عید الاضحی گزری۔ زمانے کی نظروں کے سامنے چُھریاں جانوروں کے گلے پر ضرور پِھریں مگر اُن کے خریدار بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ جانوروں کی کھالیں اُتاری گئیں۔ یہ منظر سب نے دیکھا مگر سچ یہ ہے کہ ’’با زبان‘‘ جانوروں کی بھی کھال اُترتی، بلکہ اُتاری جاتی رہی۔ جانوروں پر رشک آیا کہ صرف ایک بار کھال اُترواکر وہ تو پار اُتر گئے۔ اور ہم ہیں کہ ہماری کھال کے اُتارے جانے کا مرحلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ جانوروں کا نجمِ مُقدّر اوج پر رہا کہ اُن کے گلے پر پِھرنے والی چُھری نے اُنہیں ذبیحے کا اعزاز بخشا اور ایک ہم ہیں کہ ہمارے نصیب میں ذبیحہ بھی نہیں، صرف جھٹکا رہ گیا ہے! ہر حکومت ترحم کے جذبے کی تشہیر کرتی وارد ہوتی ہے۔ آتے ہوئے دِلاسے دیتی ہے کہ اب کوئی غم نہ رہے گا، کوئی دُکھ نزدیک نہ آئے گا، کوئی اُلجھن پاس نہ پھٹکے گی۔ اور یہ کہ سارے دُلدّر دیکھتے ہی دیکھتے یوں دُور ہو جائیں گے کہ پھر کبھی دکھائی نہ دیں گے۔ مگر کچھ وقت نہیں گزرتا کہ سارے وعدے مَنوں بلکہ ٹنوں مِٹّی تلے جا سوتے ہیں، ہر دِلاسا دم توڑ دیتا ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے پرنالہ پھر وہیں بہنے لگتا ہے۔ جمہوریت کے تسلسل کے نام پر وارد ہونے والی نئی حکومت بھی ’’قصابانہ‘‘ خصوصیات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ عوام کے گلے پر چُھری پھیرنے میں اِس نے بھی دیر نہیں لگائی۔ بجلی اب خال خال ہے اِس لیے اُس سے جھٹکا کسی کسی کو لگتا ہے مگر اُس کے نرخ بڑھاکر جھٹکے دیئے جارہے ہیں اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کرکے آگ لگائی جارہی ہے۔ مگر خیر، اب اِس میں حیرت کا پہلو بھی کہاں رہا؟ ہر حکومت ایسی ہی نکلتی ہے۔ جھٹکے کی روایت پر عمل کیا جاتا ہے اور تڑپنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ اور اگر اِس روش کے خلاف احتجاج کیجیے تو رہا سہا جھٹکا پولیس کے ذریعے کرایا جاتا ہے! 11 مئی کے گرم موسم میں جو اُمیدیں پیدا ہوئی تھیں وہ اب سرد پڑتی جارہی ہیں۔ مہنگائی کا سیلِ بلا ہے کہ اُمڈا چلا آتا ہے اور ایسا تازہ دم ہے کہ کسی منزل پر رُک کر دَم لینے یا سانس دُرست کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہا۔ دریاؤں کا سیلاب غنیمت ہے کہ آکر گزر تو جاتا ہے۔ مہنگائی کا سیلاب اَوّل تو آکر ٹھہر جاتا ہے اور اگر کسی حد تک گزر بھی جائے تو بہت سے مقامات پر پانی کھڑا رہ جاتا ہے! الم پسندی کی طرح ہدف پذیری بھی کبھی کبھی نفسی مرض کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ پاکستانی قوم ’’ذہنی ارتقاء‘‘ کے جس مرحلے سے گزر رہی ہے اُس میں مظلومیت بھی ’’وصفِ حمیدہ‘‘ کا درجہ پاچکی ہے! کل تک لوگ ظلم کا نشانہ بننے پر دُکھ محسوس کرتے تھے، اب مظلومیت سے لَذّت کشید کی جارہی ہے۔ گویا ع اِک گونہ بے خودی مُجھے دِن رات چاہیے! جب حالات دُرست کرنے اور زندگی کا معیار بلند کرنے کی تگ و دَو سے جان چُھڑانے کی روش عام ہو تو ایسے ہی تماشے سامنے آیا کرتے ہیں۔ نیشنل جیو گرافک والوں کو اب اگر شکار کے نئے طریقے دُنیا کو دِکھانے ہیں تو اپنی ٹیموں کو پاکستان بھیج کر اسلام آباد اور ہر صوبائی دارالحکومت میں شامیانے گڑوادے۔ ہماری (وفاقی اور صوبائی) حکومتوں کا بغور مشاہدہ کرکے سیکھا جاسکتا ہے کہ شکار کو گھیرنے کے نئے اور منفرد طریقے کیا ہیں اور ایک ہی شکار کو کس کس طرح بھنبھوڑا جاسکتا ہے! ہمارے ہر سطح کے حکمران دُنیا کو بتا سکتے ہیں کہ محض ایک یا دو مَدوں کا پھندا لگاکر عوام کو گھیرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ ابھی تک دُنیا والوں کو شاید معلوم ہی نہیں کہ محض پٹرولیم مصنوعات اور توانائی کے نرخ بڑھا بڑھاکر بھی قومی معیشت کو چلایا جاسکتا ہے! جن چیزوں کے نرخ کم رکھے جانے پر بہبودِ عامہ کا انحصار ہے ہمارے ہاں اُنہی اشیاء اور خدمات سے آمدن کشید کی جارہی ہے۔ گَنّے سے رَس نچوڑنے کی کوئی حد ضرور مقرر کی جاسکتی ہے مگر حکومت عوام کو نچوڑنے کی کوئی حد مقرر کرنا نہیں چاہتی۔ عوام کے نُچڑے ہوئے چہرے دیکھ کر قربانی کے جانوروں کو بھی اپنی صحت اور مُقدر پر رشک تو آتا ہوگا۔ اگر کوئی قربان ہوتے رہنے کو اپنا نصیب سمجھ کر قبول کرلے، ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دے تو کیا کیا جائے۔ مگر دُکھ تو اِس بات کا ہے کہ مُرغی جان سے جاتی ہے اور کھانے والوں کو مزا نہیں آتا۔ دَم بہ دَم مرنا بھی ناحق ٹھہرتا ہے۔ عوام نے قربان ہوتے رہنے کو اپنا مُقدر بنالیا ہے مگر صِلے میں اُنہیں اور کچھ تو کیا، اُتنا احترام بھی نہیں مل پاتا جتنا قربانی کے جانوروں کے نصیب میں لکھ دیا گیا ہے! عید الاضحیٰ قربانی کا پیغام لاتی ہے یعنی ہمیں یہ بات سیکھنی ہے کہ بہتر زندگی کے لیے قربانی دینی ہے، ایثار سے کام لینا ہے مگر اے وائے ناکامی کہ ہم ذبیحے سے صرف یہ سیکھتے ہیں کہ قربان کیسے ہونا ہے اور کھال کیسے اُتروانی ہے! حیوانات کے مقدر میں مرگِ مفاجات ہے اور ہم نے بھی اِسی کو مُقدر بنالیا ہے۔ بس اِتنا ہے کہ انداز ذرا مختلف ہے۔ کھال اُتروانے سے پہلے جانوروں کی جس قدر تکریم کی جاتی ہے شاید اُسی کا مشاہدہ کرنے کے بعد جی چاہتا ہے کہ ہماری بھی تھوڑی سی تکریم کی جائے۔ پھر چاہے شوق سے ہماری کھال اُتار لی جائے۔ کھال تو خیر اُتاری ہی جاتی ہے مگر تکریم کہاں رہ گئی؟ گدھے گھوڑے چار پیروں پر چلتے ہوئے تجارتی سامان کھینچتے پھرتے ہیں اور ہم دو پیروں پر چل کر ناقص پالیسیوں کا بوجھ ڈھوتے ہیں۔ سِتم بالائے سِتم یہ کہ ہم اِس کیفیت سے لطف پانے کا تاثر بھی دیتے جاتے ہیں! جانور ذبح ہونے کو تیار رہتے ہیں۔ اور ہم بھی۔ یعنی دونوں ایک سطح پر ہیں۔ ہمیں اِس سطح سے بلند ہونا ہے۔ جب تک ہم چاہیں گے یعنی کھال اُتروانے پر آمادہ رہیں گے تب تک ہماری کھال اُتاری جاتی رہے گی۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ کسی ملکی شخصیت سے کھال اُتروانے میں لطف نہ آ رہا ہو تو ’’اوپر والے‘‘ کسی کو باہر سے بھیج دیتے ہیں۔ کیا آپ کو معین ’’قریشی‘‘ یاد نہیں؟ الم پسند طبیعت کو حقیقی انبساط سے اُلفت پر مائل کرنا ہوگا۔ فیصلے درکار ہیں، ہچکچاہٹ نہیں۔ محض خواہش سے کام نہیں چلے گا، ارادہ بھی لازم ہے۔ باتیں نہیں، کام چاہیے۔ محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے اور بحث پر بحث کرتے رہنے سے بات نہیں بنے گی۔ تخریب بدوش شور شرابہ نہیں، تعمیری خاموشی ہماری ضرورت ہے۔ حکمرانوں کی اطاعت لازم ہے تو کیا اُن کا احتساب ناگزیر نہیں؟ ہر معاملے میں گردن جُھکادینے کا نام تسلیم و رضا نہیں۔ جہاں بولنا لازم ہو وہاں خاموش رہنا گناہ، بلکہ اپنے وجود پر ظلم ہے۔ بے زبان حیوانوں کی طرح چُھری کے نیچے آتے رہنے کا نام تسلیم و رضا نہیں۔ وہ اُن کا مقسوم ہے۔ اور اُن کے لیے اِس کی جزا بھی مقرر ہے۔ ہم زبان ہی نہیں، سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ بے زبان حیوانات اپنی سطح سے بُلند ہونے کی صلاحیت اور سکت نہیں رکھتے۔ اِس پر وہ معاف کردیئے جائیں گے۔ ہم انسان ہوکر حیوانی سطح پر جئیں، یہ اللہ کے نزدیک کسی بھی طور پسندیدہ یا قابل برداشت نہیں ہوسکتا۔