"MIK" (space) message & send to 7575

دِل کا کیا کریں صاحب!

حبابؔ ترمذی نے خوب کہا ہے ؎ 
ستاروں میں اُلجھ کر رہ گئی ہے 
یہیں تک ہے نظر کی دسترس کیا؟ 
موضوعات کے ذیل میں کچھ کچھ یہی معاملہ اُردو شاعری کا ہے۔ ہمارے بیشتر شُعراء موضوعات اور اُن کے برتنے کے لحاظ سے گل و بلبل، ساقی و مے خانہ، لب و رخسار، آشیانہ و قفس، فراق و وصال وغیرہ میں اُلجھ کر، پھنس کر رہ گئے ہیں۔ دِل بھی ہمارے شُعراء کے لیے ایک سدابہار موضوع ہے۔ جب اور کچھ نہیں سُوجھتا یعنی طبیعت رواں نہیں ہو پاتی تو وہ اپنے دِماغ کو دِل کے پیچھے لگا دیتے ہیں! 
اُردو کے قدیم دواوین کو پڑھ جائیے یا جدید دور کا کلامِ بلاغت نظام ملاحظہ فرمائیے، آپ دِل کی ''صلاحیت‘‘ اور ''سکت‘‘ کا احوال پڑھ کر پہلے تو حیران و ششدر رہ جائیں گے اور پھر شش و پنج میں پڑ جائیں گے۔ دِل کے کھاتے میں ایسے ایسے کام ڈال دیئے گئے ہیں کہ اُسے علم ہو تو شرمائے، گھبرائے، سراسیمہ ہو اور بے حواسی کی نذر ہوکر چوکڑی کے ساتھ ساتھ دھڑکنا بھی بُھول جائے! 
ہماری شاعری میں دِل کی اِس قدر اور ایسے ایسے طریقوں سے خبر لی گئی ہے کہ دِل کو سمجھنا تو دُور کی بات رہی، ہم اب تک یہ بھی طے نہیں کر پائے ہیں کہ دِل ہے کس بلا کا نام! ہماری ناقص رائے میں تو دِل شاید بلا ہے تبھی تو لوگ اِس بلا سے نجات پانے کی کوشش میں اِسے جہاں تہاں پھینکنے کی کوشش کرکے ''دِل پھینک‘‘ ہونے کا الزام سہنے کے لیے بھی تیار ہوجاتے ہیں! 
چولھے پر چڑھی ہوئی پتیلی میں سالن اگر جل جائے تو کہا جاتا ہے سالن لگ گیا۔ لگنے کے معاملے میں دِل کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ کہیں دِل لگنے کا مفہوم یہی سمجھ میں آتا ہے کہ بہت کچھ جل گیا ہے یا جلنے والا ہے۔ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ کہیں دِل کسی کا لگتا ہے اور جلن کسی اور کو ہو رہی ہوتی ہے۔ 
اِنسان چاہتا ہے کہ دِل لگا رہے مگر دِل کا لگے رہنا ہر معاملے میں درست اور مفید نہیں ہوتا۔ کہیں کہیں تو دِل ایسا لگتا ہے کہ ''لگے رہو مُنّا بھائی‘‘ والی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے! پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ لگے ہوئے دِل کو معمول پر لانا جُوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرتا ہے۔ ناصرؔ کاظمی مرحوم نے کہا تھا ؎ 
بھری دُنیا میں جی نہیں لگتا 
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی 
مصیبت یہ ہے کہ کہیں دِل نہیں لگتا تب بھی کمی سی محسوس ہوتی ہے اور کہیں دِل لگ جانے پر بھی دُنیا خالی خالی سی محسوس ہوتی ہے۔ فی زمانہ اضافی فرق یہ ہے کہ کہیں دِل لگا بیٹھیے تو دُنیا کے ساتھ ساتھ جیب بھی خالی خالی سی لگتی ہے! گویا ؎ 
ملنے کو یُوں تو ملا کرتی ہیں آنکھیں سب سے 
دِل کے آ جانے کے انداز جُدا ہوتے ہیں
اِس شعر میں ''انداز‘‘ کی جگہ آپ ''نتائج‘‘ بھی پڑھ سکتے ہیں! 
ہم نے بچوں سے گفتگو کے دوران بزرگوں کو یہ مشورہ دیتے سُنا ہے کہ دِل لگاکر پڑھو۔ بزرگوں کو شاید اندازہ نہیں اِس مشورے کی تعمیل دِل کا تیا پانچا کرنے سے کم نہیں۔ دِل لگانے کے بعد کبھی کوئی پڑھ سکا ہے! 
دِل ایک ہے اور کام ہزار۔ دِل کرے تو کیا کرے۔ یہ ہر وقت شش و پنج کی منزل میں رہتا ہے۔ اُلجھنے سے فُرصت ملے تو کچھ سُلجھانے کی کوشش کرے۔ اِنسان کام پر جانے کے لیے گھر سے نکلنے ہی والا ہو تو سُہانا موسم دِل کو دو راہے پر پہنچا دیتا ہے۔ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ دفتر کا رُخ کیا جائے یا شریکِ حیات کے ساتھ کسی تفریح مقام کا قصد کرکے موسم کا سُہانا پن شیئر کیا جائے! ایسے میں عام طور پر سُہانے موسم، تفریح اور شریکِ حیات ہی کی جیت ہوتی ہے! 
دِل اگر کسی بات پر ٹِک جائے، اٹک جائے تو اُسے تبدیل کرنا انتہائی دُشوار ہوتا ہے۔ دُنیائے طِب نے اب یہ مشکل بھی آسان کردی ہے۔ ڈاکٹر دِل ہی بدل دیتے ہیں۔ اگر دِل نہ ملے تو مشینی دِل یعنی pace-maker کی پیوند کاری کرکے زندگی کی گاڑی کو چلتا رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ 
پاکستانی معاشرے میں دِل کی جگہ مشین لگانے کا رواج عام نہیں 
ہوسکا۔ سوال اخراجات کا نہیں۔ ہم نے اللہ سے مفت میں ملنے والے دِل ہی کو مشین میں تبدیل کرلیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک طویل عمل کے نتیجے میں ممکن ہوسکا ہے۔ مشین جذبات سے عاری ہوتی ہے۔ ہم نے دِل کو جذبات سے عاری کرکے مشین کے درجے تک پہنچا دیا ہے! ممکن ہے آپ سوچیں کہ اِس ''پیش رفت‘‘ میں تو نقصان ہے۔ دِل جذبات سے عاری ہوجائے تو کیسا جینا اور کہاں کی زندگی۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ دِل کا جذبات سے عاری ہو جانا فی زمانہ نعمت سے کم نہیں۔ کم از کم پاکستانی معاشرے کی روش تو یہی ثابت کر رہی ہے۔ اب دیکھیے نا، جو کچھ یہاں ہو رہا ہے اُسے جھیلنے کی تاب کوئی اصلی اور نازمل دِل کہاں سے لاسکتا ہے؟ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جو تکلیف دینے کے معاملے میں ناغے کا ہو! ایسے میں جیتے جاگتے، دھڑکتے تڑپتے دِل کے ساتھ کوئی کیسے جی سکتا ہے؟ اچھا ہے کہ دِل مشینی انداز سے کام کرے۔ پریشانیوں کا بوجھ کچھ تو کم ہوگا۔ مصائب اور اُلجھنوں کو کم کرنے کا ہمارے پاس اب ایک یہی نتیجہ خیز طریقہ رہ گیا ہے کہ محسوس کرنا اور سوچنا چھوڑ دیں۔ 
کل روزنامہ دُنیا میں پڑھا کہ بھارت کے شہر بنگلور میں ڈاکٹرز نے دل کی کامیاب پیوند کاری کے ذریعے دو سالہ روسی بچے گلیب کی جان بچالی۔ بنگلور کے ایک صاحب نے اپنے ذہنی طور پر مُردہ بچے کا دِل عطیہ کردیا جو گلیب کے سینے میں رکھ دیا گیا۔ کلیب کی ماں نے روس چھانا مارا اور جرمنی بھی گئی مگر کہیں سے دِل کا عطیہ نہ ملا۔ ملتا بھی کیسے؟ اپنے جگر گوشے کا دِل عطیہ کرنا دِل گردے کا کام جو ٹھہرا! 
عقل مند کے لیے اشارا کافی ہوا کرتا ہے۔ اللہ نے جو دِل بخشا ہے اُس کی قدر ناشناسی کیجیے تو نعم البدل ڈھونڈ نکلانے میں باقی عُمر بیت جائے گی۔ 
دِل کے بارے میں جو کچھ اہلِ سُخن نے کہا اور اہلِ قلم نے لکھا ہے وہ سب ایک طرف ہٹاکر ہمیں دِل کو مرکزِ ذات بنانا ہے۔ ہم نے بہت زیادہ کام لاد کر دِل کو ''ٹاسک فورس‘‘ میں تبدیل کردیا ہے۔ یہ ہمارے وجود کا مرکز ہے، کوئی کرائے کا فوجی نہیں کہ جہاں تہاں لڑنے بھیج دیجیے یا زمانے بھر کی عِلّتوں کو ''مدعو‘‘ کرکے دِل کو یلغار روکنے پر لگائے رکھیے! دِل کو زمانے بھر کی ذمہ داریاں سونپنے کے بجائے صرف دھڑکن اور احساس سے مُتّصف اور مُزیّن رکھنا ہے۔ مگر صاحب! دِل کو آلائشوں سے پاک رکھنا کوئی ایسا بچوں کا کھیل بھی نہیں۔ پند و نصائح تو رات دن سُنتے ہیں مگر نتیجہ وہی برآمد ہوتا ہے تو پہاڑ پر بارش سے برآمد ہوتا ہے۔ آپ نے اور ہم نے اِس دِل کے ہاتھوں ہی پتا نہیں کیا کیا دیکھا اور جھیلا ہے۔ یہی دِل ہے جو پندار کو پروان چڑھاتا ہے اور یہی دِل ہے جو نازوں میں پلے پندار کو جُوتی کی نوک پر رکھتا ہے۔ ؎ 
دِل پھر طوافِ کُوئے ملامت کو جائے ہے 
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے! 
آزاد چھوڑا جائے تو دِل ایسے ہی تماشے دِکھاتا ہے۔ آج کا کالم یہیں تک۔ دِل اپنے خلاف مزید کچھ لکھنے کی اجازت نہیں دے رہا! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں