مرزا تنقید بیگ کو کرکٹ سے اُتنی ہی چڑ ہے جتنی پاکستانی قوم کو نظم و ضبط اور صبر و تحمل سے نفرت ہے۔ جب قوم کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہوتی ہے تب مرزا خار میں مبتلا ہوتے ہیں۔ قوم اُچھلتی کودتی رہتی ہے اور مرزا شدید اشتعال آمیز بے تابی سے پہلو بدلتے رہتے ہیں۔ ایسے میں اُنہیں اظہارِ خیال کی دعوت دینا اپنے حواس کو موت کی دعوت دینے سے کم نہیں۔ مرزا کا کرکٹ پر خار کھانا‘ ناقابل فہم بھی نہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ کوئی بھی کھیل نہ تو کبھی سَر پر سوار کیا جاتا ہے نہ انا کا مسئلہ بنایا جاتا ہے۔ یعنی کسی بھی کھیل کو اِتنا سَر نہ چڑھایا جائے کہ وہ ہم سے کھیلنے لگے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم جب تک کسی ٹورنامنٹ میں in رہتی ہے تب تک قوم کا جوش و جذبہ خوب اُچھالیں مارتا رہتا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر مرزا تڑپ کر، مچل کر رہ جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایسے عالم میں قومی کرکٹ ٹیم کے بارے میں کوئی بھی ایسی ویسی بات کہنا شجرِ ممنوعہ سے پھل توڑنے کے مترادف ٹھہرتا ہے۔ جب تک امکانات کی کھیتی ہری رہتی ہے، قوم اُمید کے جُھولے میں میٹھی نیند کے مزے لیتی ہوئی شاندار فتح کے خواب دیکھتی رہتی ہے!
پھر یہ ہوتا ہے کہ کھیل کے میدان میں بازی، بلکہ بازیاں پلٹ جاتی ہیں۔ کوئی بھی ٹیم ہمارے تمام امکانات کو تِنکوں کی طرح بکھیر دیتی ہے۔ اور یوں اچھی خاصی ہنستی گاتی قوم آنسو بہانے لگتی ہے۔ جن کرکٹرز کے گن گائے جارہے ہوتے ہیں اُن کی ''واٹ‘‘ لگانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جن کے چوکوں اور چَھکّوں پر قوم تالیاں پیٹتی اور سیٹیاں بجاتی نہ تھکتی تھی وہ اچانک یوں معتوب ہوتے ہیں کہ لوگ اُن کے بارے میں سوچ سوچ کر متلی سی محسوس کرنے لگتے ہیں۔
مرزا کو اِسی بات سے چڑ ہے۔ ہم انتہاؤں کے درمیان زندہ رہتے ہیں۔ اگر قومی کرکٹ ٹیم ایک دو میچ جیت جائے تو کھلاڑیوں کو سَر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں اور پھر اُن پر انعامات کی بارش کی جاتی ہے۔ نوازنے پر آتے ہیں تو ایسا نوازتے ہیں کہ کوئی حد نہیں رہتی۔ کھلاڑی بھی حیران و پریشان رہ جاتے ہیں کہ قوم کو کیا ہوگیا ہے۔ مگر کچھ زیادہ سوچے بغیر وہ بھی بہتی گنگا میں اشنان کرنے لگتے ہیں۔ شاباش ملتی ہے تو ایسی کہ جان لبوں پر آ جاتی ہے۔ ایسے مواقع پر اُستاد قمرؔ جلالوی مرحوم بے اختیار یاد آ جاتے ہیں ؎
دعا بہار کی مانگی تو اِتنے پُھول کھلے
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو!
بات چاہنے کی ہو تب بھی ہم انتہا کر بیٹھتے ہیں اور اگر چاہت سے گریز کی بات ہو‘ تب بھی دوسری انتہا کو چُھو لیتے ہیں۔ جب کسی کو نظر سے گرانے پر آتے ہیں تو گراتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ہیرو کو زیرو بنانے میں بھی ہم زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ یا تو معاملہ top پر ختم ہوتا ہے یا پھر bottom پر۔ یہی ہمارے اجتماعی مزاج کی bottomline ہے! گویا ؎
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یاد سے نکلے تو سُوئے دار چلے
مرزا کو اِس بات سے شدید نفرت ہے کہ کسی بھی معاملے کو قومی سطح پر بے جا مسرت یا انا کا مسئلہ بنایا جائے۔ کسی ایک میچ کو جیتنے پر یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ دُنیا فتح کرلی۔ اور کبھی کسی میچ کو ہارنے یا ٹورنامنٹ سے باہر ہونے پر یہ تصور نہیں کرلینا چاہیے کہ دُنیا ہی ختم ہوگئی! کھیل کو صرف کھیل ہی کے طور پر لینا چاہیے۔ میچ دیکھتے ہوئے ہر گیند پر اپنا بلڈ پریشر بڑھانا کِسی طور منطقی نہیں۔ لمحہ لمحہ ہلکان ہونا مقابلہ دیکھنے والے کے لیے نقصان دہ ہے، کھلاڑیوں اور کھیلوں کے منتظمین کے لیے ہرگز نہیں۔
مگر مرزا جیسے لوگوں کی بات کون سُنتا ہے۔ جب جذبات بلندی پر اُڑ رہے ہوں تو قوم کو کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔ سب ایک موج کے دوش پر ہوتے ہیں، ایک ہی دھارے میں بہہ رہے ہوتے ہیں۔ سوچ انتہا پر ہو تو کسی کی معقول بات سب سے بُری لگتی ہے۔ قومی ٹیم جیت رہی ہو تو قوم مستی کے سمندر میں ڈوب جاتی ہے۔ ایسی حالت میں ذرا سی بھی تنقید برداشت نہیں ہوتی۔ ٹیم کی طرف انگلی اٹھانا قومی جرم قرار پاتا ہے۔ کرکٹ کے نام پر خواہ مخواہ ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے والوں کے خلاف کوئی کچھ بھی کہنے سے گریز ہی کرتا ہے اور جب ٹیم کا حشر نشر ہوچکتا ہے تب کوئی اگر کسی قومی کرکٹر کے حق میں کچھ کہہ بیٹھے تو سمجھ لیجیے اُس کی شامت آگئی۔
مرزا تنقید بیگ کا کہنا ہے کہ جب ذہنوں میں کچھ نہ ہو اور قوتِ عمل بھی دم توڑتی جارہی ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ کسی واضح سوچ کے بغیر جب بہت کچھ پانے کی تمنا دلوں میں پروان چڑھائی جاتی ہے تو ناکامی ہی ہاتھ آیا کرتی ہے۔ جاگتی آنکھوں کے خواب ایسے ہی ہوتے ہیں۔
ہم نے عرض کیا جناب! اگر قوم کو کسی بات سے خوشی ملتی ہے تو اچھا ہے، کچھ دیر جی تو بہلا رہتا ہے۔ غریبوں کی دنیا میں اور کیا ہوتا ہے، چھوٹی چھوٹی سی خوشیاں ہی تو ہوتی ہیں۔ مرزا کہتے ہیں۔ ''اِسی روش نے تو ہمیں برباد کیا ہے۔ ہم چھوٹی نہیں بلکہ جُھوٹی خوشیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ انتہاؤں کے درمیان سفر کرنے سے ہم صرف بھٹکتے رہتے ہیں۔ منزل تو دیکھ لیتے ہیں اور سمجھ بھی لیتے ہیں۔ مگر جب راستہ ہی نہ ملے تو چلیں کس پر؟‘‘
اب مرزا کو کون سمجھائے کہ جن کا سب کچھ ہاتھ سے جاتا رہا ہو وہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں زندگی کا مقصد تلاش کیا کرتے ہیں۔ غریبوں کو تو خوش ہونے کا بہانہ چاہیے۔ اور یہ بہانہ بھی مشکل سے ملتا ہے۔
مرزا کو اِس بات سے بھی بہت اُلجھن ہوتی ہے کہ قوم اپنی شکست و فتح پر توجہ دینے کی بجائے دوسروں کی شکست یا فتح میں زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔ یعنی کون جیتے گا تو ہم آگے بڑھیں گے یا کون ہارے گا تو ہماری پیش رفت کی راہ ہموار ہوگی۔ مرزا کہتے ہیں۔ ''ہمیں اپنی شکست و فتح پر نظر رکھنی چاہیے۔ ہماری خوشیوں کا مدار اِس نکتے پر نہیں ہونا چاہیے کہ کون جیتا اور کون ہارا۔ دوسروں کی شِکست کو اپنی فتح پر محمول کرنا خوابوں کی جنت میں رہنے جیسا ہے۔ آنکھ کھلتے ہی سب کچھ ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔‘‘
ہم مرزا کی بات سے اختلاف کی جرأت نہیں کرسکتے۔ اُلجھن صرف یہ ہے کہ اگر اُنہیں سمجھانے میں کامیاب ہوں تو قوم کو کیسے سمجھائیں؟ اور اگر قوم کو سمجھالیں تو مرزا کو کس طور سمجھائیں؟ یہ تو بھی تو انتہاؤں کے درمیان مُعلّق رہنے کا معاملہ ہے!
''تم ہارو یا جیتو، ہمیں تم سے پیار ہے‘‘ ایسا نعرہ ہے جو کرکٹ سے سیاست تک تمام ہی معاملات پر بہترین انداز سے منطبق ہوتا ہے۔ سیاست دانوں کو بھی تو عوام نے تمام اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ ہیرو بنا رکھا ہے، سَر چڑھا رکھا ہے۔ ہماری اجتماعی کیفیت کو کسی نے یوں بیان کیا ہے ؎
کبھی جوشِ جُنوں ایسا کہ چھا جاتے ہیں صحرا پر
کبھی ذرّے میں گم ہوکر اُسے صحرا سمجھتے ہیں!
تھوڑے کو بہت سمجھ کر اپنا دل بہلانے والے جب تھوڑے سے بھی محروم رہتے ہیں تو زندگی کھوکھلی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ انتہاؤں کے درمیان جینے سے گریز ہی ہمیں زندگی کی طرف لے جاسکتا ہے۔ ایسا نہ ہو پائے تو پھر یہی ''پل میں ہیرو، پل میں زیرو‘‘ والی کیفیت برقرار رہے گی۔