شہزادی حُسن بانو نے حاتم طائی سے سوال کیا تھا کہ ایسا کیا ہے کہ جسے ایک بار دیکھا ہے اور دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے۔ ہمیں معلوم نہیں حاتم طائی نے درست جواب دیا تھا یا نہیں مگر اِتنا ہم ضرور جانتے ہیں کہ شہزادی حُسن بانو نے یہ سوال ہم سے پوچھا ہوتا تو ہم جیت جاتے۔ ویسے تو خیر سے اب پورا پاکستان ہی زندہ طلسمات ہے مگر چند ایک چیزیں اِس قدر منفرد ہیں کہ اُنہیں دیکھے تو افسانوں اور داستانوں میں پایا جانے والا زندہ طلسمات بھی اپنی بے بضاعتی پر شرمسار ہو! دعوے کرنا بہت آسان ہے۔ جب دعووں کو ثابت کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو اچھے اچھوں کے چَھکّے چُھوٹ جاتے ہیں، پیشانی پر ندامت کے قطرے چمکنے لگتے ہیں۔ سب کچھ سمجھنے اور سمجھانے میں کامیابی کا دعویٰ کرنے والے ذرا سندھ کابینہ پر ایک نظر ڈالیں اور بتائیں کہ کیا سمجھ پائے ہیں! یہ ایسا زندہ طلسمات ہے جسے سمجھنے کا بیڑا جس نے بھی اُٹھایا اُس کا ذہن پھر سلامت نہ رہا! برادرم منصور مغیری سندھ حکومت سے متعلق امور کی رپورٹنگ میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ’’براجمانی خبریں‘‘ دینے میں اُن کا شاید ہی کوئی ثانی ہو۔ آپ سوچیں گے یہ ’’براجمانی خبریں‘‘ کون سی ہوتی ہیں۔ سندھ کا انتظامی سیٹ اپ اور حکومتی ڈھانچا ہے ہی کچھ اِس نوعیت کا کہ جو سمجھنا چاہتا ہے وہ اُلجھ کر رہ جاتا ہے۔ منصور مغیری اُن افسران کے بارے میں خبریں دینے میں مہارت رکھتے ہیں جو ٹرانسفر آرڈرز ملنے پر اپنی سیٹ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں یعنی اپنی سیٹ پر مضبوطی سے براجمان رہتے ہیں۔ منصور مغیری ہم سے متفق ہوں یا نہ ہوں، حقیقت یہ ہے کہ ہمیں تو اب پوری سندھ کابینہ ہی ’’براجمانی‘‘ مزاج کی معلوم ہوتی ہے۔ جس کے ہاتھ میں جو محکمہ آگیا ہے وہ اُسے مضبوطی سے تھامے بیٹھا ہے اور چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ بعض احباب نے تو اپنے محکموں کو اِس مضبوطی سے تھام رکھا ہے کہ اُن کا دَم گھٹنے لگا ہے! وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ صاحب ہی کی مثال لیجیے۔ اُنہوں نے ایک نہیں، دو نہیں، پورے 16 محکموں پر قبضہ جما رکھا ہے۔ ہوسکتا ہے شاہ صاحب اور اُن کے چاہنے والوں کو لفظ ’’قبضہ‘‘ اچھا نہ لگے مگر خیر، اِس لفظ کو تبدیل کرنے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی۔ شاہ صاحب عمر کے جس مرحلے میں ہیں اُسے دیکھتے ہوئے یہ محکمے اب مقبوضہ حالت ہی میں ہیں! منصور مغیری صاحب نے 16 محکموں کا ذکر کرتے ہوئے شاہ صاحب کے ناتواں کاندھوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ ہمیں اِس پر اعتراض ہے۔ اگر شاہ صاحب کی عمر تھوڑی زیادہ ہوگئی ہے تو کیا ہوا؟ یہ کیا کم ہے وہ کسی نہ کسی طرح دفتر اٹینڈ کر لیتے ہیں؟ سرکاری دفاتر میں حاضری کا مسئلہ نیا نہیں۔ ایسے میں کوئی وزیر اعلیٰ اگر دفتر آ بھی جائے تو بڑی بات سمجھیے۔ کام کا کیا ہے، وہ تو ہو ہی جاتا ہے۔ منصور مغیری صاحب نے اپنی رپورٹ میں تبصرے کے طور پر یہ بات بھی کہی ہے کہ شاہ صاحب وزیر اعلیٰ کے منصب پر زیادہ توجہ دینے کے باعث 16 محکموں کا بوجھ کاندھوں سے اُتارنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم یہ کیسے مان لیں کہ شاہ صاحب کے لیے یہ محکمے بوجھ ہیں؟ جب شاہ صاحب نے اِن محکموں کو اپنے کاندھوں پر اُٹھایا ہی نہیں یعنی اِن کا کام ہی نہیں کرتے تو پھر بوجھ کیسا؟ شاہ صاحب داخلہ، سیاحت و ثقافت، آب پاشی، بجلی سے توانائی، منصوبہ بندی و ترقیات، ٹرانسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ اور دوسرے محکموں کے انچارج ہیں۔ لوگوں کو اِس بات پر تو اعتراض ہے کہ ایک شخصیت نے 16 یا اِس سے بھی زائد محکمے سنبھال رکھے ہیں مگر اِس نکتے پر غور نہیں کرتے کہ ایسے ’’کارنامے‘‘ ہی گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈز میں انٹری کی طرف لے جاتے ہیں! گنیز بُک والے پریشان رہا کرتے ہیں کہ مزید انٹریز کہاں سے لائیں۔ ایسے میں اگر ہمارے حکمران اُن کے لیے تھوڑی بہت آسانی پیدا کر رہے ہیں تو یہ تنقید کا محل ہرگز نہیں۔ پندرہ بیس محکموں کا چارج اپنے ہاتھ میں رکھنے کے حوالے سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی خاصی شہرت رکھتے ہیں مگر خاطر خواہ توجہ نہ دے پانے کے حوالے سے شاہ صاحب قدرے بازی لے جاتے دکھائی دے رہے ہیں! منصور مغیری صاحب کے ’’براجمانی‘‘ فارمولے پر سندھ کے وزیر اعلیٰ اِس لیے بھی پُورے اُترتے ہیں کہ ’’قائم‘‘ اُن کے نام کا بُنیادی جُز ہے! وہ اِس بار بھی سندھ حکومت میں قائم و دائم ہیں اور کابینہ میں اپنا نظامِ شمسی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ سندھ کابینہ کے نظامِ شمسی میں کئی شخصیات بیک وقت سیاروں اور ستاروں کا درجہ رکھتی ہیں۔ ستارے یوں کہ اِن کی اپنی چمک دمک بھی ہے اور سیّارے یوں کہ وزیر اعلیٰ کے گرد گُھومتے رہنا بھی اِن کے مزاج اور فریضۂ منصبی کا حصہ ہے! صدر زرداری کے منہ بولے بھائی اویس مظفر کے پاس بلدیات، ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور دیہی ترقی کے محکمے ہیں۔ ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ کا محکمہ اُن پر خوب پھبتا ہے کیونکہ اُن کی طرزِ عمل اقبالؔ کے اِس مصرع کے مصداق ہے کہ ع کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد سابق وزیرِ داخلہ منظور وسان کو اِس بار جیل خانہ جات، اینٹی کرپشن اور مائنز اینڈ منرلز کے محکمے ملے ہیں۔ معدنی وسائل اور کُھدائی کا چارج ملا ہے تو وہ اپنے محکموں میں مرضی سے کُھدائی کرواکے ضرورت کے مطابق معدنیات نکال سکتے ہیں۔ جیل خانہ جات کے ساتھ اینٹی کرپشن کا چارج دیا جانا بھی کم دلچسپ نہیں۔ جو اینٹی کرپشن والوں کی بات نہیں مانے گا وہ جیل کی ہوا تو کھائے گا! گیان چند کے پاس جنگلی حیات، جنگلات اور اقلیتوں کے اُمور کے محکموں کا چارج ہے۔ جنگلات اور جنگلی حیات کا تال میل تو سمجھ میں آتا ہے مگر ہم یہ نہیں سمجھ پارہے کہ اِن دونوں کے ساتھ اقلیتی اُمور کا ٹانکا کیوں بِھڑایا گیا ہے! شرجیل انعام میمن کو اِس بار انعام میں اطلاعات کے ساتھ صنعتوں کا قلمدان بھی ملا ہے۔ یہ تال میل کچھ کچھ سمجھ میں آتا ہے۔ اطلاعات و نشریات یعنی میڈیا کو اب صنعت کا درجہ حاصل ہے۔ یہ ہمیں نہیں معلوم کہ شرجیل میمن کے پاس صنعتوں کی کچھ اطلاع بھی ہے یا نہیں! جام خان شورو کے پاس لائیو اسٹاک اور فشریز کے محکمے ہیں۔ سندھ کابینہ کی کارکردگی ایسی رہی ہے کہ کل کو مویشی تیرتے ہوئے دکھائی دے سکتے ہیں اور مچھلیوں کو آپ گھاس پُھوس چرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں! مکیش کمار چاؤلہ کو ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا قلمدان بھی دیا گیا ہے۔ بہت خوب۔ کابینہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بات تو ہوتی ہے مگر ٹیکنالوجی کی انفارمیشن کسی کے پاس نہیں! حیرت انگیز امر یہ ہے کہ تجربہ کار سیاست دانوں کو ایک ایک محکمہ دیا گیا ہے۔ نثار کھوڑو کو تعلیم، میر ہزار خان بجارانی کو ورکس اینڈ سروسز، جام مہتاب ڈہر کو خوراک اور علی مردان شاہ کو بہبودِ آبادی کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بھی اللہ کی طرف سے انعام کی صورت ہے۔ ان تجربہ کار سیاست دانوں پر زیادہ محکموں کی مِٹّی پلید کرنے کا الزام عائد نہیں ہوگا! خسارے میں ڈاکٹر سکندر میندھرو رہے ہیں۔ اُنہیں پارلیمانی اُمور اور ماحولیات کے قلمدان سونپے گئے ہیں۔ مگر معاملہ یہ ہے کہ ع ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی پارلیمانی اُمور کا محکمہ موجود ہی نہیں اور ماحولیات کے محکمے کو جنگلات اور جنگلی حیات کے محکموں میں ضم کردیا گیا ہے۔ یہ بھی کوئی عجیب بات نہیں۔ اِس ملک کا ماحول اب جنگلات اور جنگلی حیات سے ہم آہنگ ہوچکا ہے اِس لیے محکمہ بھی ایک ہی ہونا چاہیے! ڈاکٹر سکندر میندھرو عملاً آدھے محکمے کے انچارج ہیں۔ کہاں 16 اور کہاں آدھا! ڈاکٹر سکندر میندھرو کو بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ سندھ کابینہ کے زندہ طلسمات میں اُنہیں آدھا شعبدہ ملا ہے۔ یعنی ناکامی کی صورت میں الزام بھی آدھا ہی آئے گا۔ محکمہ خواہ آدھا ملے، توجہ اِس نُکتے پر مرکوز رہنی چاہیے کہ فائدہ پُورا ہو!