جس طرف دیکھیے، جس معاملے کا جائزہ لیجیے، صرف خرابی دکھائی دیتی ہے۔ کیا ہماری آنکھیں صرف خرابی دیکھتی ہیں یا خرابی ہی دیکھنے کی عادی ہوچکی ہیں؟ لگتا ہے ہر معاملے میں دُرستی ہم سے روٹھ گئی ہے۔ کوئی یونہی تو نہیں روٹھا کرتا۔ اگر حالات ہم سے مُنہ پُھلائے بیٹھے ہیں تو کوئی نہ کوئی تو سبب ہوگا۔ ہم نے کچھ نہ کچھ تو ایسا کیا ہوگا یا ہم سے کچھ نہ کچھ تو ایسا سرزد ہوا ہوگا جس کی بنیاد پر خرابیوں نے ہمیں نشانے پر لیاہوگا۔
زمانے گزر گئے ہیں کہ راہِ راست پر آنا تو دور کی بات رہی، ہم اِس حوالے سے سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ زندگی کو لامُتناہی سمجھ لیا گیا ہے۔ ذہنوں میں یہ گمان بس گیا ہے کہ زندگی کا ایک بڑا حصہ ضائع بھی کردیا جائے تو کوئی غم نہیں۔ وقت کا ساگر اتھاہ ہے؟ کیا اِس سمندر کی گہرائی کی کوئی حد نہیں؟ یقیناً وقت کا ساگر اتھاہ ہے، اِس کی گہرائی کی کوئی حد نہیں مگر اِس بحرِ ناپیدا کنار سے ہمارے حصے میں جو وقت آیا ہے وہ تالاب تو کیا، گلی میں پانی کے معمولی سے گڑھے کے برابر بھی نہیں۔ اور حق تو یہ ہے کہ ہمیں میسر مہلتِ عمل کو وقت کے سمندر کے مقابل چھینٹوں سے بھی تعبیر نہیں کیا جاسکتا! اے وائے ناکامی کہ وقت کی اِتنی معمولی سی مقدار کو بھی ہم بامعنی انداز سے خرچ کرنے کی بجائے ضائع کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ع
اے کمال افسوس ہے، تُجھ پر کمال افسوس ہے!
کیا سبب ہے کہ ہم حالات کو دُرست کرنے کی طرف مائل نہیں ہوتے؟ معاملات کو خرابی کی طرف دھکیلنے یا ٹالتے رہنے ہی کو زندگی کیوں سمجھ لیا گیا ہے؟ آخر وہ کون سا مقصد ہے جسے حاصل کرنے کے لیے ہم صرف مصائب اور پریشانیوں کو بُلا بُلاکر گلے لگاتے جارہے ہیں؟ اِتنا سوچنے کا بظاہر کسی کے پاس وقت ہے نہ توفیق۔ اور توفیق ہو بھی تو لوگ ایسے معاملات پر سوچنے کو بلائے جاں تصور کرکے ایک طرف ہٹ جاتے ہیں۔
ممکن ہے انفعال پذیر ہو رہنے میں زیادہ سُکون ملتا ہو۔ کچھ کرنے میں تو کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کچھ نہ کرنے سے اچھی حالت کون سی ہوسکتی ہے؟ ایک طرف پڑ رہیے۔ عمل کی دُنیا میں فعال نہ ہونے سے کوئی مر تو نہیں جاتا۔ کچھ نہیں تو بھیک کے ٹکڑوں پر گزارا ہوتا ہے۔ یعنی زندگی بہرحال داؤ پر نہیں لگتی۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ ایسی حالت میں زندہ رہنے کو زندگی کہا جاسکتا ہے یا نہیں!
ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہو کہ جب کچھ نہ بن پڑے تو اپنی ناکامیوں ہی سے محظوظ ہونا چاہیے۔ یہ آسان ترین درجے کا اور سب سے آسان آپشن ہے۔ گویا بہ قولِ قمرؔ جمیل ؎
اپنی ناکامیوں پہ آخرِ کار
مُسکرانا تو اختیار میں ہے!
بات بہت اچھی لگتی ہے۔ غور کیجیے کہ اچھی لگتی ہے، اچھی ہے نہیں! یہ ایسا ہی معاملہ ہے جیسا کہ کسی سے پوچھا گیا کہ جنگل میں اکیلے جارہے ہو اور سامنے شیر آجائے تو کیا کروگے؟ اُس نے کہا :ایسی حالت میں مجھے کیا کرنا ہے، جو کرے گا شیر کرے گا! آلام و مصائب کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کا بھی ایسا ہی تو معاملہ ہے۔ یہ تو زبردستی کا سودا ہوا۔ یعنی مجبوری کا نام شکریہ۔ اِسی بات کو غالبؔ نے یوں کہا تھا ع
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
ایسی باتیں دُنیائے سُخن اور پیرایۂ شعری ہی میں اچھی لگتی ہیں۔ عمل کی دُنیا میں ایسی شوخیٔ زبان کس کام کی؟ غالبؔ نے تو بس یونہی از راہِ تفنّن اِنتہائے درد کو دوا کہہ دیا تھا، ہم نے اُن کی بات کو سنجیدگی سے پَلّے باندھ لیا! غالبؔ کے مزاج میں بلا کی شوخی تھی۔ اور یہی شوخی سُخن فہمی کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے بلا بن گئی! بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ مسائل ہی کو مسائل کا حل تصور کرلیا جائے؟ مگر کیا کیجیے کہ ہم اِسی پر خوش ہیں۔ یہاں تو عشروں سے ہر معاملے میں غالبؔ کے کہے کو علاج کی حیثیت سے اپنایا جارہا ہے۔
زندگی کے وسیع، بلکہ اتھاہ ساگر سے ہمیں چند بوندیں ملی ہیں۔ 6 عشروں سے بھی زائد مُدت گزری، ہم زندگی کے نام پر اپنے انفرادی اور اجتماعی وجود سے کِھلواڑ کرتے آئے ہیں۔ قدم قدم پر آلام کو مدعو کیا گیا ہے۔ راستے میں پڑی ہوئی اُلجھنوں کو ہم پُچکار کر اپنی طرف متوجہ ہی نہیں کرتے، بلکہ گلے بھی لگا لیتے ہیں۔ بہ قول ناصرؔ کاظمی ع
اِس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں؟
آ، اے شبِ فراق! تجھے گھر ہی لے چلیں
راستے میں پڑی ہوئی ہر اچھی بُری چیز کو گلے لگانے اور گھر لانے کی عادت اب ایسی پُختہ ہوگئی ہے کہ اگر کسی دردِ سَر کو سَر چُھپانے کی جگہ نہ ملے تو ہم اپنا پتا دے دیتے ہیں! گویا بہ قولِ امیرؔ مینائی ع
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے!
یہ کوئی قابلِ مذمت یا قابلِ افسوس بات نہیں کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہو، مگر پہلے اقبالؔ کی نصیحت پر بھی غور کیجیے۔ ع
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ صمیم!
اِس روش کا نتیجہ کیا نکل سکتا تھا؟ تباہی اور ذِلّت کے سِوا کوئی نتیجہ ممکن تھا؟ دُنیا دیکھ رہی ہے کہ آج ہمارے مقدر میں انتشار ہے، افتراق ہے، کدورت ہے، منافقت ہے۔ منافرت کے سائے ہمارے سَروں پر منڈلا رہے ہیں۔ تعصب اور علاقائیت کا زہر فکر و نظر کی رگوں میں اُتر چکا ہے۔ اعمال اونٹ کے مانند ہیں جس کی کوئی کَل سیدھی نہیں ہوا کرتی۔ پل کی خبر نہیں اور سو برس کا سامان جمع کرنے کی فکر ذہن پر سَوار رہتی ہے۔ صرف باتیں رہ گئی ہیں اور وہ بھی بڑی بڑی۔ اور یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ محض باتوں سے سارے کام ہوتے چلے جائیں گے۔ باتوں سے کسی معاشرے کا کوئی کام بنتا تو نہیں مگر ہاں، اُس کا کام ہو جاتا ہے! ع
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں!
زندگی عمل کے بغیر کچھ نہیں۔ اور ہم عمل سے دور رہنے کی قسم کھا بیٹھے ہیں۔ کوئی لاکھ کوشش کرے، ہم عمل کے قائل نہیں ہوتے، اُس کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ منزل کا تو تب سوچا جائے جب سمت درست ہو۔ کچھ لوگ متحرک تو ہیں مگر بے سمت ہونے کے باعث مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔ باضابطہ سوچ کے بغیر عمل بھی کسی کام نہیں ہوتا۔ گاڑی اگر اینٹوں پر کھڑی ہو تو پہیّوں کے گھومتے رہنے کو سفر نہیں کہا جاسکتا۔ اب اگر کوئی اِسے سفر قرار دینے پر تُلا ہو تو اِسے اُس کی حماقت سے بڑھ کر کس چیز سے تعبیر کیا جائے گا؟ اور حماقت پر فخر و اِصرار؟ یہی مقامِ عبرت ہے۔ جس آنکھ میں دیکھنے کا یارا ہو اور ذوق بھی ہو تو وہ دیکھے اور عبرت پکڑے۔