بہت کچھ ایسا ہے جسے کہیں جگہ نہ ملی تو ہم میں بس گیا۔ ناشکری ہے کہ ہمارے رگ و پے میں بس گئی ہے۔ حقیقت سے نظر چُرانا ایسی خصلت ہے کہ اب ہم سے جُدا ہونے کو تیار نہیں۔ جو ملا ہے اُس سے ہم ذرا بھی خوش نہیں۔ خواہش ہے تو بس اِتنی کہ جو کچھ ہم ہیں وہ نہ رہیں، کچھ اور ہوجائیں۔ تماشا یہ ہے کہ جس کا ملنا کم و بیش ناممکن ہے اُسے بھی پانے کی ہوس ہے اور اُس کے لیے کسی بھی سطح پر عمل دکھائی نہیں دیتا۔ ایک زمانے سے قوم کی یہ عادت سی ہے کہ مسائل کو حل کرنے کے لیے بھری ہوئی بوتل کا سہارا لیتی ہے تاکہ نشے میں ڈوبنے کے بعد کچھ یاد نہ رہے۔ یا پھر اِس خواہش کی اسیر رہتی ہے کہ دریا کے کنارے یا سمندر کے ساحل پر کوئی ایسی بوتل مِل جائے جسے کھولتے ہی جِنّ آزاد ہوکر ہاتھ باندھے سامنے کھڑا ہوجائے اور ہیبت ناک آواز میں فرمائشی سوال داغے ’’کیا حکم ہے میرے آقا؟‘‘ جنہیں بوتل کی طلب نہیں ہوتی وہ چراغ ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ جیسے ہی ملے، اُسے گِھسیں، جِنّ باہر نکلے اور غلامی اختیار کرنے پر بضد ہو۔ جِنّ پرستی بجائے خود کسی جِنّ کی طرح ہمارے لاشعور کی بوتل میں بند ہوچکی ہے۔ جب بھی ضرورت پڑتی ہے، ہم اِس بوتل کا ڈھکن ہٹاکر جِن کو باہر نکالتے ہیں اور تمام معاملات اُس کی صوابدید پر چھوڑ کر سُکون کا سانس لیتے ہیں۔ ہماری خواہشات اور لاشعور میں بسا ہوا ہر جِنّ (ہماری توقعات کے عین مطابق) مسائل حل کرنے کا وعدہ کرکے کام پر نکل جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ہر طرف جِنّ پرستی رقص کر رہی ہے۔ لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہر معاملے میں کسی جِن کی آمد کی منتظر رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب ہر معاملے میں جِنّاتی انداز در آیا ہے۔ ہر معاملے کو جِنّاتی انداز سے درست کرنے کی روش اپنانے کا رُجحان دن بہ دن پروان چڑھتا جارہا ہے۔ حکومتیں اِسی انداز کو اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ کسی بوتل سے کوئی جِن نکلے اور بگڑے کام بنادے۔ یا کہیں سے کوئی چراغ مِلے جسے رگڑتے ہی جِنّ برآمد ہو، آن کی آن میں سب کچھ درست کرنے کا وعدہ کرے اور کام پر روانہ ہوجائے۔ جِنّ پرستی کیوں پروان نہ چڑھے؟ اگر مسائل حل کرنے پر قومی خزانہ صرف ہو تو یاروں کے ہاتھ کیا آئے گا؟ مسائل حل کرنے کے لیے جِنّ کی تلاش کا رُجحان اب اِس قدر زور پکڑ چکا ہے کہ ہر وزارت، محکمے اور ادارے کے معاملات کی دُرستی کے لیے ایک ’’فل فلیجڈ‘‘ جِنّ درکار ہے۔ حکومتی سطح پر بھی عمل سے زیادہ ’’عامل‘‘ پر توجہ دی جاتی ہے۔ جِنّات پر قابو پانے کا دعویٰ کرنے والے عامل ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ اہم سے اہم تر ہوتے جارہے ہیں۔ سوچ کے ستون میں یہ نکتہ نصب ہوچکا ہے کہ جِنّات کا بندوبست نہ کیا گیا تو معاملات کبھی دُرست نہ ہوسکیں گے۔ سوال یہ ہے کہ وزارتوں اور محکموں میں جِنّات کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ عشروں کی خرابی نے وزارتوں اور محکموں کو ویرانوں میں تبدیل کردیا ہے۔ ویرانوں میں بھوت بستے ہیں۔ بیشتر وزارتوں اور محکموں میں اِسی لیے بہت سے ’’گھوسٹ‘‘ ملازمین پائے جاتے ہیں! کسی بھی ’’گھوسٹ‘‘ سے لڑنا اور اُسے ہرانا انسانوں کے بس کی بات نہیں‘ اِس لیے جِنّات کو زحمتِ کار دی جاتی ہے۔ ’’گھوسٹ‘‘ بھی بہت عجیب لفظ ہے۔ عرفِ عام میں ہر اُس چیز کو گھوسٹ قرار دیا جاتا ہے جو نادیدہ ہو، دکھائی نہ دیتی ہو۔ وزارتوں اور محکموں میں جو ملازمین پائے نہیں جاتے وہ گھوسٹ کہلاتے ہیں۔ مگر تماشا یہ ہے کہ جو ملازمین گھوسٹ نہیں وہ بھی پائے نہیں جاتے۔ کوئی خوش نصیب اُنہیں کبھی کبھار ہی دیکھ پاتا ہے۔ اِس لحاظ سے سوچیے تو وزارتوں اور محکموں میں ہر طرف گھوسٹ ہی گھوسٹ ہیں اور اِن کی مِلی جُلی کوششیں قومی وسائل کو بھی گھوسٹ میں تبدیل کردیتی ہیں۔ جِنّ پرستی کے مستحکم ہوتے ہوئے رجحان نے ہم میں بہت سی تبدیلیوں کو راہ دی ہے۔ اب ہم انسانوں سے زیادہ تعلقات رکھتے ہیں نہ توقعات۔ قدم قدم پر یہی خواہش توانا رہتی ہے کہ کوئی آئے اور تمام مسائل حل کر جائے۔ جِنّ پرستی کا عالم یہ ہے کہ اب اِنسان پرستی اور اِنسان دوستی عیوب کے زُمرے میں شامل کی جاچکی ہے۔ عالم یہ ہے کہ سبھی اِنسان پرستی کے الزام سے بچنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے لیے جِنّات اور بھوت کوئی انہونی یا انوکھی مخلوق نہیں۔ ہماری دوستی مرزا تنقید بیگ سے ہے۔ اِس دوستی کا ایک بڑا کمال یہ ہے کہ ہم زمین پر بسنے والی غیر اِنسانی مخلوق سے اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہم جِنّات اور بھوت پریت پر زیادہ یقین نہیں رکھتے تھے مگر مرزا نے ہمیں اپنی رائے بدلنے پر مجبور کردیا۔ وہ اپنے فکر و عمل سے ثابت کرتے رہتے ہیں کہ اُن کا آبائی علاقہ کہیں دور، کوہِ قاف میں ہے! دوستی ہی کو لیجیے۔ وہ اِس معاملے میں بھی جِنّاتی طرزِ عمل ترک نہیں کرتے۔ جب ملتے ہیں، ہمارے اِس تاثر کو پختہ تر کردیتے ہیں کہ ان کا مزاجی اور نوعی تعلق اِنسانوں سے نہیں۔ جب بولنے پر آتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے کوئی چراغ رگڑ کر اُنہیں نکالا ہے اور دوبارہ بند کرنا بھول گیا ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ مرزا جس چراغ میں بند تھے اُس کچھ زیادہ ہی رگڑ دیا گیا ہوگا یعنی مرزا کا دماغ بھی تھوڑا سا گِھس گیا۔ جب ہم نے مرزا سے جِن پرستی کا شِکوہ کیا تو تقریباً پھٹ پڑنے کے انداز سے بولے: ’’یہ قوم جس حال میں خوش ہے اُسی حال میں خوش رہنے دو۔ یہی خوش خوش زندہ رہنے کا بہترین اور تیر بہ ہدف نُسخہ ہے‘‘۔ ہم نے عرض کیا کہ اِس طور زندہ رہنا کِس کام کا؟ یہ تو حقیقت سے فرار کی ایک صورت ہے۔ آنکھوں دیکھی مکھی نگلنا بھلا کب سے اچھا عمل ہوگیا؟ مرزا نے ہمیں گھورتے ہوئے کہا: ’’اگر کسی عمل سے قوم کو سُکھ اور سُکون ملتا ہے تو تم جیسے لوگوں کو کیا پریشانی لاحق ہے؟ تم تو بس یہ چاہتے ہو کہ لوگ پریشان رہیں، اُلجھے رہیں۔ تم کیوں چاہوگے کہ لوگ کسی نہ کسی طور سُکھ کی نیند سوئیں اور تازہ دم اُٹھیں؟ اگر قوم نے جن پرستی اختیار کرلی ہے تو کیا ہوا؟ جنّات بھی تو اللہ ہی کی مخلوق ہیں۔ اُن سے مسائل کے حل کی توقع وابستہ کرنا کون سی بُری بات ہے‘‘۔ مرزا کی باتیں ہم سے ہضم تو نہ ہوئیں مگر ہم نے بحث کو طول دینا مناسب نہ جانا۔ مرزا جب کسی معاملے میں فریقِ ثانی کی تذلیل پر کمر بستہ ہوجائیں تو جِنّاتی انداز اختیار کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔