رازق ہونے کے دعویدار بہت ہیں مگر اللہ اُن سب سے بُلند ہے اور حقیقی مفہوم میں وہی رزق عطا کرنے والا یعنی رزّاق ہے۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ کِس حالت میں کِس کے لیے قدرت نے کیا رکھا ہے۔ یہ بات یوں یاد آئی کہ تین چار سال سے اِس سرزمین پر لوگ ہر طرح کے حالات سے کچھ نہ کچھ کشید کرنے کے فن کا مظاہرہ کرتے آ رہے ہیں۔ رحمت کو زحمت میں تبدیل کرکے فوائد بٹورے جا رہے ہیں۔ اب بارش ہی کو لیجیے۔ آسمان سے رحمت برستی ہے تو زمین بہت کچھ پاتی ہے۔ اُس کی زر خیزی بڑھتی ہے اور فصلوں کو استحکام عطا ہوتا ہے۔ اب تک ہم بارش یعنی باران کو غَلّہ اُگانے اور زمین کی پیاس بُجھانے کا ذریعہ سمجھتے آئے ہیں۔ خیر ہو اُن کی جو ہر چیز سے نئے فوائد کشید کرنے میں یدِ طُولیٰ رکھتے ہیں۔ اُن کی بدولت ہم پر اپنی سادہ لوحی کی حقیقت بے نقاب ہوئی ہے اور یہ معلوم ہوسکا ہے کہ بارش محض زمین کی پیاس بُجھانے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اِس سے تو اُن کی ہوسِ زر کی آگ بھی ٹھنڈی ہوتی ہے جو آنے والی کئی نسلوں کی زندگی سنوارنا چاہتے ہیں! تین سال قبل جب مون سون آیا تھا تو سیلابی ریلے بھی لایا تھا۔ غریبوں کو تو اِن ریلوں نے نہ بخشا۔ سبھی کچھ بہاکر لے گئے مگر ہاں، سرکاری مشینری میں اعلیٰ منصب پر بیٹھی ہوئی متعدد شخصیات کو اِتنا کچھ بخش دیا کہ اُن کے دِن پھر گئے! قِصّہ کچھ یوں ہے کہ کچھ تباہی تو برپا ہوئی اور کچھ برپا کی گئی۔ بہت سے غریب جان اور مال دونوں سے گئے۔ اور جو محفوظ رہے تھے اُنہیں مصائب کی نذر کیا گیا تاکہ ماحول بنایا جاسکے۔ ماحول بنانا ضروری تھا ورنہ سیلاب کا راگ کون سُنتا؟ عالمی برادری ہر معاملے میں ثبوت چاہتی ہے۔ ہر طرف تباہی کے مناظر دیکھ کر دوست، دشمن سبھی کے دِل پسیج گئے اور ہر طرف سے خوب امداد ملی۔ امداد کا آنا نیک شگون تھا مگر اُن کے لیے نہیں جن کے لیے جھولی پھیلائی گئی تھی بلکہ یہ سب کچھ تو اعلیٰ ترین سطح کے چند ’’غریبوں‘‘ کے لیے فالِ نیک تھا۔ پاکستان کے اہلِ ایمان رمضان کے فیوض و برکات سے بہرہ مند ہوچکے۔ یہ ماہِ مُبارک بہتوں کے لیے سیزن کا درجہ رکھتا ہے۔ کل تک رمضان کے دوران پھل بیچنے والوں، پکوڑے تلنے والوں اور عید کی تیاریوں میں استعمال ہونے والا سامان فروخت کرنے والے دکانداروں کی چاندی ہوجایا کرتی تھی۔ اب ہر کیٹیگری کے کلاکار اپنا منجن بیچ کر مالی منفعت کی گنگا میں اشنان فرما رہے ہیں! سِتم ظریفوں نے دینی تعلیمات کو بھی اموالِ تجارت کے زُمرے میں ڈال دیا ہے۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ رمضان ایسے ماہِ مُبارک کا تقدس بھی کُھلے بازار کی معیشت کی نذر ہوگیا ہے۔ ہر معاملے کو دُنیوی سُود و زیاں کی کسوٹی پر پرکھا جارہا ہے۔ دین و دانش کے نام پر خالص مادّی منفعت کا منجن بیچنے والے اب کے تمام حدیں پار کرگئے۔ یہ تو ہوا رمضان میں اپنا اپنا منجن بیچنے والوں کے سیزن کا تذکرہ۔ آئیے، اب کچھ سرکاری سیزن کا ذکر ہو جائے۔ مون سون کی بارشیں بھرپور طمطراق سے شروع ہوچکی ہیں۔ بارشیں ہوئی ہیں تو اب دریاؤں میں طُغیانی بھی پیدا ہورہی ہے۔ کچھ دن بعد یہ ہوگا کہ دریا بحرِ ناپیدا کنار کی حیثیت اختیار کرلیں گے۔ اور پھر سیلاب کے درشن ہوں گے۔ بہت سے ایسے ہیں جو سیلاب کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ جان و مال کا بچاؤ کیونکر ممکن ہوسکے گا۔ اور کئی ایسے بھی ہیں جو سیلاب کی آمد کے تصور ہی سے شاداں و فرحاں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سیلابی ریلوں کے ساتھ ڈالر کے ریلے بھی وارد ہوں گے! تباہی کے مناظر دُنیا کے سامنے پیش کئے جائیں گے تو پھیلے ہوئے کشکول میں کچھ نہ کچھ ضرور ڈالا جائے گا! کون غریب یہ چاہے گا کہ سیلاب آئے اور اُس کا سب کچھ بہاکر لے جائے؟ مگر غریب کا بس کہاں چلتا ہے؟ یہ تو بڑوں کو طے کرنا ہے کہ سیلاب کو آنا چاہیے یا نہیں! جس طرح اُصول اور قوانین ہوتے ہی اِس لیے ہیں کہ توڑے جائیں بالکل اُسی طرح بند اور پُشتے بھی اِس لیے بنائے جاتے ہیں کہ آسانی سے ٹوٹ جائیں۔ اور اگر نہ ٹوٹیں تو توڑ دیئے جائیں! کچھ بڑوں کی خواہش ہوتی ہے کہ موسلا دھار بارشیں ہوں، مُنہ زور دریا کناروں کو بُھول جائیں اور اپنے سیلابی ریلوں میں بہت کچھ بہاکر لے جائیں۔ بندوبست ہی کچھ ایسا کیا جاتا ہے کہ سیلاب کا مُوڈ نہ آنے کا ہو تب بھی اُسے آنا پڑتا ہے! جو لوگ سیلاب کا ذکر سُنتے ہی ناک بھوں چڑھاتے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ سیلاب خاصی شرمیلی طبیعت رکھتا ہے۔ وہ بے چارہ خود کہاں آتا ہے، اُسے کھینچ کھانچ کر لانا پڑتا ہے! قدرت نے ہر موسم میں کچھ لوگوں کے لیے رزق رکھا ہے۔ شدید گرمی میں ٹھنڈے مشروبات دَھندا چمک اٹھتا ہے۔ شدید سردی میں سُوپ، یخنی، اُبلے ہوئے انڈے اور مختلف اقسام کے حلوے بیچنے والے سیزن کماتے ہیں۔ رمضان المبارک میں خیرات، صدقات، زکوٰۃ اور فطرہ جمع کرنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اب اہلِ سیاست اور حکومتی مشینری کے بعض اعلیٰ پُرزوں کا بھی ہے۔ قدرت نے اُن کی کمائی کے لیے بارش اور سیلاب کا سیزن رکھ چھوڑا ہے! سیلاب سے بچاؤ کے لیے بند باندھنا وہ روایت ہے جس پر ساری دُنیا عمل کرتی ہے۔ ہم اِس معاملے میں ’’روایت شِکن‘‘ واقع ہوئے ہیں۔ اب ہمارے ہاں ایسے بند باندھے جاتے ہیں جو ٹوٹ کر بُہتوں کو زر کی اُچھلتی کودتی گنگا میں بھرپور اشنان کا موقع فراہم کرتے ہیں! اگر بند نہ ٹوٹیں اور سیلابی ریلے بہت کچھ نہ بہا لے جائیں تو عالمی برادری کا ضمیر کیسے جاگے گا اور وہ سخاوت کا دریا کِس طرح بہائے گی! یہ سعادت بھی پاکستان کے غریبوں کے حصے میں آئی ہے کہ سیلابی ریلوں میں اُنہیں پہنچنے والا نقصان چند ’’امیروں‘‘ کی بُھوک مٹانے یعنی مزید مال بٹورنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ غریب برباد ہوکر بھی بہتوں کو آباد کر جاتا ہے! مون سون قریب آتا ہے تو بند اور پُشتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ شاید یہ اندازہ لگانے کے لیے کہیں دھوکا تو نہیں دے جائیں گے یعنی ٹوٹنے سے اِنکار تو نہیں کریں گے! وہ زمانے لد گئے جب بارش کے آثار نمایاں ہوتے ہی خواتینِ خانہ کو پکوڑے اور دہی بڑے بنانے کی فکر لاحق ہوتی تھی۔ اب تو یہ حال ہے کہ بارش کی کڑھائی میں غریب خود پکوڑے بن جاتے ہیں! جن کی چھتیں ٹپکتی ہیں کوئی اُن کے دِل سے ساون کے ’’مزے‘‘ پوچھے۔ ساون کے ’’مزے‘‘ بیان کرنے کے نام پر وہ خود برس جائیں گے! ساون اور جُھولوں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ اب بھی ہے مگر فرق صرف یہ ہے کہ اب ساون کی جَھڑی لگ جائے تو مصائب غریبوں کو جُھولا جُھلانے پر تُل جاتے ہیں! اِس سال بھی منافع خور تاجروں، موقع پرست سیاست دانوں اور غریبوں کے حق پر دانت گاڑنے والے سرکاری افسران کا سیزن تقریباً بیک وقت وارد ہوا ہے۔ رمضان المبارک میں غریبوں کی جیب سے ایک ایک دَمڑی نکالی جاچکی ہے۔ تاجروں اور دین کے نام پر اپنا اپنا منجن بیچ کر جیبیں بھرنے والوں کا سیزن آخری مرحلے میں ہے۔ اب سیاست دانوں اور حکام کا سیزن وارد ہونے کو ہے۔ برسات نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ آسمان سے غریبوں کے لیے پانی کی شکل میں مسائل برسیں گے اور اُن کی بہبود کا سوچنے پر مامور سیاست دانوں اور حکام کے نصیب کا دَھن برسے گا! مُلک بھر میں بارشیں ہوچکیں تو قدرت کو کراچی پر بھی رحم آگیا۔ ماہِِ مُبارک کے دوران بوندا باندی ہوتی رہی۔ لوگ دعائیں مانگتے رہے کہ بادل ذرا کُھل کر برس جائیں تاکہ دِل کو قرار آئے اور دھرتی کی پیاس بُجھے۔ اب بادلوں نے زورِ بازو دِکھایا ہے تو بات ایسی بنی ہے کہ شہرِ قائد کے رہنے والوں کی جان پر بن آئی ہے! جاذبؔ قریشی نے خوب کہا ہے ؎ کیوں مانگ رہے ہو کِسی بارش کی دُعائیں تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو! صرف ایک دن کی بارش نے شہر کو جام کردیا۔ کچروں سے اَٹے نالے ذرا سی دیر میں بھرگئے۔ سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرنے لگیں۔ لوگ گھروں تک محدود ہوکر رہ گئے۔ چلیے، اللہ نے اپنی رحمت کا جلوہ دِکھایا تو سہی۔ یہ اور بات ہے کہ ہماری نا اہلی نے رحمت کے ’’ر‘‘ پر نُقطہ لگاکر بات بگاڑ دی! ایسی ’’نُقطہ سنجی‘‘ سے اللہ محفوظ رکھے! اور اُن سے بھی جو بارش کو سیلاب میں بدل کر سیزن کمانے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں! ق