"MIK" (space) message & send to 7575

مجبوری کا نام شکریہ

سو طرح کے شُکوک کے درمیان اگر یقین کو دیکھنا اور برتنا ہے تو مکمل سرکاری کنٹرول والی کسی بھی ٹرین سے سفر کیجیے۔ مزا نہ ''جائے‘‘ تو پیسے واپس! گزرے ہوئے سال کے آخری لمحات میں عوام ایکسپریس سے سفر کا ''اعزاز‘‘ نصیب ہوا۔ شاید ایسے ہی کسی سفر کے بارے میں فیض احمد فیضؔ نے کہا ہے ع 
... جو چلے تو جاں سے گزر گئے!
اِس سفر میں مہم جوئی کا مزا تو تھا ہی، قدم قدم پر یہ احساس بھی ہوا کہ ہم بہت کچھ دریافت کرتے جارہے ہیں۔ راولپنڈی سے کراچی تک 35 گھنٹوں کے سفر میں اور کچھ نہ سہی، دو صوبوں کے کم و بیش 40 شہروں اور قصبوں سے خاصی معقول واقفیت کا شرف ضرور حاصل ہوا۔ شادی کے شامیانے سے رُخصت ہوتی ہوئی دلہن جس طرح جھجکتے اور ٹھٹکتے ہوئے چلتی ہے کچھ اِسی طور ہماری ٹرین بھی شرماتی لجاتی، ہچکچاتی، کسمساتی سُوئے منزل روانہ ہوئی۔ انجن کی ذہنی کیفیت یہ تھی کہ ؎ 
اِرادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں 
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے 
ٹرین نے شاید ''اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم‘‘ والا گانا سُن رکھا تھا اِس لیے کہیں کوئی محض خفیف سا اشارا بھی کرتا تو رُک کر خیریت دریافت کرتی اور فراخ دِلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے میں سمو بھی لیتی تھی! یوں ہر علاقے کی سوغات چکھنے کو مِلی اور ثقافت کے ساتھ ساتھ جغرافیہ سے بھی رُوشناس ہونے کا موقع ملا۔ 
پشاور سے آمد کے بعد 20 منٹ رُک کر ٹرین جب راولپنڈی سے چلی تو بوگیوں میں خاصی کشادگی تھی اور ماحول خاصا مُہذّب تھا کیونکہ لوگ سیٹ بائے سیٹ تھے۔ پھر یہ ہوا کہ ٹرین ہر جانے انجانے اسٹیشن پر رُکتی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ''لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا ‘‘
مختلف چھوٹے بڑے سٹیشنوں سے لوگ سَروں پر پوٹلا رکھے، بغل میں صندوق دبائے سوار ہوتے رہے۔ اِن تین چار سٹیشنوں کے مسافروں کی آمد سے بوگی میں وقفے وقفے سے ایک نئی دُنیا بستی اور اُجڑتی رہی۔ کھچاکھچ بھری ہوئی ٹرین میں محض سوار ہونا ہی کمال نہ تھا، اُس سے ایک قدم آگے جاکر خود کو کِسی کونے کھانچے میں فِٹ کرنا بھی چمتکار کا درجہ رکھتا تھا اور یارانِ وطن یہ چمتکار دِکھاتے رہنے سے اُکتائے نہ گھبرائے۔ 
ٹرین اگر عوامی نوعیت کی ہو تو اُس میں کئی طرح کے علوم و فنون سے رُوشناس ہونے کا موقع ملتا ہے‘ مثلاً یہ کہ اچانک بھیڑ بڑھ جائے تو حواس پر کِس طرح قابو پانا ہے، 78 کی گنجائش والی بوگی میں 178 افراد کو کس طور ایڈجسٹ کرنا ہے، کوئی عورت شیر خوار سمیت چار بچوں کو لے کر کس طور سفر کرسکتی ہے، بچ بچ کے اِس طرح کیسے چلا جاسکتا ہے کہ لوگ اِدھر اُدھر بھی ہوجائیں اور کِسی کی زبان پر کوئی شِکوہ بھی نہ اُبھرے اور انتہائے ضبط سے ہم آہنگ رہتے ہوئے بھیڑ کو چیر کر باتھ روم تک کیسے جایا جاسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ 
مارکیٹنگ اور سیلز کے گر سکھانے میں بھی ریلوے کا محکمہ نہایت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ عوام سے کھچاکھچ بھری ہوئی ٹرین میں سفر کے دوران آدمی یہ بھی سیکھ سکتا ہے کہ کون سی چیز کس زبان میں کس طرح بیچنی ہے۔ پشاور سے کراچی تک کسی بھی طرح کے حلوے کو مُلتان کا خالص سوہن حلوہ قرار دے کر کس طور لوگوں کے معدے میں اُتارنا ہے، موقع اور گنجائش دیکھ کر چُونا کِس طرح لگانا ہے، کون سے بکرے کو کِتنے میں ذبح کرنا ہے، کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پھیرے لگاکر مال کی طلب کِس طرح پیدا کرنی ہے اور کچرے کے طور پر بچ رہنے والی چیزیں بھی کِس طریقے سے ٹھکانے لگانی یعنی فروخت کرنی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ 
یہ تو ہوا معاشی اُمور کا بیان۔ معاشرتی سطح پر بھی عوامی ٹرینیں بہت کچھ سِکھاتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ مختلف النسل لوگ کِس طرح ایک دوسرے کو برداشت ہی نہیں کرتے، بلکہ ایک دوسرے سے محظوظ بھی ہوتے ہیں۔ کوئی بتائے تو سہی کہ گھر اور خاندان کا کون سا معاملہ یا جھگڑا ہے جس پر ٹرین کے سفر کے دوران بحث نہیں کی جاسکتی۔ 
مگر خیر، ٹرین میں صرف ''رواداری‘‘ کا ماحول نہ تھا، مُنہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے لوگ چھوٹے موٹے جھگڑے بھی کرتے رہے! خود کو پاکستانی ثابت کرنے کے لیے بڑی باتوں پر عفو و در گزر سے کام لیا گیا اور چھوٹی باتوں پر تو تو میں میں کا سلسلہ جاری رہا۔ ''میری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا؟‘‘ کے مصداق کوئی معترض تھا کہ میری سیٹ پر بیٹھے کیسے یا پاؤں رکھا تو کیوں رکھا۔ کوئی اِس بات پر خفا تھا کہ سنگل سیٹ پر دن بھر جاگنے والا بندہ میری برتھ پر سویا تو کیوں سویا۔ روہڑی کے چند نوجوانوں نے ہماری سیٹ کے نیچے گتے کا ایک کارٹن رکھا ہوا تھا۔ بار بار آتے تھے اور چیک کرتے تھے۔ ہم پریشان ہوگئے کہ پتا نہیں کیا رکھا ہوا ہے۔ دریافت کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ مُرغیاں ہیں! ہم مزید حیران ہوئے کیونکہ ایک بار بھی اِن مُرغیوں کی آواز سُنائی نہیں دی۔ بے زبانوں کی خاموشی کا سبب پوچھا تو جواب ملا۔ ''سائیں، اِتنے سارے جناوروں میں بے چاری مُرغیاں بول کر کیا کریں گی‘‘۔ 
دِن ڈھلا تو لاہور آیا۔ شام تو آپہنچی مگر بلب کے ہولڈر تک بجلی نہ پہنچی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ الف سے ی تک بھری ہوئی ٹرین میں اندھیرا بھی آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ ایسے میں جو لوگ اشیائے خور و نوش زہر مار کر رہے تھے‘ اُنہوں نے کینڈل لِٹ ڈِنر کا لُطف پایا! اور کِس کِس لُطف کی بات کیجیے؟ 
صُبح ہوئی تو گاڑی کے جگہ جگہ رکنے اور اُس میں لوگوں کے سوار ہونے اور اُترنے کا سلسلہ بھی تیز ہوگیا۔ سفر کا بڑا حصہ بوگی میں جگہ نہ ہونے پر دِلوں میں جگہ بناتے گزرا۔ سندھ کی حدود میں سفر صوبے کے مختلف علاقوں کے لوگوں کو ''بھلی کرے آیو‘‘ اور خدا حافظ کہتے گزرا۔ منزل پر نظر تھی مگر منزل کب آئے گی، کچھ خبر نہ تھی۔ انتظار تھا کہ چیوئنگ گم کی طرح کھنچتا ہی جارہا تھا۔ بقول غالبؔ ؎ 
کب سے ہوں، کیا بتاؤں، جہانِ خراب میں 
شب ہائِ ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں 
سفر کے دوران جو کچھ ہوتا رہا تو وہ کہانی میں پائے جانے والے twists کے مترادف تھا۔ کلائمیکس تو منزل یعنی کراچی کے قدموں میں پہنچ کر واقع ہوا۔ جب رات کے نو بجے جنگ شاہی اسٹیشن کے نزدیک ویرانے میں انجن خراب ہوگیا! دو گھنٹے تک لوگ شدید خوف اور بے یقینی کے عالم میں بیٹھے رہے۔ 
خدا خدا کرکے نیا انجن آیا، گاڑی گھسٹتی گھسٹتی کراچی کینٹ اسٹیشن تک پہنچی اور ''مرحلۂ شوق‘‘ طے ہوا۔ کراچی پہنچنے تک حالت یہ تھی کہ ع 
شوق ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
عوام ایکسپریس سے اُترنے کے بعد اندازہ ہوا کہ سُکھ کا سانس کیا ہوتا ہے اور دِل کی گہرائیوں سے شُکر کب ادا کیا جاتا ہے۔ معاملہ شُکر کی منزل تک محدود نہ تھا بلکہ توبہ پر ختم ہوا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں