"MIK" (space) message & send to 7575

… عجب زمانہ ہے یہ زمانہ

ہر چیز اپنے محور سے ہٹی ہوئی، کِھسکی ہوئی لگتی ہے۔ ہر معاملہ ایسا اُلجھا ہے کہ اب سلجھنے کے نام سے چِڑنے لگا ہے۔ جسے دیکھیے وہ شدید عدم اطمینان کے شِکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔ سب نے گردن میں ناشکری اور ناسپاسی کا طوق ڈال رکھا ہے۔ جس کی جیب خالی ہے وہ بھی پریشان اور جس کی تجوری بھری رہتی ہے وہ بھی ناخوش۔ معاشرے میں ایسے لوگ خال خال ہیں جو ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے قناعت کو زندگی کا جُز بنانے میں مَسرّت محسوس کرتے ہوں۔ 
ایسا کیوں ہے؟ ہم ہر معاملے میں اپنے آپ سے، اوروں سے ... غرض یہ کہ ساری دنیا سے نالاں کیوں رہتے ہیں؟ یہ فِطری رویّہ ہے یا پھر ہم نے اپنی مرضی اور محنت سے اِسے پروان چڑھاکر اپنایا ہے؟ کیا حالات کے بارے میں گِلے شِکوے کرتے رہنا، ہر وقت عدم اطمینان کی چادر اوڑھے رہنا انسان کی فطرت ہے؟ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔ ہم اپنی طرزِ عمل سے ثابت کرتے رہتے ہیں کہ اِس دنیا میں جینے کا بہتر ڈھنگ یہ ہے کہ ہر وقت تقدیر کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے، حالات پر شدید لعن طعن کی جائے اور دوسروں پر بھرپور عدم اعتماد کا اظہار کیا جائے۔ جینے کا یہ ڈھنگ اِس لیے بھی اچھا لگتا ہے کہ دل کو سب سے زیادہ ''طمانیت‘‘ بھی تو ایسا کرنے ہی سے ملتی ہے۔پاکستانی معاشرہ اُسی کیفیت سے دوچار ہے جسے مُنیرؔ نیازی مرحوم نے یُوں بیان کیا ہے ع 
... حرکت تیز تر ہے اور سَفر آہستہ آہستہ 
کسی جگہ کھڑے ہوکر ہلتے جُلتے رہنے کو سفر سمجھ لیا گیا ہے۔ وقت، صلاحیت اور سکت تینوں کا ضیاع واقع ہو رہا ہے اور ہم اِس حوالے سے سوچنے کو تیار نہیں۔ 
جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمیں سوچنے کی تحریک کیوں نہیں دیتا؟ یا یوں کہہ لیجیے کہ ہم سوچنے پر مائل کیوں نہیں ہوتے؟ کیا ہم نے طے کرلیا ہے کہ ذہن کو زحمتِ کار نہیں دیں گے؟ کیا ہمارے ذہنوں میں یہ خیال راسخ ہوچکا ہے کہ خیالات کی کوئی وقعت نہیں ہوا کرتی اور ذہن کو خیال آرائی کی طرف مائل کرنے سے بہتر یہ ہے کہ اُسے لاحاصل باتوں اور فضول یادوں کا گودام بنادیا جائے؟ لوگ بھیڑ چال کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایسا کرنے میں اطمینان بھی محسوس کیا جارہا ہے۔ گویا ع 
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا 
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
پاکستانیوں کی اکثریت کو بظاہر اِس بات سے کچھ غرض نہیں کہ متوازن اور معیاری زندگی بسر کرنا اُسی وقت ممکن ہے جب کچھ سوچا جائے، بیشتر معاملات میں جدت تلاش کی جائے اور شب و روز کو لگے بندھے سانچوں کے بجائے اُن سے ہٹ کر بھی بسر کیا جائے۔ مگر یہ کوئی ایسا آسان کام نہیں کہ سوچیے اور ہوجائے۔ یہ ریاضت مانگتا ہے۔ سوچنے کا ہُنر لگن ہی نہیں، ایثار بھی مانگتا ہے۔ بہت سے معاملات میں دِل کو مارنا بھی پڑتا ہے۔ اِدھر ہم ہیں کہ سب کچھ اپنی مرضی کا چاہتے ہیں۔ گویا ؎ 
ہاں، سُخن گوئی کی صُورت تو نکل سکتی ہے 
پر یہ چَکّی کی مشقّت نہیں ہوگی ہم سے 
زندگی سوالات کی زد میں ہے۔ اور ہم ہیں کہ ہر سوال کو نظر انداز کرکے مخالف سمت دیکھنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ ہر سوال کسی نہ کسی سطح پر اپنی تشفّی یعنی جواب چاہتا ہے۔ جواب نہ مِلنے پر سوال اُسی طرح تشنہ رہ جاتا ہے کہ جس طرح مرہم نہ ملنے پر زخم۔ مرہم نہ ملے تو زخم کو ناسُور بننے سے روکا نہیں جاسکتا۔ یہی حال سوالوں کا ہے۔ جواب سے محروم ہر سوال ذہن میں ایک گِرہ بڑھادیتا ہے۔ ذہن میں پڑنے والی گِرہیں زندگی کی رفتار کم کردیتی ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے شدید بُھوک لگنے پر بھی کچھ نہ کھایا جائے۔ یعنی جسم کو خواہ مخواہ اُلجھن سے دوچار رکھا جائے، کمزوری کی طرف دھکیلا جائے۔ 
یہ کیسی ضد ہے، ہٹھ دھرمی کی راہ میں یہ کون سی منزل ہے؟ ہم کسی بھی معاملے کو خاطر خواہ توجہ سے محروم رکھنے پر اِس قدر توجہ کیوں دے رہے ہیں؟ ہم نے کیوں یہ طے کرلیا ہے کہ اب کسی بھی معاملے میں نظم و ضبط کا سوچیں گے نہ متوازن رویہ اپنائیں گے؟ 
اب اِسے اپنی بدنصیبی کہیے یا بدخواہوں کی خوش بختی کہ پاکستانی معاشرہ تقریباً مکمل طور پر انکار کی حالت میں ہے۔ ہر معقول بات سے مکمل انکار کو مسائل کے دائمی حل سے تعبیر کرلیا گیا ہے۔ آنکھ دیکھتی ہے مگر نہیں دیکھتی۔ کان سُنتے ہیں مگر یُوں جیسے کچھ سُنا ہی نہ ہو۔ کسی عام آدمی کا تو مذکور ہی کیا، جو سوچنے کا ہُنر جانتے ہیں وہ بھی سوچنے کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور انکار کے مضمرات جانتے ہوئے بھی انکار ہی کو قرینۂ ہستی بنائے ہوئے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اب تو وہ شاید یہ بھی نہیں سوچتے کہ کبھی کبھی سوچنا بھی چاہیے۔ ہوسکتا ہے سوچنے کے تقاضے اور ممکنہ نتائج اُنہیں سنجیدگی سے سوچنے کی طرف جانے سے روکتے ہوں۔ اگر ایسا بھی ہے تو یقینی طور پر اِسے حقیقت سے فرار اور غیر حقیقی یعنی کھوکھلی مسرّت ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ 
حقیقت سے نظر چُرانے کی روش ایسی عام ہوگئی ہے کہ ہر شخص اِسی پر گامزن دکھائی دینے لگا ہے۔ یہ روش لوگوں کو بالعموم کسی بہت ہی بے ڈھنگے اور پیچیدہ موڑ پر کھڑا کرکے ایک طرف ہٹ جاتی ہے۔ آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا اور مُڑ کر دیکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہم من حیث القوم ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔ سوچنے سے گریز نے بُرے حالات کے چوراہے پر ہمیں بے لباس کرکے تماشا بنادیا ہے۔ 
ہم کِس زمانے میں جی رہے ہیں؟ دُنیا والے تو اِسے اکیسویں صدی کہتے ہیں۔ اکیسویں صدی جس کے لیے ہوگی اُس کے لیے ہوگی۔ ہمارے لیے تو یہ ڈیڑھ دو ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے۔ ہم جدید ترین وضع کے لباس پہنتے ہیں، جن مکانات میں ہم رہتے ہیں وہ جدید ترین ڈیزائن اور ساخت کے ہیں۔ بیشتر گھروں میں بنیادی ضرورت کا سامان جدید طرز کا ہے۔ سفر کے ذرائع بھی جدید ہیں مگر سوچ گئی گزری ہے یا یُوں کہہ لیجیے کہ گھاس چَرنے چلی گئی ہے۔
پاکستانی معاشرہ جس قدر بے ذہنی کے دور سے گزر رہا ہے اُس کے پیش نظر لگتا ہے کہ اب سب کے ذہن میں صرف یہ بات ہے کہ کسی نہ کسی طور دن کو رات اور رات کو دن کرلیا جائے، بس یہی کافی ہے۔ اِس بے ذہنی نے زندگی کے ہر شعبے کو شدید متاثر کیا ہے۔ کوئی بھی معاملہ اِس کی زد سے باہر یا ہٹ کر نہیں۔ 
بے ذہنی کے ساتھ جینے میں بظاہر بہت مزا ہے۔ ذہن پر ذرا بھی زور نہیں پڑتا۔ حیوانات کی طرح لگی بندھی زندگی اپنانے سے انتخاب کا مرحلہ ہمارے معمولات سے حذف ہو جاتا ہے۔ اگر کسی مسئلے کو حل کرنے کے چار پانچ طریقے ہوں تو سوچ سمجھ کر بہترین طریقہ اپنایا جاسکتا ہے۔ مگر یہ معاملہ بھی ایسا آسان نہیں ہوتا جیسا دکھائی دیتا ہے۔ بہترین آپشن کی تلاش کے لیے سوچنا پڑتا ہے، کچھ نہ کچھ قربان بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں عقل یہی کہتی ہے کہ جو طریقہ سب سے آسان لگتا ہو اور ایثار کا مطالبہ بھی نہ کرتا ہو اُسے اپنالیا جائے۔ ہر معاملے میں آسانی تلاش کرنے کی عادت نے اب معاملات کو ٹالتے رہنے اور کسی نہ کسی طور اُن سے عارضی نجات پانے کی عادت کو پُختہ کردیا ہے۔ 
باہر بہت شور ہے جو کسی کام کا نہیں‘ اور ذہنوں میں خاموشی ہے۔ تفکر کے محاذ پر سَنّاٹے کا راج ہے۔ یہ سَنّاٹا چیخ چیخ کر ہم سے بہت کچھ کہہ رہا ہے مگر ہمارے پاس سماعت کا وہ ذوق ہے نہ سَکت کہ اِس چیخ پُکار کو سُن سکیں۔ زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے اور ہم ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اِس تماش بینی نے ہمیں بھی تماشا بنادیا ہے۔ ؎ 
کوئی سنجیدہ کیوں نہیں ہوتا؟ 
زندگی کیا تماش بینی ہے؟ 
حالات ہم سے جن تبدیلیوں کا تقاضا کر رہے ہیں اُن کی خاطر اب علامہ کے مشورے پر عمل ناگزیر ہوچکا ہے۔ ؎ 
دلِ مُردہ دِل نہیں ہے، اِسے زندہ کر دوبارہ 
کہ یہی ہے اُمّتوں کے مرضِ کُہن کا چارہ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں