لیجیے، دنیا کا ایک دیرینہ مسئلہ حل ہوگیا۔ جس موٹاپے نے ہم جیسے نہ جانے کتنے ہی لوگوں کا ناک میں دم، ناطقہ بند اور جینا حرام کر رکھا ہے اُس سے نجات کا ایسا طریقہ ماہرین نے بتایا ہے کہ آپ پڑھیں گے تو دنگ رہ جائیں گے اور اپنی ''موٹی‘‘ عقل کا ماتم کرنے کے ساتھ ساتھ ماہرین کی ''پتلی‘‘ عقل پر عش عش کر اُٹھیں گے کہ ایسا آسان نُسخہ آپ کے ذہن کو کیوں نہیں سُوجھا۔
دنیا بھر میں لوگ موٹاپے کو پچھاڑنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ اُن کی کوششیں کئی عشروں، بلکہ صدیوں پر محیط ہیں۔ بڑے بڑے جُغادری آئے مگر ہار گئے۔ بیسویں صدی کی طرح اکیسویں صدی بھی چونکہ عجائبات کی صدی ہے اِس لیے ماہرین نے دوسرے بہت سے مسائل کی طرح موٹاپے کا حل بھی سُجھا دیا ہے۔ ماہرین فرماتے ہیں کہ موٹاپے کو بائے بائے کہنے کے لیے معمولات بدلنا ضروری نہیں۔ رات دن ورزش کرنا بھی لازم نہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء بدلنی پڑیں گی نہ کھانے پینے کا وقت۔ آپ یہ سوچ کر حیران ہو رہے ہوں گے کہ پھر ایسا کیا ہے جس کی مدد سے موٹاپے کو پچھاڑا جاسکتا ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ اگر آپ موٹاپے سے نجات چاہتے ہیں تو ذہن پر قابو پائیے۔ یعنی جب بھی کچھ کھانے کو جی چاہے تو ذہن کو یقین دلائیے کہ آپ کھاچکے ہیں۔ ذہن مطمئن ہوکر فرمائش سے باز آجائے گا اور آپ کا ہاضمے کا نظام مشقّت سے بچ جائے گا!
دیکھا آپ نے؟ جس موٹاپے سے نجات کے لیے لوگ سراپا ریاضت بننے کو تیار رہے ہیں، سلسلۂ ہمالیہ کے پہاڑوں پر جاکر تپسیا کرتے رہے ہیں، ڈائٹنگ کے نام پر اپنے آپ کو تماشا بناتے رہے ہیں اُس سے گلو خلاصی کا کیسا آسان طریقہ ماہرین کی بدولت ہم تک پہنچ گیا!
کون سی قوم ہے جس میں موٹے نہیں پائے جاتے؟ دنیا کی ہر قوم کو اللہ نے ''ٹو اِن ون‘‘ اور ''تھری اِن ون‘‘ ٹائپ کے لوگوں سے نوازا ہے! اِنہیں دیکھ کر ہی کچھ لوگ اپنے دِل کو تسلّی دیتے ہیں کہ جب یہ جی رہے ہیں تو خوراک کی بڑھتی ہوئی قِلّت کے باوجود ہمیں بھی کھانے پینے کو کچھ نہ کچھ ملتا ہی رہے گا!
آپ ہرگز یہ نہ سوچیں کہ ہم نے موٹاپے کو ذہن کے ذریعے کنٹرول کرنے والی بات از راہِ تفنّن کہی ہے۔ یہ درست ہے کہ ماہرین کی بیشتر آراء ''وقفہ برائے تفریح‘‘ کا موقع فراہم کرتی ہیں مگر وہ ہر وقت کھلنڈرے پن کا مظاہرہ نہیں کرتے، کبھی کبھی سنجیدہ بھی ہوجاتے ہیں یعنی ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جنہیں پڑھ کر رونا آئے!
موٹاپے کا جلاپا ایسا ہے کہ لوگ ہمیں کالم پر بھول کر بھی داد نہیں دیتے مگر ہاں، موٹاپے کے تدارک سے متعلق جب بھی کوئی خبر کسی اخبار میں چھپتی ہے تو ضرور مطلع کرتے ہیں۔ نُسخے اور ٹوٹکے بتانے والوں کی بھی کمی نہیں۔ کوئی کہتا ہے یہ کھاؤ، کوئی کہتا ہے وہ کھاؤ۔ یقین جانیے کہ موٹاپے سے نجات کے طریقے بتا بتاکر لوگ ہمارا خُون ہی پی گئے ہیں۔ اب ہماری رگوں میں صرف جلاپا بہہ رہا ہے!
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، موٹاپے کے اسباب اور اِس مصیبت سے نجات کے طریقوں سے متعلق اِتنا کچھ پڑھا ہے کہ اگر سب کچھ ترتیب سے رکھا اور یاد رکھا ہوتا تو اِس موضوع پر دو تین مرتبہ پی ایچ ڈی کرچکے ہوتے! تحقیق کے لیے سدا بہار موضوعات میں موٹاپے کو اب تک صرف ایک موضوع شکست دے سکا ہے اور وہ ہے اُمتِ مسلمہ کے زوال کے اسباب!
ماہرین کے جس مشورے کا ہم نے آپ سے ذکر کیا وہ روزنامہ دُنیا کے اُس سیکشن میں شائع ہوا ہے جو دلچسپ خبروں کے لیے مختص ہے۔ سِتم ظریفی ملاحظہ فرمائیے۔ جس موٹاپے کے ہاتھوں لوگ اذیّت سے دوچار ہیں اُس سے متعلق مشورے دلچسپ خبروں کے سیکشن میں شائع کئے جارہے ہیں۔ ع
کسی کی جان گئی، آپ کی ادا ٹھہری!
ماہرین کا تو کام ہی آپ کے پیچیدہ مسائل کا حل بتاکر آپ کے زخموں پر نمک چِھڑکنا ہے اور دوسروں کو تفریحِ طبع کا موقع فراہم کرنا ہے۔ وہ تو باز آنے سے رہے (کیونکہ اُنہیں یہی سب کچھ کرنے کے پیسے ملتے ہیں)، یارانِ صحافت ہی کچھ رحم فرمائیں اور اِس طرح کے مشوروں کو تفریحِ طبع والی خبروں کے کھاتے میں تو نہ ڈالیں۔ چاہیں تو ''عدمِ صحت‘‘ کے عنوان سے نیا گوشہ متعارف کراسکتے ہیں!
ہم نے جب موٹاپے کو ذہن کے ذریعے کنٹرول کرنے والی خبر پڑھی تو نہ چاہتے ہوئے بھی مُسکرادیئے۔ ؎
اپنی ناکامیوں پہ آخرِ کار
مُسکرانا تو اختیار میں ہے!
اب ہم ماہرین کو کیا بتائیں کہ ہم نے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی خاطر جسم کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کتنی بار کی ہے۔ جسم کا بوجھ کم کرنے کے لیے لازم ہے کہ اِنسان معدے پر پڑنے والا بوجھ گھٹائے یعنی کم کھائے اور کم پیے۔ ہم اب تک کھانے کی منزل میں ہیں، ''پینے‘‘ کے مرحلے میں قدم نہیں رکھا! کھانے کے معاملے میں اجتناب کو حرزِ جاں بنانے میں ہماری وہی کیفیت ہے جو غالبؔ کی تھی ؎
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زُہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی!
لوگوں نے جب بھی موٹاپے کی دُہائی دے کر ہمارے دِل میں ہَول اُٹھائے ہیں، ہم نے ڈائٹنگ کی تیاری کی ہے۔ مگر جب بھی ہم نے ڈائٹنگ پلان پر عمل شروع کیا ہے، اُنہی لوگوں نے ڈائٹنگ کے ممکنہ نتائج سے ایسا ڈرایا ہے کہ ہم نے گوناگوں خدشات سے گھبراکر ڈائٹ پلان پر لعنت بھیجتے ہوئے اپنے پسندیدہ ''معمولاتِ خوراک‘‘ سے رجوع کیا ہے۔ ؎
اِرادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے!
سچ تو یہ ہے کہ کھانے پینے کی عادات تبدیل یا ترک کرنے کے حوالے سے ہمارا معاملہ وہی رہا ہے جو سگریٹ چھوڑنے کے حوالے سے ایک صاحب کا تھا۔ اُن سے پوچھا گیا سگریٹ چھوڑنا ممکن ہے؟ جواب ملا۔ ''جی بالکل! میں کئی بار سگریٹ چھوڑ چکا ہوں!‘‘ ہم بھی کئی بار بے وقت کا کھانا پینا چھوڑ چکے ہیں! ہمارے لیے تو یہ بس میں سوار ہونے جیسا معاملہ ہے۔ یعنی جب جی میں آئے اُتر جائیے اور پھر جب ضرورت محسوس ہو لپک کر سوار ہوجائیے!
ہم نے لوگوں کو ڈائٹنگ کرتے دیکھ کر ہمیشہ دانتوں تلے (اپنی) انگلیاں داب لی ہیں۔ ہمارے نزدیک تو یہ مجاہدے ہی کی ایک متبادل شکل ہے۔ زبان کے چٹخارے کو پچھاڑنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ڈائٹ پلان بنانا کوئی کمال نہیں۔ اصل معجزہ تو اُس پر عمل کر دکھانا ہے۔ کوئی ہمالیہ کی چوٹیوں پر دُھونی رماتا ہے تو رمائے، ہمارے لیے اُس میں دلچسپی کا کیا پہلو ہوسکتا ہے؟ ہم تو اُسے مانیں گے جو ہمیں اِضافی کھانے پینے سے روکنے کی راہ سُجھائے گا۔ اِس معاملے میں ہم خود کو بہت مجبور پاتے رہے ہیں ؎
حوصلہ ہو تو کیا نہیں ہوتا
ہاں مگر حوصلہ نہیں ہوتا!
ماہرین نے تو مزے سے کہہ دیا کہ ذہن کو یہ سمجھا دیجیے، وہ سمجھا دیجیے۔ ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا فرمایا ہوا مستند ہے، جادو کی چھڑی ہے کہ ذرا سی گھمائی اور کائنات کو اِدھر سے اُدھر کردیا۔ اگر یہ ایسا ہی بچوں کا کھیل ہوتا تو آج ہم جیسے لاکھوں کروڑوں ''دِل جلے‘‘ جینز میں پتلی ٹانگوں کے ساتھ اِدھر سے اُدھر گھومتے پھر رہے ہوتے، یُوں آپ کے سامنے صفائی دینے پر مجبور ہرگز نہ ہوتے! کھانے پینے والوں کا ذہن ایک الگ ہی کائنات کا درجہ رکھتا ہے۔ ڈائٹنگ کی عادت اپنائیے تو کبھی کبھی یہ ذہن ایسا بگڑتا ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ اِس کا انتقام بہت خطرناک ہوتا ہے۔ آپ نے بھی دیکھا ہی ہوگا کہ بہت سے لوگ ڈائٹنگ میں ناکام ہوتے ہیں تو پہلے سے زیادہ کھانا شروع کردیتے ہیں۔ یہ سب ذہن کی کارستانی ہوتی ہے۔ ماہرین کو کیا پتا کہ ذہن کیا ہوتا ہے اور کس طرح قابو میں آتا ہے۔ اُن کے پاس ذہن ہوتا تو ایسا مشورہ دیتے ہی کیوں؟