"MIK" (space) message & send to 7575

آئیے، فخر کریں!

مونگ پھلی ہی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 
یہ نہ ہونے جیسی چیز بھی اپنی بڑھتی ہوئی قیمت 
کی بدولت اپنے وجود کا اِتنی شِدّت سے 
احساس دلاتی ہے جیسے فلسفۂ وجودیت کی تبلیغ 
کر رہی ہو! شام کو کام سے واپسی پر کوئی اہل 
خانہ کے لیے ایک پاؤ مونگ پھلی لے جائے تو 
ایسا محسوس کرتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا تیر مار لیا 
ہے، اپنے آپ پر خواہ مخواہ فخر محسوس ہونے لگتا 
ہے! اور اگر سو ڈیڑھ سو گرام چلغوزے گھر لے 
جائیے تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی قلعہ فتح کرلیا ہے
 
 
اپنے آپ پر فخر کرنے کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں۔ اور اُن میں سے بیشتر ہمارے ہاں رائج ہیں۔ لوگ زندگی بھر حماقت پر حماقت کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں اور کمال یہ ہے کہ ہر حماقت پر فخر کرنے سے بھی نہیں چُوکتے۔ 
پاکستانی معاشرے کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ جن باتوں پر انتہائی شرمندہ ہونا چاہیے اُن پر گنجائش سے بڑھ کر فخر کیا جاتا ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ بہت سے لوگ زندگی بھر کچھ نہیں کرتے اور اِس پر فخر کرتے ہیں۔ کچھ نہ کرنا اور اِس پر فخر کرنا اب محض طمانیتِ قلب کا ذریعہ نہیں بلکہ اسٹیٹس سمبل بنتا جارہا ہے! 
مرزا تنقید بیگ نے عملی زندگی کا بیشتر حصہ بے عمل رہتے ہوئے گزارا ہے یعنی ایک سرکاری ادارے میں ملازمت کی ہے۔ پہلے تو ہم اُن کی پُرسکون اور آرام دہ زندگی پر رشک کیا کرتے تھے مگر پھر یہ رشک حسد میں تبدیل ہوا۔ یہ اُس زمانے کی بات یہ جب مرزا ہفتے میں تین چار دن دو تین گھنٹے کے لیے دفتر جایا کرتے تھے۔ جب اُنہوں نے دیکھا کہ اُن کی پُرسکون زندگی سے ہمیں تکلیف پنچ رہی ہے تو اُنہوں نے ہمیں مزید تکلیف دینے کے لیے دفتر جانے کی ہفتہ وار فریکوئنسی کم کردی! 
کچھ نہ کرنے پر مرزا کو ہمیشہ فخر رہا ہے۔ اِسے کہتے ہیں ایک تو کریلا اور اُوپر سے نیم چڑھا۔ ہماری تو حسرت ہی رہی کہ ایسی آرام دہ زندگی میسر ہوتی اور ہم بھی اُس پر فخر کرتے۔ ہم نے جب بھی مرزا سے کہا ہے کہ فخر کرنے کی کوئی ٹھوس بنیاد ہونی چاہیے تو اُنہوں نے جواب میں چند لایعنی سوال داغ کر ہمیں مزید خلجان میں مُبتلا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے جب بھی مرزا کے تساہل اور آرام طلبی پر طعنہ زن ہوکر اُنہیں بتایا ہے کہ ہمیں اپنی کالم نگاری پر فخر ہے تو اُنہوں نے زوردار قہقہہ لگاکر ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اُن کا ''استدلال‘‘ (یعنی ضِد) یہ ہے کہ فی زمانہ کالم نگاری پر فخر کرنے سے کہیں زیادہ موزوں یہ ہے کہ اِس عمل پر واضح شرمندگی محسوس کی جائے۔ 
ویسے حق تو یہ ہے کہ مرزا کی بات مکمل طور پر غلط بھی نہیں۔ بعض لکھنے والوں کو پڑھنے کے بعد ہم محسوس کرتے ہیں کہ فی زمانہ کالم نگاری پر فخر کرنے کے لیے جگرا چاہیے۔ یوں ہمیں اپنی کالم نگاری ہی پر فخر نہیں بلکہ جگرا ہونے پر بھی فخر ہے! کبھی کبھی مرزا کی جلی کٹی باتیں سُن کر ہم اپنے لکھنے لکھانے کو قلم گھسیٹنے کا عمل سمجھنے لگتے ہیں مگر اللہ کا شُکر ہے کہ یہ جذباتی کیفیت کچھ دیر میں ختم ہوجاتے ہیں اور ہمارے ناز و افتخار کا پرنالہ پھر وہیں بہنے لگتا ہے! 
ساحرؔ لدھیانوی نے کہا تھا ؎ 
لے دے کے اپنے پاس یہی اِک نظر تو ہے 
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم! 
ہمارا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہمارا کل اثاثہ یہ کالم نگاری ہی تو ہے۔ اب اگر اِس پر بھی فخر نہ کریں تو کِس بات پر فخر کریں؟ مرزا نے ہمیں کالم نگاری پر کئی بار مطعون کرنے کی کوشش کی ہے۔ مرزا کالم نگاری کو وہ حیثیت دینے کے لیے بھی تیار نہیں جو معیاری کتب میں حواشی کی ہوتی ہے۔ مرزا کو ہمارے لکھنے پر بنیادی اعتراض یہ ہے کہ ہم فکاہیہ لکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر مزاح پیدا نہیں کر پاتے۔ اِس کے جواب میں ہم نے ہر بار یہی عرض کیا ہے کہ بہت سے قارئین ہمارے کالموں پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے یہ اعتراف بھی کر بیٹھتے ہیں کہ ہمارے لِکھے پر اُنہیں ہنسی آتی ہے! مرزا کہتے ہیں کہ یہ ہنسی ویسی ہی ہے جیسی شکیلؔ بدایونی نے 1960 کے عشرے میں فلم ''سن آف انڈیا‘‘ کی ایک المیہ غزل میں محمد رفیع مرحوم کی سُریلی اور درد بھری آواز میں بیان کی تھی ؎ 
زندگی آج مِرے نام سے شرماتی ہے 
اپنی حالت پہ مُجھے خود بھی ہنسی آتی ہے 
صد شُکر کہ ہم ابھی اپنی حالت پر ہنسنے کی منزل تک نہیں پہنچے۔ لکھتے وقت ہم اِس قدر سنجیدہ رہتے ہیں کہ کوئی دیکھے تو یہی سمجھے کہ ہم اپنے لکھنے پر فخر کر رہے ہیں۔ 
جب ہم زیر نظر کالم لکھنے بیٹھے تھے تب اُن تمام باتوں کو بیان کرنے کا اِرادہ تھا جن پر اب ہم من حیث القوم فخر کرسکتے ہیں۔ آغاز ہی میں ہاتھ رُک گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ اب اِس معاشرے میں فخر کرنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فخر کرنے کے اِتنے اسباب ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کِس پر بات کریں، کِسے رہنے دیں۔ 
ہم پاکستانیوں کی زندگی اب اِس مقام پر آگئی ہے کہ کسی بھی بات پر فخر کیا جاسکتا ہے۔ کوئی اگر اپنے اور اہل خانہ کے لیے عزت اور وقار کے ساتھ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرسکتا ہے تو اپنے آپ پر فخر کرنا اُس کا استحقاق ہے۔ کوئی اگر اِس پُرآشوب دور میں پندرہ دن میں ایک بار بکرے کا ایک پاؤ گوشت پکانے کی سَکت رکھتا ہے تو ایسا کرنے پر فخر کیوں نہ کرے! اگر کوئی مزدور سخت سردی میں کوٹ یا سوئیٹر پہنے بغیر کام پر جا اور واپس آسکتا ہے تو یہ صلاحیت اور جی داری بھی ایسی نہیں کہ اِس پر فخر نہ کیا جائے۔ 
کراچی میں عموماً سردی کم ہی پڑتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سردی میں کھانے والے خُشک میوہ جات کے دام اِتنے گرم رہتے ہیں کہ بہت سے لوگ جب دکاندار یا ٹھیلے والے سے چلغوزے، بادام، پستے، اخروٹ یا انجیر کے دام پوچھنے پر اپنے دل و دماغ میں گرمی کی لہر سی اُٹھتی ہوئی محسوس کرتے ہیں! دُھند کراچی میں شاذ و نادر پڑتی ہے مگر وہ زمانے ہوا ہوئے جب خُشک میوہ جات سے سردی میں ہم لَذّت کشید کیا کرتے تھے۔ اب حالت یہ ہے کہ یہ میوے ہم سے تفریح لیتے ہیں! چلغوزے، اخروٹ، کشمش، انجیر وغیرہ کھانا تو بہت دور کی بات ہے، عام آدمی اگر یہ نعمتیں کھانے کا صرف اِرادہ بھی کرلے تو اِس اِرادے کے ممکنہ اجر و ثواب کا سوچ سوچ کر اپنے آپ پر فخر کرنے لگتا ہے! اور اگر کبھی خیال و خواب کی دُنیا سے باہر آکر کسی ٹھیلے پر خان صاحب سے ڈرائی فروٹ کے دام پوچھ لیں تو غریبوں کی رگوں کا خُون خُشک ہونے لگتا ہے! کیا زمانہ آگیا ہے کہ کل تک جو چیزیں ہمارے منہ کا ذائقہ بہتر بنانے کے کام آتی تھیں وہ اب ہماری سَکت کا امتحان لینے پر تُل گئی ہیں یعنی دام پوچھ بیٹھیے تو سُن کر منہ کا ذائقہ اور مُوڈ دونوں خراب ہوجاتے ہیں! 
مونگ پھلی ہی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ نہ ہونے جیسی چیز بھی اپنی بڑھتی ہوئی قیمت کی بدولت اپنے وجود کا اِتنی شِدّت سے احساس دلاتی ہے جیسے فلسفۂ وجودیت کی تبلیغ کر رہی ہو! شام کو کام سے واپسی پر کوئی اہل خانہ کے لیے ایک پاؤ مونگ پھلی لے جائے تو ایسا محسوس کرتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا تیر مار لیا ہے، اپنے آپ پر خواہ مخواہ فخر محسوس ہونے لگتا ہے! اور اگر سو ڈیڑھ سو گرام چلغوزے گھر لے جائیے تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی قلعہ فتح کرلیا ہے، کِسی رُستمِ زماں کو پچھاڑ دیا ہے۔ تھوڑا سا ڈرائی فروٹ خریدنے میں کامیابی کے بعد دِل خوشی کے مارے یُوں اُچھلنے لگتا ہے جیسے کوئی ڈرائی پورٹ خرید لی ہو! 
ہم پر حکومت کرنے والوں کی ''مہربانیوں‘‘ کا سلسلہ یُونہی جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہم صرف اِس لیے زندہ رہیں گے کہ ہر چھوٹی بڑی بات پر فخر کریں۔ اب یہی دیکھیے کہ سِتم ظریفوں کی اِتنی کوششوں کے بعد بھی ہم زندہ ہیں اور سانس لینے کے قابل ہیں۔ کیا یہ کم کامیابی ہے کہ اِس پر فخر نہ کیا جائے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں