جو آئے آئے کہ ہم ''منہ‘‘ کشادہ رکھتے ہیں
حیرت ترقی یافتہ اقوام پر ہے کہ اُن کے افراد اگر کوئی بھی ایسی ویسی چیز کھا لیں تو اُن کی جان پر بن آتی ہے۔ ایسی ترقی کس کام کی کہ انسان ڈھنگ سے کچھ ہضم بھی نہ کر سکے؟ اِدھر ہم ہیں کہ خواہ کچھ کھا لیں، کچھ اثر نہیں ہوتا۔ محققین اور ماہرین کھانے پینے کے بارے میں پتا نہیں کیا کیا کہتے رہتے ہیں۔ اگر اُن کے بیانات اور ہدایات کی روشنی میں کھانے پینے کو معمول بنایا جائے تو دو دن بھی ڈھنگ سے جینا مشکل ہو جائے۔ کبھی کسی چیز میں خوبیاں ہی خوبیاں گنواتے ہیں اور کچھ دن بعد اُسی چیز میں دُنیا بھر کے عیب جَڑ دیتے ہیں۔ جو لوگ اخبارات میں کھانے پینے سے متعلق تحقیق کے نتائج پڑھ کر کوئی چیز کھانے کی طرف مائل ہوتے ہیں‘ وہ کبھی کبھی منہ کا نوالہ بھی ایک طرف رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مزے میں وہ لوگ ہیں جو کھانے پینے سے متعلق کسی بھی تحقیق کے نتائج نہیں پڑھتے۔ بہتر یہی ہے کہ کھانے پینے کی راہ پر بے تکان بڑھتے جائیے اور منزل کا معاملہ اُس پر چھوڑ دیجیے جس نے کھانے پینے کی اشیا تخلیق کی ہیں۔
مرزا تنقید بیگ کا شمار اِس دُنیا (بلکہ کائنات) کے اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو کھانے پینے کے معاملے میں اِنکار کے قائل ہی نہیں۔ ہضم کرنے کی بات آ جائے تو لفظ ناممکن اُن کی لغت میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ یہی سبب ہے کہ وہ تقریبات میں تمام ڈِشیں خوب جی بھر کے معدے میں اُنڈیلتے جاتے ہیں اور آخر تک ڈکار نہیں لیتے۔ جب مرزا کھا رہے ہوتے ہیں تو لوگ محوِ تماشا رہتے ہیں کہ اُن کا ''آخر‘‘ آخر کب آئے گا۔ کھانے پینے کے معاملے میں مرزا نے ہمیشہ فیض احمد فیضؔ کے اُصول پر عمل کیا ہے یعنی جو چلے تو جاں سے گزر گئے۔ ہم نے جب کبھی مرزا کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ زیادہ کھانے سے صحت پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، ہمیں اُسی طرح منہ کی کھانی پڑی ہے جس طرح اسٹینڈ اپ کامیڈین منہ کی کھاتے ہیں۔ کھانے پینے کے معاملے میں مرزا کا بنیادی اُصول یہ ہے کہ کسی اُصول کو گلے نہ لگایا جائے۔ اگر کبھی یہ کہہ کر ڈرایا جائے کہ فلاں چیز جسم سے موزونیت نہیں رکھتی اور اُس کے کھانے سے طبیعت میں تکدّر بھی پیدا ہو سکتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اچھا ہے، پیٹ کے کیڑے مر جائیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جو چیز جسم کے لیے موزوں نہ ہو وہ زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتی کیونکہ وہ پیٹ میں زیادہ دیر رہے گی ہی نہیں۔ اِن معاملات میں مرزا کے پاس ایسے ایسے اور اِتنے دلائل ہیں کہ اُن سے ٹاکرا ہو تو ماہرین دُم دباکر بھاگ نکلیں۔
اخبار ہمارے سامنے پڑا تھا جس میں خبر چھپی تھی کہ شہر کے مختلف علاقوں میں گدھے کا گوشت دَھڑلّے سے فروخت ہو رہا ہے اور بعض ہوٹل والے بھی یہ گوشت استعمال کر رہے ہیں۔ یہ خبر پڑھ کر ہم پر جو سکتہ طاری ہوا وہ تو کبھی گدھوں کو گنجائش سے دُگنا بوجھ اُٹھائے دیکھ کر بھی طاری نہ ہوا تھا۔ ذہن تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ گدھے کا گوشت کھانے کی واضح ممانعت کے باوجود کوئی اپنے ہم وطنوں کو یہ کھلا دے۔ گدھے کے گوشت والی خبر ہمارے لیے حیرت انگیز تھی، مرزا کے لیے نہیں۔ اُن کے لیے تو خیر اب کوئی بھی خبر حیرت انگیز نہیں کیونکہ اُنہوں نے حیرت میں مبتلا ہونا ترک کر دیا ہے۔ کسی بھی عجیب سی خبر کو پڑھنے یا سُننے کے بعد اُن کی طبیعت موج میں آ جاتی ہے اور وہ اُس سے لطف کشید کرنے لگتے ہیں۔ فی زمانہ ایک کھرے پاکستانی کی یہ بھی ایک واضح نشانی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کل کو یہی ہماری قومی شناخت میں تبدیل ہو جائے۔
مرزا کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم نے دیگر بہت سے معاملات کی طرح اب کھانے پینے کے حوالے سے بھی جائز و ناجائز کے
بارے میں سوچنا ترک کر دیا ہے۔ جب معدہ ''لکڑ ہضم، پتھر ہضم‘‘ ٹائپ کا ہو تو کیا جائز اور کیا ناجائز۔ لوگ سوچتے ہیں کہ جب دوسرے بہت سے معاملات میں ذہن کو اُلجھن میں مبتلا نہیں رکھا جاتا تو کھانے پینے کے معاملات میں اِسے کیوں تکلیف دی جائے۔ مرزا کا بھی یہی فلسفہ ہے۔ واضح رہے کہ مرزا ہر معاملے میں اپنا فلسفہ رکھتے ہیں اور اِس فلسفے کو وہ عموماً دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھتے ہیں کیونکہ افشا ہو جانے پر فساد برپا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
جب ہم نے مرزا کو بتایا کہ شہر میں گدھے کا گوشت فروخت ہو رہا ہے تو وہ بولے: ''اِس شہر میں بلکہ اِس ملک میں کیا ہے جو فروخت نہیں ہوتا؟ ہر شے 'مارکیٹیبل کوموڈٹی‘ بن گئی ہے۔ پوری قوم 'ھل من مزید‘ کی نفسیات پر عمل پیرا ہے۔ پیٹ بھرنے سے غرض ہے۔ اب گوشت مُردار کا ہو یا حرام جانور کا، اِس سے کسی کو کچھ غرض نہیں۔ لوگ آسانیاں چاہتے ہیں۔ زندگی کو آسان بنانے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ جائز و ناجائز اور حرام و حلال کے پھیر میں پڑنے سے گریز کیا جائے‘‘ ہم معترض ہوئے کہ یہ تو صریح سہل انگاری ہے۔ زندگی اِس طرح تو نہیں گزاری جا سکتی۔ اِس پر مرزا نے صراحت کی: ''زندگی نہ صرف یہ کہ گزر رہی ہے بلکہ کچھ زیادہ سُکون سے گزر رہی ہے۔ تم جیسے لوگ دوسروں کو آسانی سے
پُرسکون زندگی بسر کرتے ہوئے دیکھ کر بس کُڑھتے ہی رہتے ہیں۔ کیا کھایا جائے اور کیا نہ کھایا جائے، یہی سوچ سوچ کر تم لوگ کچھ کھاتے نہیں ہو اور دوسروں کے کھانے پینے پر بھی نظر رکھتے ہو‘‘۔
ہم نے سمجھانے کی کوشش کی کہ قوم کو پالتو گدھے کا گوشت کھلانا ایسا معاملہ نہیں جسے نظر انداز کردیا جائے۔ معاملہ شرعی نوعیت کا ہے۔ اِس پر مرزا نے کہا: ''اگر کوئی یہ کہے کہ قوم کو کتے بلی کا گوشت کھلایا جاتا رہا ہے تو میں آنکھ بند کرکے اِس بات کو درست مان لوں گا۔ آج ہم ایک دوسرے جو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ یہ درندوں کے گوشت ہی کا اثر ہو۔ مگر یہ بات میں نہیں مان سکتا کہ قوم کو گدھے کا گوشت کھلایا جارہا ہے‘‘۔ ہم نے حیران ہو کر پوچھا کہ اِس خبر کو درست ماننے میں تامّل کیوں ہے تو مرزا نے سلسلۂ کلام آگے بڑھایا: ''اگر بعض عاقبت نااندیش لوگ ہمیں گدھے کا گوشت کھلا رہے ہوتے تو آج ہم میں گدھوں والی کوئی تو خصلت پائی جاتی‘‘۔ ہم نے بتایا کہ ہم بیشتر معاملات میں گدھے پن ہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں مثلاً حالات کے ڈنڈے سہہ رہے ہیں مگر بوجھ اُٹھائے جا رہے ہیں۔ مرزا بولے: ''اگر ہمیں دھوکے سے گوشت کھلایا جا رہا ہوتا تو آج ہم میں محنت مشقّت سے تھوڑی بہت تو رغبت ہوتی۔ ہم یوں تن آسانی کو گلے لگا کر سُکون سے ایک طرف نہ بیٹھے ہوتے، قوم کی ہڈ حرامی اور محنت سے بیزاری صاف کہہ رہی ہے کہ کسی نے اِسے گدھے کا گوشت نہیں کھلایا۔‘‘
مرزا کی یہ دلیل اِتنی مضبوط تھی کہ ہم نے اپنے دلائل کو کمزور تسلیم کرتے ہوئے مُہر بہ لب ہونے میں عافیت جانی۔