"MIK" (space) message & send to 7575

سمجھوتہ غموں سے کرلو …

غم کو گلے لگاکر جینے کا درس دینے والی فلموں کی کمی نہیں۔ اب تو خیر رجحان ہی تبدیل ہوگیا ہے ورنہ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب غم کو پوری شدت کے ساتھ سلور اسکرین پر پیش کیا جاتا تھا اور خواتین کی آنکھ سے آنسو نکلتے تھے تو فلم ہٹ ہو پاتی تھی۔ یہی حال رنج و غم کے جذبات سے بھرے ہوئے نغموں کا تھا۔ پچاس سال پُرانے المیہ گیت آج بھی اِسی لیے مقبول ہیں کہ اِن آئینوں میں سامعین کو اپنا آپ دکھائی دیتا ہے۔ 
1970 کے عشرے کے اوائل میں ریلیز ہونے والی فلم ''سمجھوتہ‘‘ کے تھیم سانگ کا مُکھڑا ہے ''سمجھوتہ غموں سے کرلو، زندگی میں غم ہی ملتے ہیں۔‘‘ 
کہنا آسان ہے اور کرنا بہت مشکل۔ غموں سے سمجھوتہ؟ بات عجیب سی ہے۔ غموں سے سمجھوتہ کرلیا تو اُن سے نجات پانے کی فکر کسے لاحق ہوگی؟ اور کیا واقعی غموں سے سمجھوتہ ممکن ہے؟ یہ سوال غور طلب ہے۔ 
زندگی انگور کا دانہ ہے۔ تھوڑا کھٹّا، تھوڑا میٹھا۔ زندگی اِسی طور گزرتی رہی ہے اور گزرتی رہے گی۔ کسی بھی مشکل گھڑی سے کسی نہ کسی طور جان چھڑانے کی کوشش اِنسان کو مزید مشکلات سے دوچار کرتی ہے۔ ہر طرح کے درد و غم سے نجات کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جان چُھڑانے کے بجائے اُس درد یا غم کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ ایسا کرنے سے غم کو سمجھنے اور بہتر انداز سے برتنے میں غیر معمولی مدد ملتی ہے۔ 
خاکسار نے ''نیچرل اینٹی ڈپریسنٹ‘‘ کے عنوان سے ایک کالم سپردِ قلم کیا تھا جو روزنامہ دنیا میں 17 مئی کو شائع ہوا تھا۔ یہ کالم عثمان کے بارے میں تھا جس کی پہلی سالگرہ یکم مئی 2014 کو تھی۔ تقریب 2 مئی کو منعقد کی گئی۔ عثمان ہمارے فلیٹ کے عین نیچے والے فلیٹ میں رہتا ہے۔ جب وہ چار ماہ کا تھا تب سے ہماری بیٹی صباحت (ثوبیہ) اُسے لے آیا کرتی تھی۔ عثمان نے ہمارے ہی گھر میں بیٹھنا، کھڑا ہونا، چلنا اور دوڑنا سیکھا۔ جب اُس نے ہمارے گھر میں آنا شروع کیا تھا تب خود آسانی سے کروٹ بھی نہیں بدل پاتا تھا۔ اور اب وہ ہمیں سُکون سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ ہمارا یہ حال ہے کہ عثمان کو دیکھے بغیر آنکھوں کو آرام نہیں ملتا۔ وہ روزانہ دن کے بارہ بجے اُٹھ کر ہمارے ہاں آجاتا ہے اور پھر رات دس بجے تک اُس کا آنا اور جانا لگا رہتا ہے۔ خاکسار نے اُس کالم میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ ہم نے جہاں بھی رہائش اختیار کی ہے، اِسی طور اڑوس پڑوس کے بچوں کو اپنایا ہے۔ ایسا کرنے سے زندگی میں فرحت و شادمانی رہتی ہے، ذہنی توازن برقرار رہتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ڈپریشن قریب بھی نہیں پھٹکتا۔ 
یہاں تک تو سب ٹھیک ہے مگر کیا کیجیے کہ عثمان کی اِس خوشیوں بھری زندگی کو کسی حاسِد کی نظر لگ گئی۔ 17 ستمبر کو دن کے تین بجے یہ جانکاہ خبر ملی کہ عثمان کے والد حکیم محمد حفیظ نُوری کو کسی نے گولی مار دی ہے۔ اور ابھی اِس خبر کے جھٹکے کو برداشت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہم ہسپتال جانے کی تیاری ہی کر رہے تھے کہ یہ اندوہ ناک خبر ملی کہ عثمان کے سَر سے والد کا سایا اُٹھ چکا ہے! حفیظ بھائی کو ہمارے فلیٹ کے نیچے والے فلیٹ میں منتقل ہوئے تقریباً دو سال ہی گزرے تھے۔ اِس دوران عثمان سے ہمارے ربط نے حفیظ بھائی کو بھی ہمارا بنادیا تھا۔ ڈیڑھ سال کی مدت میں اُن سے خاکسار کی جتنی بھی گفتگو ہوئی اُس سے کہیں بھی یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تھا کہ اُن کی زندگی میں کوئی اُلجھن ہے، کوئی غم ہے۔ وہ ہمیشہ مسکراکر ملے اور اپنی دواساز فیکٹری آنے کی دعوت دی جو ہماری اپارٹمنٹ بلڈنگ سے ڈھائی کلومیٹر دور تھی۔ مگر یہ اتفاق ہے کہ خواہش کے باوجود خاکسار اُن کی فیکٹری نہ جاسکا۔ کسی زمانے میں وہ حکیم سعید شہید کے بھی قریب تھے۔ وہ حکیم صاحب کی گاڑی میں اُن کے مرکزی مطب پہنچا کرتے تھے۔ جس دن حکیم سعید کو شہید کیا گیا اُس دن حفیظ بھائی اُن کی گاڑی میں نہیں تھے۔ تفتیش کے دوران اُنہیں بھی کئی بار طلب کیا گیا اور وضاحت چاہی گئی کہ اُس دن وہ گاڑی میں کیوں نہ تھے۔ حفیظ بھائی کے والد آئی سی یو میں تھے۔ کئی افراد سے تصدیق کے بعد حفیظ بھائی کی جاں بخشی ہوسکی! حفیظ بھائی متموّل تھے اِس لیے عثمان کے بہتر مستقبل کے بارے 
میں کوئی شک یا شبہ رکھنا ممکن نہ تھا۔ زندگی ایسی پُرسکون گزر رہی تھی کہ دور دور تک کوئی خطرہ تو درکنار، خدشہ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جب سے عثمان نے چلنا اور دوڑنا سیکھا ہے، ہمیں پاگل کر رکھا ہے۔ ہماری زندگی میں اُس کا اتنا عمل دخل ہے کہ روزنامہ دنیا کراچی کے دفتر کے ساتھی بھی ہمارے اور عثمان کے تعلق کو جانتے ہیں۔ خاکسار نے عثمان کی شرارتوں کے بارے میں دفتر کے لوگوں کو اِس طرح بتایا ہے کہ بہت سے لوگ تو سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارا ہی بیٹا ہے! حفیظ بھائی ایک اندھی گولی کا نشانہ کیا بنے، ہمارے لیے تو دِل پر قابو پانا عذاب ہوگیا۔ 17 ستمبر کی شب خاکسار کے لیے مصیبت جیسی ہوگئی، پوری رات عثمان کا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھومتا رہا اور مُجھ غریب کے ہونٹوں پر ''ہائے میرا بچہ‘‘ کی گردان رہی۔ جب کبھی ہم یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ اب کوئی انہونی نہیں ہوگی اور سب کچھ بحسن و خوبی چلتا رہے گا، اچانک کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجاتا ہے جو سب کچھ اُلٹ پلٹ دیتا ہے۔ ہمیں یہ سب کچھ بہت عجیب محسوس ہو رہا ہوتا ہے کیونکہ بہت کچھ ہماری توقعات کے مطابق نہیں ہوتا۔ اللہ ہماری بہتری اور بھلائی ہم سے زیادہ جانتا ہے۔ ہماری زندگی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اُس کی پشت پر اللہ کی مشیّت ہی کارفرما ہوتی ہے۔ جب کچھ بھی سمجھ میں نہ آرہا ہو (اور ایسا تو اکثر ہوتا ہے) تب ہمارے لیے صرف یہی آپشن رہ جاتا ہے کہ اللہ کی مرضی 
کے آگے سَرِ تسلیم خم کردیں، راضی بہ رضا ہوجائیں۔ مولانا محمد علی جوہرؔ نے خوب کہا ہے ؎ 
ہر رنگ میں راضی بہ رضا ہو تو مزا دیکھ 
دُنیا ہی میں بیٹھے ہوئے جنّت کی فضا دیکھ 
قدم قدم پر ملنے والی مشکلات ہی تو ہمیں بتاتی ہیں کہ زندگی وہ نہیں جو ہمیں دکھائی دیتی ہے مگر دراصل اُن واقعات پر مبنی ہے جو اچانک رونما ہوتے ہیں اور ہمارے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ جب سبھی کچھ پَلٹ جاتا ہے تب ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ارادے اور منصوبے کتنے کمزور تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قولِ برحق ہے کہ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا۔ عثمان اور دوسرے بہت سے بچوں سے ہمارا محبت بھرا تعلق ہماری زندگی کا سب سے بڑا سرمایا ہے۔ بہت سی پریشانیوں کی دھوپ میں یہی تو ایک سایا ہے۔ اِس دور میں کہ جب لوگ خُون کے رشتوں کو بھول بھال جاتے ہیں، یہ اللہ کا کرم نہیں تو کیا ہے کہ ہمیں اللہ نے غیروں کے بچوں سے بھی پیار کرنے کی توفیق عطا کر رکھی ہے اور ہم اُنہیں اپنی زندگی کا حصہ بنائے رہتے ہیں۔ 
غموں سے سمجھوتہ کرنے میں ہرج نہیں۔ مگر ہاں، یہ اُصولوں پر سمجھوتہ کرنے جیسامعاملہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہر غم کو ایک ٹھوس حقیقت کی حیثیت سے قبول کرنے کی صورت میں اُس کے تدارک کی سبیل دکھائی دیتی ہے۔ ہماری خوشیوں پر بہت سے غم پردوں کی صورت پڑے رہتے ہیں۔ اِن پردوں کو محض قبول نہیں کرنا بلکہ ہٹانا بھی ہے۔ غم کے پردے ہٹیں گے تب ہی تو خوشیوں کا چہرہ دکھائی دے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں