ذوق بھلے ہی بلند نہ ہو، مرزا تنقید بیگ کو مطالعے کا شوق بہت ہے۔ یہ شوق بے سُود بھی نہیں، اُنہیں بہت کچھ دیتا بھی ہے۔ وہ جو کچھ پڑھتے ہیں اُس میں سے کام کی چند باتیں اپنے مفاد میں بروئے کار لانے سے نہیں چُوکتے۔ جب کسی معاملے میں اُنہیں کوئی دلیل نہیں سُوجھتی تو مطالعے کے ذخیرے سے کوئی ہتھیار نکال کر مخالف کو مُنہ توڑ جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مختلف زبانوں کی کہاوتیں وہ خوب یاد رکھتے ہیں اور موقع کی مناسبت سے استعمال کرتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ مطالعے نے اُن کے ذہن کو کسی حد تک سیاسی کر ڈالا ہے۔
مرزا ایک زمانے سے بلا کے جُنونی ہیں۔ اور ہمارا جُنون بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ہم اُنہیں طویل مُدّت سے صرف جانتے ہی نہیں بلکہ اُن کی زندگی میں ہیں یعنی اُنہیں برداشت کر رہے ہیں۔ مرزا کی جُنون پسندی دیکھ کر لوگ دل تھامے رہ جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی اُنہیں شادی کی تقریب میں کھانے کی میز پر ''سرگرمِ جُنوں‘‘ دیکھ لے تو دل کے ساتھ ساتھ اپنی خالی پلیٹ بھی تھام کر رہ جاتا ہے۔ مرزا جب کھا رہے ہوتے ہیں تب قابل دید بھی ہوتے ہیں اور قابل داد بھی۔ ایسے میں لوگ اپنا پیٹ بُھول کر اُن کے پیٹ کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ اور محویت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ؎
لَوٹ کر پھر نظر نہیں آئی
اُن پہ قربان ہو گئی ہو گی
مطالعے کے معاملے میں بھی مرزا میں وہی جُنون پایا گیا ہے جو کھانے کے معاملے میں دکھائی دیتا ہے۔ وہ ''کثیر المطالعہ‘‘ ہی نہیں بلکہ ''وسیع المطالعہ‘‘ بھی ہیں یعنی علاقے میں ہیئر ڈریسرز کی دکانوں اور ہوٹلوں کے چَکّر لگاکر کئی اخبارات پڑھتے ہیں۔ اخبار خوش نصیب ہے کہ اتوار کے اتوار اُسے خریدتے ہیں اور پورا ہفتہ چلاتے ہیں مگر کتابوں کے معاملے میں مرزا جیب ڈھیلی نہ کرنے کے جُنون میں مبتلا ہیں۔ مرزا ہاضمے کی دُرستی کے لیے کئی طرح کے چُورن پھانکتے رہتے ہیں مگر کتابیں ڈکارنے کے لیے اُنہیں کِسی چُورن کی محتاجی اختیار نہیں کرنی پڑتی۔ کتابیں مستعار لے کر واپس نہ کرنے کا ہُنر مرزا میں پاگل پن کی شکل اختیار کرگیا ہے اور اب یہ ہُنر شاید اُنہی پر ختم ہے۔
مرزا سے اُن کے مزاج کی کسی خصوصیت پر بات کرنا کبھی کبھی اپنے حواس کی موت کو دعوت دینا ثابت ہوتا ہے۔ اُن کے دماغ اور زبان کی گاڑی چل پڑے تو اُسے بریک لگانا پھر اُن کے اختیار میں بھی نہیں رہتا۔ ایک دن موقع غنیمت جان کر ہم نے مرزا سے پوچھا کہ بعض معاملات میں وہ اِس قدر جُنونی کیوں واقع ہوئے ہیں۔ مرزا، ہمارے اندازے کے برعکس، تھوڑا سا شرمائے اور خاصے انکسار آمیز لہجے میں جواب دیا: ''ایک فرانسیسی کہاوت ہے کہ ہر عظیم اِنسان میں تھوڑا بہت جُنون ضرور پایا جاتا ہے۔‘‘
ہم حیران رہ گئے کہ اُنہوں نے اپنے اُول جَلول مزاج کے لیے کیسا خوبصورت جواز ڈھونڈ نکالا ہے۔ کس خوبصورتی سے اُنہوں نے اپنے پاگل پن پر فرانسیسی کہاوت کا پردہ ڈال دیا۔ جی چاہا کہ ہم مرزا کی ''ذہانت‘‘ پر قربان ہوجائیں۔ مرزا کی یہ بات ہمیں ماضی کی سَیر پر لے گئی۔ بیس سال قبل ہم روزنامہ جسارت کی نیوز ڈیسک کا حصہ تھے۔ وہاں ایک پروف ریڈر شاہدالانوار روزانہ شیروانی زیب تن کرکے آیا کرتے تھے۔ ایک دن ہمارے میگزین ایڈیٹر راشد عزیز نے پوچھ لیا جناب! آپ شیروانی کیوں پہنتے ہیں۔ شاہد الانوار صاحب نے جواب دیا۔ ''میاں! یہ شُرفا کا لباس ہے۔‘‘ اِس پر راشد عزیز نے کہا: ''اِسی لیے تو پوچھا ہے کہ شرفا کا لباس ہے تو آپ کیوں پہنتے ہیں!‘‘
ہمارے جی میں آیا کہ مرزا سے اِس معاملے پر بحث کریں مگر مشکل یہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر بحث چِھڑتے ہی مرزا ''عظمت‘‘ کا ثبوت دینے لگتے ہیں یعنی پاگل پن کے گھوڑے پر سوار ہوجاتے ہیں! اور اِس گھوڑے کو ایڑ لگانے کے بعد وہ بہت دیر تک نیچے نہیں آتے، ہوا سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔
مرزا نے فرانسیسی کہاوت کے ذریعے عظمت کا جو معیار یا علامت بیان کی ہے اُس کی رُو سے تو پاکستان میں تقریباً ہر دوسرا آدمی ''عظیم‘‘ ہے! ہمیں من حیث القوم اپنی عظمت سے محروم ہوئے کئی زمانے بیت چکے ہیں۔ اہل جہاں عظمت کے حصول کے لیے جُنون کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں اور ہم عظمتِ رفتہ کی تلاش میں پگلائے پگلائے پھرتے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اِس عمل کو بھی عظمت کے کھاتے ہیں ڈال رکھا ہے۔
اب ایک مرزا کو کیا روئیں، یہاں تو پورا معاشرہ ہی خود کو عظیم ثابت کرنے کے لیے پاگل پن کے گھوڑے پر سَوار ہے۔ پاگل پن کا گھوڑا انٹ شنٹ دوڑ رہا ہے، اُچھل کُود بھی رہا ہے مگر ہم ہیں کہ اِس گھوڑے پر سے اُترنے کو تیار نہیں۔ گھوڑے میں دم ہے تو کسی کو گرادے، مگر جو اُس کی پیٹھ پر بیٹھا ہے وہ اللہ کا بندہ اُترنے کا نام ہرگز نہ لے گا!
خود کو ''عظیم‘‘ ثابت کرنے کے لیے کوئی کرپشن کو پاگل پن کی حد تک گلے لگائے ہوئے ہے۔ کسی کو ہر حال میں زیادہ سے زیادہ کمانے کے پاگل پن نے اپنے شکنجے میں کَس رکھا ہے۔ کسی کے گلے میں بے حِسی کے پاگل پن کا طوق ہے۔ کوئی بے عملی کے پاگل پن کا دیوانہ اور اسیر ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگوں پر پڑھنے کا جُنون سوار تھا۔ اب نہ پڑھنے کا پاگل پن ہے کہ خُون کی طرح سَر پر سوار ہے۔ جس طرح سوفٹ ویئرز کے نئے ورژن آتے رہتے ہیں بالکل اُسی طرح پاگل پن کے مختلف ورژنز کے ذریعے خود کو ''عظیم‘‘ ثابت کرنے کا رُجحان دن بہ دن ''جُنونِ اعظم‘‘ کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔
جو لوگ عظمت کے نئے مینار تعمیر کرنے کے بجائے عظمتِ رفتہ بحال کرنے کی فکر میں غلطاں رہتے ہوں اُن کے فکر و عمل میں پاگل پن نہ در آئے تو پھر کیا ہو؟
جُنونی کیفیت کے ذریعے خود کو عظیم ثابت کرنے کا ہُنر اہلِ سیاست پر ختم ہے۔ آج کل اِس حوالے سے اپنی ''عظمت‘‘ ثابت کرنے کی دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ دھرنوں کا عظیم الشان جوش ماند پڑا ہے تو اب جلسوں کے جُنون نے جادو کی شکل اختیار کی ہے اور سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔ دیکھنے اور سُننے والے دم بخود ہیں۔
کسی بھی سطح کی عظمت پر اِس سے بُرا وقت شاید کوئی نہیں ہوسکتا کہ اُسے پاگل پن کے بطن سے برآمد کیا جائے یا پاگل پن کے ذریعے ''پہنچوایا‘‘ جائے۔
اِس میں تو خیر کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی نارمل اِنسان عظمت سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ ہر عظیم اِنسان میں تھوڑا بہت جُنون ضرور پایا جاتا ہے۔ جُنون نہ ہو تو کوئی بھی اِنسان کوئی بڑا کام کیسے کرسکتا ہے؟ مگر جناب! اِسے اُصول یا بنیاد بناکر خود کو عظیم تو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ محض پاگل پن یا سَر پِھرے پن کو جُنون قرار دے کر اُس کے بطن سے عظمت برآمد نہیں کی جاسکتی۔ ایسا کرنا تو نِرا پاگل پن ہی شمار ہوگا۔ کیا کیجیے کہ لوگ اِس روش پر گامزن ہیں اور کسی نئی راہ پر چلنے کو تیار نہیں۔
دوسرے بہت سے شعبوں کی طرح لکھنے کا معاملہ بھی جُنوں کا اظہار کیے بغیر ممکن نہیں۔ جس میں جُنون نہ ہو وہ اچھا لکھ ہی نہیں سکتا۔ کبھی کبھی ہم نے بھی کوشش کی ہے کہ مرزا سے تھوڑا سا ''اکتسابِ جُنوں‘‘ کرکے کچھ لکھ ماریں مگر بیشتر مواقع پر ناکامی ہی ہاتھ آئی ہے۔ خُدارا ہمارے لکھے کو پاگل پن یا پاگل پن کا نتیجہ نہ سمجھیے گا ورنہ مرزا یہ بات بھرپور جوشِ جُنوں کے ساتھ جگہ جگہ بتاتے پھریں گے۔ ہماری ''بیزتی‘‘ خراب کرنے کا کوئی موقع ہاتھ آجائے تو اُن کا جوشِ جُنوں قابل دید بھی ہوتا ہے اور قابل داد بھی۔ لگتا ہے وہ ایسے مواقع پر جَھپٹّا مارنے ہی کے لیے زندہ ہیں۔