا ربط باقی رہ جائے، سُورج کے طلوع اور غروب ہونے، محض شب و روز کے گزرنے کا عمل زندگی کا متبادل قرار پائے تو کیا اور کیوں بیان کیجیے اور دِل کی حالت کے بیان کو الفاظ کہاں سے لائیے؟ جن گلیوں میں زندگی چوکڑیاں بھرتی پھرتی تھی، اُن میں خوف اور بے یقینی نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ جو بستیاں کبھی اُجالوں کا مسکن تھیں اُن میں اب بے یقینی کے اندھیرے ہیں۔ جن راستوں پر عشروں سے چلتے آئے ہیں وہی اب اجنبی ہوئے جاتے ہیں۔ شہر کی سیرت تو بہت پہلے بدل گئی تھی، اب صورت بھی کچھ کی کچھ ہوگئی ہے۔ شہر کی حالت اور حُلیہ یہ ہے کہ … پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی! جہاں درختوں سے بھرے آنگنوں والے گھر تھے وہاں اب کنکریٹ کا جنگل کھڑا ہے۔ جو بستیاں سانس لیا کرتی تھیں وہ اب محض سُتونوں، دیواروں، دروازوں اور کھڑکیوں کے مجموعے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ دولت کی ہوس نے مکانات پر تو منزلیں چڑھادی ہیں مگر قناعت اور سُکون کی منزل ہم بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں! زندگی کی اے ٹی ایم سے سب کچھ نکالنے کی ہوس تو ہے مگر عمل کے کھاتے میں کچھ جمع کرانے کی توفیق ہے نہ سَکت! دُنیا کو مُٹّھی میں بند کرنے کی آرزو ہے مگر پیروں کو اِتنی زمین بھی مَیسر نہیں کہ ڈھنگ سے کھڑا ہوا جاسکے! دیدۂ بینا کی اشد ضرورت ہے مگر اُس کا تو نشان تک نہیں ملتا۔ جو کچھ بھی دیکھنا ہے، تصور کی آنکھ سے دیکھا جارہا ہے۔ خوش گمانیوں کی غیر حقیقی فضاء میں سانس لینے کو بصیرت سمجھ لیا گیا ہے! کہاں کا دیدۂ بینا اور کیسی بصیرت؟ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے بس وہی حقیقت ہے۔ اور دِل کی آنکھ؟ ہوتی ہوگی کہیں، ہمیں اُس سے کیا کام! جب دِل ہی نہیں رہا تو دِل کی آنکھ کہاں سے لائیں؟ جن کے دِل کی زمین پر اب تک محبت کی کِسی کلی نے کِھل کر پُھول کی شکل اختیار نہیں کی وہ پُھولوں سے بسے شہر کو کانٹوں کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کی سازش پر عمل پیرا ہیں۔ بے عملی کا پودا لگاکر وہ پھل پانے کی تمنا ہے جو عمل کا بیج بونے پر ملتا ہے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ فطرت اپنے اُصول کہاں بدلتی ہے؟ دھارے کے خلاف جاکر تیرنا کِس کے بس کی بات ہے؟ اور اگر یہ بس میں ہو تب بھی منطق تو بہر حال لازم ہے۔ ضرورت نہ ہو تو محض خواہش کی غلامی اختیار کرکے ایسا کرنا نِری حماقت کے سِوا کچھ نہ ٹھہرایا جائے گا۔ دھارے کے خلاف تیرنا شجاعت کی نشانی ہے۔ جن کی آنکھوں پر ناپختہ شعور کے پردے پڑے ہوئے ہیں اُنہوں نے فطرت کے اُصول ترک کرنے کے قبیح عمل کو بھی دھارے کے خلاف بہنا سمجھ لیا ہے! خام خیالی کو دانش تسلیم کرلیا جائے تو پھر کچھ کا کچھ سمجھ میں آتا ہے! کبھی جو شہر روشنیوں سے عبارت تھا اُس کے مکین اب تاریکی کو اپنا مُقدر بنا بیٹھے ہیں۔ باہر کی دنیا کو کِسی نہ کِسی طور روشن رکھنے کا اہتمام کرلیا گیا ہے مگر باطن میں تو اندھیرا ہی اندھیرا بسا ہوا ہے، ظلمت ہی ظلمت کُنڈلی مارے بیٹھی ہے۔ جہاں ظلم کو زندگی کے چلن اور معمول کا درجہ حاصل ہو رہے، وہاں ظلمت ہی کا تو راج ہوگا! جس نے متوازن اور ٹھوس اُصولوں کی بنیاد پر یہ کائنات اُستوار کی ہے وہ ہمارے لیے اپنے اُصول کیوں بدلے گا؟ وہ چاہے تو بدل بھی سکتا ہے مگر کوئی خود کو پہلے ایسی مسندِ عالی پر فائز تو کرے کہ تقدیر کا تعین اُس سے پوچھ کر ہو، تقدیر لِکھنے والا خود اُس سے رضا پوچھنے پر مائل ہو! جو شہر پُورے ملک کے لیے زندگی کی سب سے توانا علامت تھا وہ اب مُردنی سے عبارت ہوتا جارہا ہے۔ محض زندہ رہنے (یا بچ پانے) کو سب کچھ، بلکہ زندگی کا مقصدِ اوّلیں مان لیا گیا ہے! امکانات کی نگری کو سب نے مِل کر بانٹ لیا ہے۔ کہیں بھی معاملہ قانون پر عمل تک پہنچے تو ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ آستینیں چڑھاکر میدان میں نکل آتے ہیں! دھونس، دھمکی، طاقت، چالبازی اور خوشامد یا پھر اِن سب خصلتوں کے مِلے جُلے استعمال سے جس نے جو کچھ حاصل کرلیا ہے اُس سے بال برابر بھی دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ ایک بسا بسایا شہر لاوارث سا ہوکر رہ گیا ہے۔ اِس گائے سے دُودھ تو سبھی دوہنا چاہتے ہیں مگر اِسے بروقت دانہ اور چارا ڈالنے، صحت کا خیال رکھنے کی فکر بظاہر کِسی کو لاحق نہیں۔ سب نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اِنسانوں کو تو خوراک، علاج اور آرام کی ضرورت پڑتی ہے مگر شہر کو کبھی بھوک لگتی ہے نہ وہ بیمار پڑتا ہے۔ ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ کو کِس زبان میں سمجھایا جائے کہ شہر بھی زندگی سے مَتّصِف ہوتے ہیں۔ اُنہیں بھی بُھوک لگتی ہے، وہ بھی تھک جاتے ہیں، اُنہیں بھی آرام اور تیمار داری کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ بھی چاہتے ہیں کہ اُن کے لیے فراغت کے لمحات کا اہتمام کیا جائے۔ زندہ اِنسانوں کو جو اپنے دامن میں سَمولے اور شفیق ماں کی طرح بُھوکا نہ سونے دے وہ بستی، وہ شہر زندگی سے عاری کیونکر ہوسکتا ہے؟ بے حِسی کِس مقام پر لے آئی کہ ٹارگٹ کلنگ میں معذوروں کو بھی استثنٰی نہیں مِل رہا، بچوں کو بھی بخشا نہیں جارہا اور خواتین کا احترام اب قِصّوں، کہانیوں میں پڑھی ہوئی بات لگتی ہے! اسٹیک بچانے کے نام پر ہر عمل، بلکہ بد اعمالی کو درست اور جائز قرار دیا جاچکا ہے۔ خُون کی حُرمت کا تقاضا یہ ہے کہ اِسے بچانے پر توجہ دی جائے۔ تماشا یہ ہے کہ صرف بہہ جانے والے خُون کو پُروقار سمجھا جانے لگا ہے۔ رگوں میں موجود اور گردش کرتے ہوئے خُون کی تو جیسے کوئی وقعت ہی نہیں رہی۔ ایک جیتا جاگتا، ساحل پر آباد شہر سفّاکی، سنگ دِلی، ہلاکت پسندی، لاقانونیت، ظلم، بے انصافی، بے حِسی، وحشت اور بے بسی کی لہروں میں ہچکولے کھاتا ہوا عدم آباد کے ساحل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کشتی بھنور میں پہنچے تو اُس پر سوار سبھی لوگ پریشان ہو اُٹھتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی کوئی سفینہ گزرا ہے جس کے بھنور میں پہنچنے پر تمام مُسافر شادیانے بجائیں اور ’’ایونٹ‘‘ کو پورے جوش و خروش سے ’’سیلیبریٹ‘‘ کریں؟ اگر کِسی نے ایسا کوئی سفینہ نہیں دیکھا تو غم نہ کرے، کراچی کو دیکھے! دو، سوا دو کروڑ اِنسانوں کا ایسا معمورہ کہاں پائیے گا جو رشکِ دشت ہوا جاتا ہے! اینٹوں اور گارے سے بنی عمارتوں میں زندگی ہوتی ہے نہ احساس۔ ٹھیک ہے، مگر جب چلتے پھرتے اِنسانوں کے وجود سے احساس کی صفت خارج ہوجائے تو؟ اُن میں اور عمارتوں میں کیا فرق رہ گیا؟ احساس سے عاری انسانوں اور عمارتوں کا ایسا اِمتزاج دُنیا نے کم کم دیکھا ہوگا۔ معیشت کی شہہ رگ چاہتی ہے کہ اُس پر توجہ دی جائے، اُس کی تکالیف دور کی جائیں تاکہ وہ پوری توانائی کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر قوم کے لیے کچھ کرسکے۔ لکیر پیٹنے سے بہت پہلے سانپ کو پیٹنے کی ضرورت ہے۔