کون ہے جو زیادہ جینا نہیں چاہتا؟ خواہ کسی سے پوچھیے کہ اور کتنا جینا ہے، جواب میں یہ خواہش ضرور جھلک رہی ہوگی کہ سانسوں کی مالا نہ ٹوٹے، دنیا ختم ہوجائے مگر زندگی ختم نہ ہو۔
کبھی آپ نے بہت جینے کی خواہش رکھنے والوں سے پوچھا ہے کہ اِتنا جی کر کیا کریں گے؟ ہمیں یقین ہے کہ آپ کو اِس سوال کا کوئی معقول جواب کبھی نہ مل سکے گا۔ زیادہ جینے کی خواہش بھی دولت کمانے کی خواہش سے مماثلت رکھتی ہے۔ لوگ بہت سی دولت حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر اُنہیں خود بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ اِس دولت کا کرنا کیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دولت آتی رہتی ہے مگر اور کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔
ایک دور تھا کہ بُزرگ سَر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے طویل عمر کی دُعا دیا کرتے تھے۔ پھر وقت نے پلٹا کھایا اور بُزرگوں کو احساس ہوا کہ اِس دور میں کسی کو لمبی عمر کی دُعا دینا دشمنی نبھانے کی ایک شکل ہے۔ حالات کی نوعیت پر غور کیجیے تو اب طویل عمر کی دُعا اپنی اصل کے اعتبار سے بد دُعا سے کم نہیں۔ کوئی خاصی شفقت سے بھی ''جیتے رہو‘‘ کہے تو دِل میں کچھ کھٹکا سا ہوتا ہے۔ ؎
ہاں وہی لوگ ہیں دراصل ہمارے دشمن
جو ہمیں عمر درازی کی دُعا دیتے ہیں!
غالبؔ نے شاہی دربار سے ملنے والے وظیفے کا باقاعدہ بنانے کے لیے جو درخواست نظم کی تھی اُس کے آخری شعر میں آخری مغل تاجدار کو ''دُعا‘‘ دی تھی۔ ؎
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
حساب لگائیے۔ اگر یہ ''دُعا‘‘ قبول ہوجاتی تو بہادر شاہ ظفرؔ کو پانچ کروڑ سال زندہ رہنا پڑتا! تاجداری تو لَد گئی تھی۔ اِتنی طویل مدت تک گزارا کیسے ہوتا؟ غالبؔ کو تو دس بیس برس بعد دُنیا سے جانا ہی تھا اور چلے بھی گئے۔ آخر مغل تاجدار کس سے پوچھتا کہ کروڑوں سال کی زندگی کا کیا کروں؟ اُس زمانے میں تو ایدھی، چھیپا، سیلانی وغیرہ بھی نہیں تھے! ثابت ہوا کہ دُعا دینے کے لیے خلوص اور عقل دونوں درکار ہیں!
سائنس دان رات دن زندگی کا سلسلہ دراز کرنے کی کوششوں میں جُتے رہتے ہیں۔ تحقیق کا زور اب اِس بات پر ہے کہ کسی طور جسم میں خلیوں کی شکست و ریخت کا عمل زیادہ سے زیادہ سُست کردیا جائے تاکہ لوگ بہت دیر سے بوڑھے ہوں یعنی بہت جئیں۔
جن معاشروں نے ترقی کی ہے اور زندگی بسر کرنے کا بہت اعلیٰ معیار متعارف کرایا ہے اُن میں تو زیادہ جینا سمجھ میں آتا ہے۔ معنویت ہو تو سو سوا سو سال کی عمر جنت میں گزاری جانے والی زندگی لگتی ہے۔ اب جہاں 50 سال کی عمر میں لوگ 80 سال کے دکھائی دیتے ہوں وہاں بہت جی کر کیا کرنا ہے! یہ تو سَر پر اچھا خاصا بوجھ اُٹھائے پھرنے جیسی حالت ہوئی! مگر یہ ایسا دِل نشیں بوجھ ہے کہ لوگ خوشی خوشی اُٹھائے پھرتے ہیں۔
محققین کی کوشش ہے کہ اِنسان موجودہ سے دُگنی اوسط عمر کا حامل ہوجائے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں تو ایسا ممکن بنایا بھی جاچکا ہے۔ جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں عمر کی سینچری مکمل کرنے والے ہزاروں ہیں۔ دوسری طرف پس ماندہ ممالک میں اوسط عمر 50 اور 55 کے درمیان رہ گئی ہے۔ ایسے میں بلا خوفِ تردید کہا جاسکتاہے کہ جاپان اور دیگر ترقی یافتہ معاشروں میں اوسط عمر کمزور ممالک کی اوسط عمر سے دگنی کی جاچکی ہے۔
جاپانیوں کا تو ہمیں معلوم نہیں کہ سو سوا سو سال جی کے کیا کرتے ہیں۔ ہماری خوش گمانی یہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی مقصد کے تحت جیتے ہوں گے۔ مگر ہاں، اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو لمبی عمر بہت حد تک عمر قید دکھائی دیتی ہے! جس طرح کے ماحول میں جینا پڑ رہا ہے وہ تو طے شدہ زندگی ہی کو عذاب ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ جہاں چاروں طرف گِلے شِکوے ہوں، ہر وقت کسی نہ کسی بات کا رونا پیٹنا لگا رہتا ہو وہاں کوئی سو سال جی کے کیا کرے گا؟ یہ تو اپنی ذرا سی ''دل پشوری‘‘ کے لیے متعلقین کو اُلجھن میں ڈالنے والی بات ہوئی!
1970ء کے عشرے کی سُپر ہٹ فلم ''انصاف اور قانون‘‘ میں مہدی حسن کا گایا ہوا ایک اصلاحی گیت محمد علی پر فلمایا گیا تھا۔ بول تھے ؎
سو برس کی زندگی میں ایک پل
تو اگر کرلے کوئی اچھا عمل
تجھ کو دنیا میں ملے گا اُس کا پھل
آج جو کچھ بوئے گا کاٹے گا کل
غور فرمائیے۔ سو برس کی زندگی میں بُھولے بھٹکے کوئی ایک آدھ اچھا عمل! یعنی ایک آدھ پَل بھی کسی مقصد کے ساتھ گزر جائے تو بہت ہے، اِس سے زیادہ کی ''ہوس‘‘ نہیں! فلمی شاعر بھی جانتے تھے کہ پاکستانی معاشرے میں سو سال کی زندگی بھی ملے تو کوئی کیا تیر مار سکتا ہے!
مرزا تنقید بیگ کو رات دن صحت کی فکر لاحق رہتی ہے۔ ڈاکٹرز اور فارماسسٹ اُن کے لیے ساقی کا درجہ اختیار کرچکے ہیں، دواؤں کا دور چلتا رہتا ہے۔ کبھی پیٹ کا درد بھگاتے ہیں اور کبھی جوڑوں کا۔ ہم نے بارہا سمجھایا ہے کہ چوٹی کا درد بھگائیے یعنی کوئی ایسی دوا لیجیے کہ دِماغ درست ہوجائے اور کام کرنے لگے!
مرزا کی زندگی اِس ڈھب سے گزری ہے کہ متعلقین، بالخصوص بھابی کو اپنی ساٹھ سال کی زندگی دو ڈھائی سو سال کی لگنے لگی ہے! جب سے بھابی نے یہ سُنا ہے کہ محققین عمر لمبی کرنے کی موثر دوا تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ مرزا کی ممکنہ سو سال کی عمر کا سوچ کر سہمی سہمی سی رہنے لگی ہیں!
مرزا زیادہ سے زیادہ جینا چاہتے ہیں۔ اِسے ہم اُن کا ذہنی خلل اور اہل خانہ سے دشمنی قرار دیتے ہیں۔ اُنہوں نے آج تک جو زندگی بسر کی ہے اُسے جھیل کر متعلقین نے تمام (اگلے اور پچھلے) گناہوں کا کَفّارہ ادا کردیا ہے! اُن کے معمولات سے گھر کے تمام افراد اِس قدر عاجز رہے ہیں کہ اگر کسی نے مرزا کو طویل عمر یقینی بنانے کی کوئی دوا لاکر دی تو سب مل کر اُس دوا کے لانے والے کو قتل کردیں گے!
حُسن کے نِکھار میں اضافہ کرتے رہنا خواتین کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ بالکل اِسی طرح زیادہ سے زیادہ جینا تقریباً ہر اِنسان کا بنیادی ایشو ہے۔ محققین اِس نفسیاتی کمزوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مارکیٹ میں شوشے چھوڑتے رہتے ہیں۔ بُڑھاپے کو ٹالنے کے لیے وہ ایسے ایسے نُسخے تجویز کرتے ہیں کہ اُن نُسخوں کو بیک وقت بروئے کار لاکر بہت سے لوگ بڑھاپا ٹالنے میں یکسر ناکام رہتے ہیں یعنی بُڑھاپا آنے سے پہلے ہی دُنیا سے ٹل جاتے ہیں!
مرزا کو بُڑھاپا ٹالنے کا اِس قدر شوق (بلکہ ''ہَوکا‘‘) ہے کہ ہم نے اُنہیں طرح طرح کے نُسخوں اور طریقوں کو آزمائش میں ڈالتے پایا ہے! مرزا مختلف نُسخے آزمانے کے باوجود اپنے بُڑھاپے کو تو نہیں ٹال سکے مگر ہاں اُن کے اہل خانہ کا ذہنی سُکون اچھا خاصا ٹل گیا ہے اور بہت سی اُلجھنیں کہیں اور ٹل کر اُن کے گھر میں آ بیٹھی ہیں!
حالیہ تحقیق کے نتیجے میں ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ چٹ پٹے کھانے سے عمر بڑھ سکتی ہے۔ جیسے ہی مرزا نے یہ خبر پڑھی، گھر والوں کی مصروفیت بڑھادی۔ اب اُن کے چٹ پٹے کھانوں کی ''فریکوئنسی‘‘ بڑھ گئی ہے۔ ماہرین نے شرط عائد کی ہے کہ چٹ پٹے یعنی مسالے دار کھانوں سے پیدا ہونے والی تکلیف کے اشارے دماغ تک نہ پہنچ پائیں۔ اِس کا حل مرزا نے یہ نکالا ہے کہ کوئی میٹھی ڈِش بھی لازمی طور پر تیار کراتے ہیں تاکہ کوئی فضول اشارا دماغ تک نہ پہنچے۔
زیادہ جینے کی تمنا رکھنے والوں کے لیے مرزا کے حالات کی روشنی میں ہمارا پُرخلوص مشورہ ہے کہ جو زندگی ملی ہے اُسی کو ڈھنگ سے گزاریے۔ طویل عمر کے نُسخے آزمانے کے نام پر اِس بے چاری لگی بندھی زندگی کو آزمائش میں مت ڈالیے! محققین کا کیا ہے، اُنہیں تو دُکان چلانی ہے اِس لیے شوشے چھوڑتے رہیں گے۔ اِن شوشوں سے دامن بچاکے چلنا آپ کی ذمہ داری ہے، آپ کو اللہ نے عقل سے نوازا ہے!