"MIK" (space) message & send to 7575

کلکتہ کا جو ذِکر کیا …

ایک زمانہ تھا کہ جب نغمے واقعی نغمے ہوا کرتے تھے یعنی کانوں میں رس گھولتے تھے۔ آج کی طرح نہیں کہ کسی نئے گلوکار کو سُنیے تو لگتا ہے پگھلا ہوا سیسہ کانوں میں اُنڈیلا جارہا ہے! کوئی بھی معیاری گیت سن کر طبیعت ہَشّاش بَشّاش ہوجایا کرتی تھی۔ کوئی گاتا تھا تو واقعی گاتا تھا یعنی سماں باندھ دیتا تھا۔ آج حالت یہ ہے کہ نئی نسل کے بیشتر گلوکار جب نغمہ سَرا ہونے کی کوشش فرماتے ہیں تو لگتا ہے اُن کے بے سُرے پن نے ہمیں باندھ کر رکھ دیا ہے! 
وہ سُریلا دور کیسے برقرار رہتا؟ جب ہر چیز کے مقدر میں زوال لکھا تھا تو سنگیت کی دنیا بچ کر کہاں جاتی؟ اُس کے نصیب میں بھی بربادی لکھی تھی، سو واقع ہوکر رہی۔ 
کچھ روز ہوئے، روزنامہ دُنیا میں گزرے ہوئے زمانے کے گلوکار رجب علی کا انٹرویو پڑھا تو دل پر کئی کیفیتیں گزر گئیں۔ گویا ع 
آج کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں 
کلکتہ میں گزارے ہوئے شب و روز غالبؔ کے حافظے کا حصہ ہوکر رہ گئے تھے۔ جب بھی کوئی اُن کے سامنے کلکتہ کا ذکر کرتا تو وہ تھوڑی دیر کو کسی اور جہان میں کھو جاتے تھے۔ کہتے ہیں ؎ 
کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں! 
اِک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے 
رجب علی کی باتوں نے بھی کچھ ایسا ہی سماں باندھا۔ اُنہیں گزرے ہوئے زمانے کا گلوکار کہتے ہوئے دِل دُکھ رہا ہے مگر کیا کیجیے کہ وہ زمانہ ہی اب نہیں رہا جو سُروں سے سَجا ہوا تھا۔ اور خود رجب علی بھی ہم میں نہیں رہے یعنی برطانیہ میں مستقل سُکونت اختیار کرلی ہے۔ 
اوروں کی طرح رجب علی نے بھی انٹرویو میں موسیقی کے زوال کا رونا رویا ہے۔ یہ تو فطری سی بات ہے۔ جب موسیقی کی دنیا ہی اُجڑ گئی ہے تو اُس کا نوحہ کیوں نہ پڑھا جائے؟ رجب علی کہتے ہیں کہ بالی وڈ میں انٹری دینے سے انسان لاکھوں کمانے کے قابل تو ہو جاتا ہے مگر مہدی حسن کا سا سُریلا پن پیدا نہیں ہو پاتا۔ رجب علی بھی کمال کرتے ہیں۔ سُریلے پن کا لاکھوں کمانے سے کیا تعلق ہے؟ اور شہنشاہِ غزل کا کیا مذکور ہے، لاکھوں کمانے والے تو اُن کے برابر بھی نہیں ہوسکے جو خاں صاحب کے عروج کے دور میں آخری پائیدان پر رہے ہوں گے! 
شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں صاحب نے 1950 ء کے عشرے کے اواخر میں جب ریڈیو پاکستان کراچی میں آڈیشن دیا تھا تب کلاسیکی موسیقی کا ہر انگ گایا تھا۔ ایک انٹرویو میں خاں صاحب نے بتایا تھا کہ آڈیشن پانچ گھنٹے چلا تھا۔ آڈیشن لینے والے بھی حیران تھے کہ یہ کون آگیا ہے کہ دل و نظر پر چھاگیا ہے۔ بات ذوالفقار علی بخاری صاحب تک پہنچی۔ مسئلہ یہ تھا کہ اِس نوجوان کو کیٹیگری کیا دی جائے۔ بخاری صاحب نے کہا بھئی، اے کیٹیگری دے دو۔ اِس سے زیادہ تو کیا دیا جاسکتا تھا؟ مہدی حسن خاں صاحب نے بتایا کہ ریڈیو پر 45 منٹ تک متواتر غزل سرائی کے 35 روپے ملا کرتے تھے۔ یہ ''معاوضہ‘‘ بھی اے کیٹیگری والوں کے لیے تھا۔ بی یا سی والے بے چارے تو بیس پچیس روپے میں نمٹا دیئے جاتے تھے! 
کبھی کبھی اچانک بکنگ ہوجاتی تھی اور غزلوں کی طرزیں فی البدیہہ بنانی پڑتی تھیں۔ اور خاں صاحب کی فنکاری کا تو یہ عالم تھا کہ خاص تیاری کے بغیر بھی گاتے تھے تو ایسا لگتا تھا جیسے گھنٹوں تیاری کرکے آئے ہیں! اِتنی بھرپور مہارت اور محنت کا بھی کچھ خاص صِلا نہ تھا۔ اِن عظیم فنکاروں نے مدتوں محض داد پر گزارا کیا۔ 
وہ بھی کیا دور تھا کہ حلق اور پھیپھڑوں کا پورا زور لگاکر گانے اور فن کا بھرپور مظاہرہ کرنے ہی پر لوگ متاثر ہوا کرتے تھے۔ ہر شعبے میں اُستادوں کا راج تھا۔ جس میں بھرپور اُستادی پائی جاتی تھی وہی بھرپور کامیابی کا حقدار ٹھہرتا تھا۔ خاص محنت کے بغیر شہرت کسی کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑی نہیں ہوتی تھی۔ 
رجب علی کو اندازہ ہونا چاہیے کہ بالی وڈ کی آوازیں بھی اِس وقت بانجھ پن کے دور سے گزر رہی ہیں۔ بمبئی نگریا میں بھی اب ہر طرف بے سُرے پن کا راج ہے۔ سامنے اُنہی کو لایا جاتا ہے جن میں بے سُرا پن ہو تاکہ سُریلا گانے والے کسی کونے میں بیٹھ رہیں۔ پاکستان سے بھی چھانٹ چھانٹ کر اُنہی کو آگے بڑھایا جاتا ہے جو گاتے تو ہوں مگر گانے کا ڈھنگ نہ جانتے ہوں۔ مگر خیر، ذرا سی دیر میں شہرت کٹی ہوئی پتنگ کی طرح قدموں میں آ گِرتی ہے۔ یہ شہرت عارضی ہی سہی مگر راتوں رات اِتنا کماکر دیتی ہے کہ کئی نسلوں کی پُر تعیّش زندگی کا سامان ہو جاتا ہے۔ جب پیٹ اور تجوری بھر کر مال مل رہا ہو تو سُریلے پن کا کون سوچتا ہے! 
رجب علی نے چند غور طلب مشورے بھی دیئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ غلام علی صاحب بہت اچھا گایا کرتے تھے۔ اُنہوں نے غزل اِس ڈھنگ سے گائی کہ مُلک کا نام روشن کیا۔ اب اُن کی عمر ہوچکی ہے، اُنہیں آرام کرنا چاہیے۔ رجب علی کا مشورہ نامناسب نہیں۔ ٹھیک ہے، غلام علی کو آرام کرنا چاہیے مگر رجب علی نئی نسل کے بے سُروں کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ مائکروفون تھام کر سمع خراشی کرنے والوں پر تاحیات پابندی عائد کردی جائے؟ بند ناک کا زور لگاکر گانے والے اِن بے سُروں نے ذوقِ سماعت کی مِٹّی پلید کردی ہے۔ 
رجب علی کا شِکوہ ہے کہ فن کے فروغ کی خاطر قائم کئے جانے والے اداروں میں اُنہیں بٹھادیا گیا ہے جن کا فن سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ بجا کہا۔ مگر جناب، ہم اپنی ''قومی شناخت‘‘ کو کیسے فراموش کردیں؟ پاکستان جن چند باتوں سے پہچانا جاتا ہے اُن میں غیر متعلق افراد کو بھاری بھرکم ذمہ داری سونپنا بھی شامل ہے۔ اور اب یہ روش ترک کرنا انتہائی نامناسب ہوگا کیونکہ قوم اِس رگڑے کی عادی ہوچکی ہے! رجب علی صاحب فن سے متعلق اداروں کے انتظامی سربراہوں کا رونا رو رہے ہیں، یہاں تو فنکار بھی وہ آگئے ہیں جن کا فن سے کچھ خاص تعلق نہیں! جنہیں گانا نہیں آتا وہ گا رہے ہیں، جن کی کُل کائنات ذرا سی صداکاری ہے وہ اداکاری فرما رہے ہیں، جنہیں معمولی درجے کا تِھرکنا بھی نہیں آتا وہ ٹُھمکے لگاتے پھر رہے ہیں اور جن کی اپنی کوئی ڈائریکشن اب تک متعین نہیں ہوپائی وہ فلموں اور ڈراموں کی ڈائریکشن دے رہے ہیں! 
اور ایک فن کی دنیا پر کیا موقوف ہے، علم، کھیل اور سیاست کی دنیا میں بھی یہی کچھ تو ہو رہا ہے۔ جو ڈھنگ سے علم حاصل نہ کرپائیں وہ ہر طرف سے ناکام ہونے پر دِل کی بھڑاس نکالنے کے لیے نئی نسل کو تباہ کرنے کے ''مشن‘‘ پر نکل پڑتے ہیں یعنی مُعلّم بن جاتے ہیں! اب ذرا سوچیے وہ نئی نسل کو مستقبل کے لیے کن خُطوط پر تیار کرتے ہوں گے! ؎ 
گر ہمیں مکتب و ہمیں مُلّا 
کارِ طفلاں تمام خواہد شُد! 
قوم تو دم بخود ہوکر یہ تماشا بھی دیکھتی آرہی ہے کہ جو کھیلنا نہیں جانتے وہ قومی ٹیم کو کاندھے پر اُٹھائے پھرتے ہیں اور خود قوم اُنہیں سَر آنکھوں پر بٹھاتی رہتی ہے۔ جنہیں حُکمرانی کی ابجد کا بھی کچھ علم نہیں وہ قوم کی رہبری کے منصب پر فائز ہو بیٹھے ہیں! ؎ 
پھر منزلوں کے خواب نگاہوں سے مِٹ چلے 
پھر قافلے ہیں راہ نماؤں کی قید میں! 
رجب علی نے انٹرویو میں یہ بھی کہا ہے کہ آج کل کے لڑکے پتا نہیں کیا گا رہے ہیں۔ اور یہ کہ پُرانے گانوں کو ری مکس کرکے اُن کی مِٹّی پلید کر رہے ہیں۔ رجب علی صاحب کی اِس بات کو بھی غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جو سُر میں گاتے تھے وہ تو برطانیہ جا بسے۔ ایسے میں ہمیں تو ''دستیاب وسائل‘‘ پر گزارا کرنا ہے! یہی شِکوہ ہمیں سُہیل رعنا صاحب سے بھی ہے۔ جب اُنہیں نئی نسل کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق تبدیل کرکے صحت مند مقابلے کے لیے تیار کرنا تھا تب وہ بھی بوریا بستر لپیٹ کر امریکا میں مستقل سُکونت اختیار کر بیٹھے۔ شہنشاہِ غزل نے انتہائی پُرکشش پیشکش پر بھی کبھی کسی اور مُلک میں مستقل سُکونت اختیار کرنے کا نہیں سوچا۔ سُریلا پن ہو تو ایسا ہو! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں