مُسلم دشمنی کا عِفریت بھارت میں ایک بار پھر انگڑائیاں لیتا ہوا بیدار ہو رہا ہے۔ ہندو معاشرے کے روز افزوں تضادات نے بہت سوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ ہندو اِزم کوئی باضابطہ مذہب توہے نہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو بھی تسلیم کیا ہے کہ ہندو اِزم محض روایات کا مجموعہ ہے، اور کچھ نہیں۔ جو ہندو اپنے معاشرے کا کھوکھلا پن جانتے اور سمجھتے ہیں وہ دیگر مذاہب کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہیں۔ دِل و دِماغ میں پنپنے والی بے تابی پر قابو پانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس مذہب میں حق دکھائی دے اُسے گلے لگایا جائے۔ بھارت میں ہندوؤں کے بڑی تعداد میں اسلام کی طرف آنے کا بھی یہی سبب ہے۔ دہشت گردی ختم کرنے کی آڑ میں مغرب نے جس طرح اسلام کو نشانہ بنایا ہے اُس کا سَرسَری جائزہ لینے پر بھی حقیقت تک پہنچنا کچھ دشوار نہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بابری مسجد کو شہید کرنے کا ''کریڈٹ‘‘ لیا اور ہندو انتہا پسندی کو فروغ دے کر ایوان ہائے اِقتدار پر گرفت مضبوط کرلی۔ مگر انتہا پسندی سے لوگ جلد اُوب گئے۔ یُوں اقتدار پھر کانگریس کی جھولی میں آ گِرا۔ اقتدار پر دوبارہ گرفت مضبوط کرنے کے لیے طے پایا کہ انتہا پسندی سے دامن کَش رہا جائے۔ بی جے پی نے ''ہندوتوا‘‘ کے فلسفے سے خود کو الگ کرنے کی کوشش کی اور دوبارہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ نریندر مودی نے بھی گجرات میں کامیابی سے حکومت چلانے کے باوجود اپنے خیالات میں لچک پیدا کی، نرمی کا مظاہرہ کرنے کو ترجیح دی تاکہ لوگ خواہ مخواہ بددِل و بدظن نہ ہوں۔
ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ بی جے پی کی ٹرین کو ایک بار پھر انتہا پسندی اور ''ہندوتوا‘‘ کے ٹریک پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ اُنّاؤ سے تعلق رکھنے والے ساکشی مہاراج بی جے پی کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ اُن کے دل میں ہندو اِزم کے لیے درد ایسا جاگا ہے وہ اپنی پارٹی کی اصلاح شدہ پالیسی کو موت کی سُلانے کے درپے ہیں۔ جن لوگوں نے مسلمانوں پر دباؤ ڈال کر اُنہیں دوبارہ ہندو بنانے کی تحریک شروع کی ہے اُن میں ساکشی مہاراج بھی پیش پیش ہیں۔ وشو ہندو پریشد کے ایجنڈے کے تحت شروع کی جانے والی اِس تحریک کو ''گھر واپسی ابھیان‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی جو لوگ صدیوں پہلے اسلام کے دامن میں چلے گئے تھے وہ گھر (ہندو اِزم) واپس آ جائیں، اُنہیں کچھ نہیں کہا جائے گا! یہ تحریک ایسی تیزی سے چلائی جارہی ہے کہ نریندر مودی بھی کچھ سمجھ نہیں پارہے کہ ہو کیا رہا ہے۔
ساکشی مہاراج اور اُن کے ہم خیال لوگوں کو یہ فکر لاحق ہے کہ آبادی کے اعتبار سے کہیں ہندوؤں کی ٹرین چُھوٹ نہ جائے۔ میرٹھ کے ایک ہنومان مندر میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ساکشی مہاراج نے کہا کہ ہندوستان میں ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لیے ہر ہندو عورت کو کم از کم چار بچے پیدا کرنے چاہئیں! اور یہ کہ رام راج یقینی بنانے کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔ ساکشی مہاراج کو اصل دُکھ اِس بات کا ہے کہ ہندوؤں میں پیدائش کی شرح گھٹ رہی ہے جبکہ دوسروں کی رفتار برقرار ہے۔ ساکشی جی نے مزید کہا کہ اچھے دن آگئے ہیں، اب بھارت میں چار بیوی اور چالیس بچوں کا فلسفہ نہیں چلے گا۔
ابھی ساکشی مہاراج کے ولولہ انگیز خطاب کا زور ٹوٹا بھی نہیں تھا کہ وشوا ہندو پریشد کے سربراہ پروین توگاڑیہ نے جے پور میں بیان داغ دیا کہ ہندو اِزم کو بچانے کے لیے ہر ہندو عورت کو کم از کم تین بچے پیدا کرنے ہوں گے۔ پروین توگاڑیہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ہندو خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہوئے تو بھارت میں صرف چالیس کروڑ ہندو رہ جائیں گے۔ اور یہ کہ اگر بھارت میں ہزار بارہ سو سال پہلے مذہب کی تبدیلی کا عمل شروع نہ ہوا ہوتا تو آج دنیا بھر میں کم و بیش 700 کروڑ ہندو ہوتے۔
ہماری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ انتہا پسند ہندو لیڈر مسلمانوں سے جنم جنم کے بَیر کا بدلہ اپنی عورتوں سے کیوں لینا چاہتے ہیں! عورتوں نے بھلاکیا بگاڑا ہے کہ اُنہیں اِتنا کشٹ دیا جائے؟ ہمیں یقین ہے کہ کم از کم چار یا تین بچے پیدا کرنے کو مذہبی فریضے کا درجہ دینے پر بھارت کی بیشتر ہندو عورتیں شش و پنج میں پڑگئی ہوں گی۔ ساکشی مہاراج اور پروین توگاڑیہ کو پیٹ بھر کوستے ہوئے اُن کی ماؤں کو بھی نہ بخشا ہوگا!
پروین توگاڑیہ نے فی ہندو عورت تین بچوں کی تجویز ہی نہیں دی بلکہ تینوں بچوں کے فرائض کا تعین بھی کردیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایک بچہ ماں باپ اور بھائی بہنوں کے لیے کمائے گا، دوسرا ملک کی حفاطت کا فریضہ انجام دے گا یعنی فوج میں جائے گا اور تیسرا بچہ ہندو ثقافت اور معاشرتی اقدار کے دفاع کا بیڑا اُٹھائے گا۔
مسلمانوں نے ''رفتار‘‘ برقرار رکھ کر ساکشی مہاراج کو واقعی اُلجھن میں ڈال دیا ہے۔ ''دوسروں کی رفتار برقرار ہے‘‘ والی بات پڑھ کر ہمیں ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ برطانوی راج کے دوران کانگریس کا جلسہ ہو رہا تھا۔ اسٹیج پر پارٹی کے ایک مسلم رہنما بی بیٹھے تھے۔ ایک ہندو رہنما نے اپنی تقریر میں ہندوستان کی ابتری کی بات کرتے کرتے موقع غنیمت جانا اور ہندوؤں کے بُرے حالات کا راگ بھی الاپنا شروع کردیا۔ کہنے لگے کہ ہندوؤں کو اپنا کچھ خیال ہی نہیں۔ اُن کی تعداد گھٹ رہی ہے جبکہ مُسلم بھائی اپنی تعداد میں مسلسل اِضافہ کر رہے ہیں۔ یہ سُن کر مسلم رہنما کھڑے ہوئے اور مائکروفون تھام کر بولے۔ ''ہندوؤں کی گھٹتی ہوئی تعداد کا سُن کر ہمیں بہت دُکھ ہوا۔ ہندو بھائی بتائیں کہ اِس سلسلے میں ہم کیا کرسکتے ہیں!‘‘
پروین توگاڑیہ نے ہر ہندو گھرانے کے تین بچوں کو فرائض تفویض کردیئے مگر یہ نہیں بتایا کہ ہندو بچے اگر اُن کے بتائے فرائض کے مطابق زندگی بسر کریں گے تو بالی وُڈ کی فلمیں کون دیکھے گا، ملک کے طول و عرض میں خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کا ''کرتویہ‘‘ کون نِبھائے گا اور ہندو قوم کی ذہنی ساخت میں گندھی ہوئی عجیب و غریب رُسوم کو پروان چڑھانے کا بیڑا کون اُٹھائے گا؟
نریندر مودی نے بھارت کے لیے پتا نہیں کیسے کیسے سورگ سوچ رکھے ہیں اور انتہا پسند عناصر بی جے پی کو ایک بار پھر ''ہندوتوا‘‘ کے نرک میں دھکیلنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اور بات یہیں ختم نہیں ہوتی، وہ تو بے چاری ہندو عورتوں کو بھی زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے نرک میں جلانا چاہتے ہیں۔ یہ تو کرے کوئی بھرے کوئی والا معاملہ ہوا۔
اور گھر واپسی کی تحریک شروع ہوتے ہی کیا ہوا؟ اِدھر چند علاقوں کے مسلمانوں کو ''گھر‘‘ واپس لانے کے لیے ڈرایا دھمکایا جارہا تھا اور اُدھر بہار اور دیگر پس ماندہ ریاستوں میں نچلی ذات کے ہندوؤں نے بُدھ اِزم کو لگانا شروع کردیا! مگر جناب، انتہا پسند ہندوؤں کے دِلوں پر قُفل لگے ہیں، آنکھوں پر پَٹّیاں بندھی ہیں۔