"MIK" (space) message & send to 7575

تحقیق کے شاخسانے

تحقیق دنیا کا واحد شعبہ ہے‘ جس کی گرم بازاری نہیں جاتی۔ ہر گزرتا ہوا دن تحقیق کے گراف کو بلندی عطا کر رہا ہے۔ اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ تحقیق سے مراد کیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحقیق کا مفہوم بھی تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ بہت سے محققین تو محض اِس امر پر دادِ تحقیق دے رہے ہیں کہ تحقیق ہے کیا اور جو کچھ آج تک تحقیق کے نام پر ہوتا رہا ہے‘ کیا اُسے تحقیق قرار دیا جاسکتا ہے! 
کام کی نوعیت اور اثرات کے اعتبار سے جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ جسے تحقیق سمجھ کر خوش ہوا جاتا ہے‘ وہ بسا اوقات تحقیقات سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتی۔ کاروباری دنیا میں اچھا خاصا زور مارکیٹ ریسرچ پر دیا جاتا ہے۔ یہ ریسرچ اچھی خاصی تفتیش ہی ہوتی ہے۔ خود کو بہتر بنانے سے زیادہ اِس بات پر دھیان دیا جاتا ہے کہ دوسروں کی مِٹّی کس طرح پلید کی جائے۔ 
ہر بڑے ادارے میں تحقیق و ترقی کے نام پر مستقل شعبے کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔ یہ شعبہ دراصل یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ کھلے بازار میں جن اداروں سے مسابقت درپیش ہے اُن کے لیے ''ترقّیٔ معکوس‘‘ کا اہتمام کس طرح کیا جائے۔ کاروباری دُنیا منافع میں کمی کو نقصان سمجھتی ہے اور حریف کو پہنچنے والا یا پہنچایا جانے والا نقصان بہت حد تک منافع تصور کیا جاتا ہے۔ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے‘ یعنی حریف ادارے کو نقصان پہنچ رہا ہو تو خوش ہو رہنا چاہے۔ 
ہم تحقیق و ترقی کے شعبے کو اِس لیے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ اِس کے ذریعے بہت سے ناکارہ ذہن کھپ جاتے ہیں اور معاشرے کو کسی اور طریقے سے نقصان پہنچنے کا احتمال ختم ہو جاتا ہے۔ 
محققین کی بہتات نے بہت سے معاشروں کو شدید مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ مغربی دنیا آج محققین ہی کے ہاتھوں انتہائی مصائب سے دوچار ہے۔ آج جو کچھ کہا جاتا ہے کل اُسی کو غلط قرار دے کر تیسرے دن پھر اُسی بات کو درست قرار دے دیا جاتا ہے۔ لوگ شش و پنج میں مبتلا رہتے ہیں کہ کون سے محققین کی کس بات کو درست اور کس بات کو غلط سمجھیں۔ قدم قدم پر محققین اور ماہرین سے مشاورت کرنے اور مدد لینے کے رجحان نے عام آدمی کا جینا حرام کردیا ہے۔ بات جینا حرام کرنے تک رہتی تب بھی کوئی بات نہ تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ حرام کو حلال کرنے سے بھی یہ محققین نہیں چُوکتے۔ اب اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر اِنسانی مزاج کی لطافت اور نازک مزاجی ہی کو تحقیق کی چوکھٹ پر قربان کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ جس چیز کو کہیں بھی قبول نہ کیا جارہا ہو اُسے ماہرین اور محققین کی مدد سے قابلِ قبول بنایا جاتا ہے۔ تحقیق کے بازار کی رونق اِس مہارت ہی کے دم سے ہے۔ اِس زاویۂ نگاہ سے دیکھیے تو تحقیق میں اب اداکاری اور صداکاری بھی نمایاں اجزا کی حیثیت سے موجود ہیں۔ 
ہسپانوی محققین کا احسان یہ ہے کہ اِس وقت پوری دنیا میں سب سے ناشکری، ماحول کو نقصان پہنچانے والی اور مجموعی طور پر کُرّۂ ارض کے لیے انتہائی ناکارہ مخلوق فُضلے میں کام کی کوئی چیز دریافت کرلی! سوا سال قبل جاپانی ماہرین نے بھی ایسے ہی اجزا سے فوڈ آئٹمز تیار کرکے دُنیا بھر کے اِنسانوں کو سَر اُٹھاکر جینے کا موقع فراہم کرنے کی کوشش کی تھی! 
آپ کی حیرت مزید کم کرنے کے لیے ہم عرض کئے دیتے ہیں کہ بھارت میں گائے کے پیشاب سے تیار کردہ ادویہ عام ہیں۔ گائے کا پیشاب ہندوؤں کے نزدیک انتہائی متبرک ہے اور وہ اشیائے خور و نوش میں چند قطرے ملانا فرض سمجھتے ہیں۔ گائے کے گوبر سے بنی ہوئی اشیا بھی بازار میں دستیاب ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ (ہم اِن ادویہ کے استعمال کی بات نہیں کر رہے!) ماہرین اور محققین کو بھی کوئی تکلیف برداشت نہیں کرنی پڑی ہے۔ یہ اشیاء اپنی مدد آپ کی بُنیاد پر مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔ 
حرام جانور کے گوشت تک تو معاملہ واضح تھا۔ مگر خوراک میں ایسے اجزا کا استعمال؟ اہلِ مغرب نے حد ہی کردی ہے۔ مرزا تنقید بیگ نے جب اسپین میں مخصوص اجزا والے فوڈ آئٹمز کی خبر سُنی تو اُن کی رگِ تنقید پھڑک اُٹھی۔ بولے: ''علامہ اقبالؔ نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ مغرب کی تہذیب اپنے ہی خنجر سے خود کشی کرے گی۔ جب کوئی قوم ترقی کی حدیں پار کرجاتی ہیں تو ترقّیٔ معکوس کی حدیں شروع ہوتی ہیں۔ اہلِ مغرب بھی اپنے کئے کو اَن کیا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اِس اژدہے نے دُم کی طرف سے خود کو کھانا شروع کردیا ہے۔ جب بنیادی مسائل دم توڑ دیتے ہیں تو فارغ بیٹھے ہوئے دِماغ ایسی ہی باتیں سوچتے ہیں۔ اچھا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ اب تک پانی و بجلی اور صفائی وغیرہ کے بکھیڑے میں پڑے ہوئے ہیں۔ اِس صورت میں تحقیق جیسی عیاشی کے لیے وقت نہیں مل پاتا۔ اگر تمام بُنیادی سہولتیں آسانی سے دستیاب ہوگئیں تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ ذہنوں میں پتا نہیں کیسے کیسے آئیڈیاز جنم لیں گے اور اُن پر عمل کی صورت میں خدا جانے کیسی کیسی چیزیں معرضِ وجود میں آئیں گی! مغرب میں فراغت کے مارے ہوئے دِماغ اب حرام و حلال سے گزر کر غلاظت پسندی اور فُضلہ پرستی تک پہنچ گئے ہیں! کون جانتا ہے اِس کے بعد کون سی منزل ہے؟‘‘ 
جب کوئی چیز کم تر معیار یا زیادہ قیمت کے باعث مقبولیت حاصل نہیں کر پاتی تب تشہیر کے ماہرین سَر جوڑ کر بیٹھتے ہیں تاکہ صارفین کو متوجہ کرنے کے ہتھکنڈے سوچ سکیں۔ تحقیق کے بازار کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ جب کوئی چیز لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو محققین دور کی کوڑیاں لاتے ہیں تاکہ لوگ تیزی سے متوجہ ہوں اور اُس چیز کو اپنائیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ لہسن کھانے سے فلاں فلاں بیماریاں نہیں ہوتیں۔ پھر جب دوا ساز ادارے آنکھیں دکھاتے ہیں تو محققین کا کوئی اور گروہ ثابت کرتا ہے کہ لہسن کھانے سے فلاں فلاں بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ کبھی محققین کہتے ہیں کہ روزانہ ورزش سے فلاں فلاں بیماریاں ٹلتی ہیں اور پھر کچھ دن بعد خود ہی کہتے ہیں کہ ورزش کی زیادتی سے جسم کو فلاں فلاں نقصان پہنچ جاتا ہے۔ کبھی کہتے ہیں اِنسان کو بہادر ہونا چاہیے اور ہر معاملے میں کھل کر بات کرنی چاہیے۔ کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ مصلحت بھی کوئی چیز ہے، ہر بات کھل کر اور کھول کر بیان کرنے والی نہیں ہوتی۔ محققین کی ایک واضح پہچان یا نشانی یہ ہے کہ یہ کبھی کسی بات پر قائم نہیں رہتے۔ جو آئے دن رائے بدلے وہی محقق اور ثبوت یہ کہ اُس نے سوچ سوچ کر، نئے تجربات کی روشنی میں رائے بدلی ہے۔ 
ہم تو ماہرین کو آج تک سمجھ نہیں پائے۔ جب کبھی اِن کی محنت کے نتیجے کو اپناکر کچھ کرنا چاہا ہے، ناکامی ہاتھ لگی ہے اور خِفّت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہم نے جب بھی محققین کے فرمودات کی روشنی میں قلم سے طبع آزمائی کی ہے، لوگوں نے ہماری تحریر کو بے سَر و پا قرار دے کر تمسخر اُڑایا اور جب بھی ہم نے اپنی جیسی تیسی عقل کے مطابق کچھ لکھا ہے، لوگوں نے خوشی خوشی قبول کرکے حوصلہ افزا فیڈ بیک دیا۔ آپ بھی محققین کے سائے سے دور رہیں تو خیر ہے، ورنہ معاملہ حرام و حلال کے مرحلے سے آگے گزر جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں