"MIK" (space) message & send to 7575

تول مول کے بول

دنیا بھر کے ماہرین کا اِس نکتے پر اتفاق ہے کہ مصر کی تہذیب دُنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ہے۔ اہرامِ مصر دیکھ کر آج کا انسان بھی دنگ رہ جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ساڑھے تین چار ہزار سال قبل یہ اہرام کس طور بنائے گئے ہوں گے۔ مگر خیر، دنگ کرنے کے لیے مصر کے پاس اہرام کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ فی زمانہ مصر کی سیاست اور معاشرت‘ دونوں ہی خاصی حیرت انگیز اور عبرت ناک ہیں۔ 
چند روز قبل مصر سے ایک ایسی خبر آئی جس سے اندازہ ہوا کہ مصری معاشرہ اکیسویں صدی میں بھی چار ہزار سال پُرانی زندگی بسر کر رہا ہے۔ ہم تو یہ سمجھ کر ''فخر‘‘ سے سَر اُٹھائے پھرتے تھے کہ زمانے کو دانتوں تلے انگلی دبانے پر مجبور کرنے والی خَر دِماغی صرف ہمارے ہاں پائی جاتی ہے مگر مصریوں نے ثابت کر دیا کہ وہ عمومی رویّوں کی ٹیکنالوجی میں ہم سے بہت آگے ہیں‘ یعنی مزاجاً وہ بھی پاکستانی ہی واقع ہوئے ہیں! 
ہوا کچھ یوں کہ مصر میں مصطفی جاد دن بھر کام کاج کے بعد تھکا ہارا گھر آیا تو اُس کی اہلیہ ہالہ طٰہٰ نے گھر میں تیار کیا ہوا کیک پیش کیا۔ مصطفیٰ نے کیک کھایا تو ہالہ نے اپنے دِل میں ستائش کی تمنّا محسوس کی اور پوچھا کہ کیک کیسا بنا ہے؟ مصطفیٰ خدا جانے کہاں کھویا ہوا تھا۔ اُس نے کہہ دیا کہ کیک اچھا نہیں بنا، مزا نہیں آیا۔ بس، یہ سُننے کی دیر تھی کہ ہالہ نے جو چُھری تھام رکھی تھی وہ مصطفیٰ کے پیٹ میں گھونپ دی! گویا ع 
کمال اُس نے کیا ... اور میں نے حد کر دی!
مصطفی خون میں لت پت گِر پڑا۔ محلّے میں شور مچا، لوگ جمع ہوئے اور مصطفی کو ہسپتال لے گئے مگر کچھ ہی دیر میں اُس نے دم توڑ دیا۔ 
ہم نے یہ تو سُنا تھا کہ مُرغی جان سے گئی اور کھانے والے کو سَواد (مزا) نہ آیا مگر یہاں تو معاملہ ہی اُلٹا ہے۔ یہاں تو مزا نہ آنے پر کیک کے ساتھ ساتھ کیک کھانے والا بھی جان سے گیا! 
مصطفیٰ جاد کی بیوی نے ایک ایسی مثال قائم کی ہے کہ ہم جیسے امن پسند شوہر تو لرز کر رہ گئے ہیں۔ 
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ گھر میں کوئی بھی نئی چیز بنانا کس قدر جاں گُسل مرحلہ ہے۔ خواتین خانہ کو کئی ٹی وی چینل دیکھ کر تراکیب نوٹ کرنا پڑتی ہیں۔ پھر اِن تراکیب کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ اور ضرورت محسوس ہو تو چند تراکیب کو ایک دوسرے میں ضم یا باہم ضرب کر کے کچھ نیا بنانے کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ اور پھر نئی ڈِش کی تیاری کا مرحلہ۔ تمام اُمور کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ کچھ بھی زیادہ یا کم ہو جائے تو لذّت پتلی گلی سے نکل لیتی ہے اور چُولھے پر چڑھی پتیلی میں صرف بے لذّتی رہ جاتی ہے! 
چینلز پر جلوہ آرا ہونے والی کوکنگ ایکسپرٹس کی رہنمائی میں خواتین خانہ شوہروں کے سامنے جو کچھ رکھنا چاہتی ہیں اُس کی تیاری کا مرحلہ سُرنگ سے گزرنے جیسا ہوتا ہے۔ کئی مشکل مراحل سے گزرنے پر ڈھنگ کی کوئی چیز بن پاتی ہے۔ یعنی سو جتن کرنے پڑتے ہیں ع 
تب نظر آتی ہے اِک مصرعِ تَر کی صورت 
مصطفیٰ جاد اِتنی سی بات نہ سمجھ سکا اور مصرعِ تر کو سراہنے سے گریز کر کے خُون میں تَر ہو گیا! شادی شدہ آدمی کا جینا بھی بے ڈھب ہے اور مرنا بھی بے ڈھنگا! 
ہر شادی شدہ مرد کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب بھی اہلیہ کچھ ہٹ کر پکائے تو تعریف کرنا اُس کے فِطری و ازلی فرائض میں شامل ہے۔ اور اگر غور کیجیے تو عقلِ سلیم کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اگر عام ڈگر سے ہٹ کر کوئی چیز بنائی جائے تو بیوی کو سراہنا ہر شوہر کا فرض ہے۔ سبب اِس کا یہ ہے کہ بیویاں ہر حال میں بیویاں ہوتی ہیں۔ یہ دعویٰ تو شاعر ہی کر سکتے ہیں کہ ع 
نہ ستائش کی تمنّا، نہ صِلے کی پروا 
خواتین خانہ ہر حال میں ستائش اور صِلے کی صرف متمنّی ہی نہیں، طلب گار بھی رہتی ہیں۔ اگر ستائش نہ کی جائے تو پھر اِس بات کی توقع بھی نہ کی جائے کہ کئی دِن تک (یا کئی ہفتوں) تک کوئی ڈھنگ کی چیز کھانے کو مل سکے گی! اب اگر آپ میں ہمت ہے اور بے لذّتی برداشت کرنے کی ہمت ہے تو مصطفیٰ جاد بن کر دکھائیے اور جو ذہن کے پردے پر اُبھرے وہ بول جائیے! 
ہمیں محض خوش فہمی نہیں بلکہ پورے یقین کے ساتھ اِس بات پر فخر ہے کہ ہم میں عقلِ سلیم قابلِ رشک حد تک پائی جاتی ہے۔ ہم نے کیریئر یعنی صحافت اور اُمورِ خانہ داری یعنی گھریلو معاملات... دونوں میں کبھی حقیقت پسندی سے کام نہیں لیا! ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ حقیقت پسند ہونے اور حقیقت پر مبنی رائے کا اظہار کرنے میں بہت فرق ہے۔ ہر سَچّائی کو جُوں کا تُوں بیان کرنا آزمائش کو دعوت دینے مترادف ہوتا ہے۔ اور گھریلو معاملات میں سچ بولنا تو بالعموم شیر کے مُنہ میں گردن دینے جیسا معاملہ ہے۔ 
جہاں سبھی کچھ اُلٹ پلٹ ہو چُکا ہو وہاں ایک ہمارے یا آپ کے کچھ کہنے یا کرنے سے کیا بھلا ہو جانا ہے۔ ایسے میں ہنستے ہنستے چُپ رہنے ہی میں بھلائی ہے۔ کالم لکھتے وقت ہم ہر سَچّائی کو مصلحت کا پردہ ڈال کر معاملے کو ہنسنے ہنسانے کی منزل تک پہنچاتے ہیں۔ کم و بیش ایسا ہی عمل ہر گھریلو معاملات میں بھی کرتے ہیں۔ ہم مصطفیٰ جاد جیسے احمق نہیں کہ جو کچھ بھی ذہن میں اُبھرے اُسے فوراً زبان تک لے آئیں۔ کسی بھی رائے کا اظہار کرنے سے قبل ہم سیاق و سباق اور ماحول دونوں کا اچھی طرح جائزہ لیتے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر بیان کی جانے والی تراکیب کی روشنی میں جب بھی ہمارے گھر میں کوئی انوکھی چیز بنائی جاتی ہے یعنی ہم پر آزمائی جاتی ہے تب ہم غیر معمولی دانش کا مظاہرہ کرتے ہیں یعنی زبان پر وہی بات لاتے ہیں جو ہر شادی شدہ مرد کو بیوی کے سامنے زبان پر لانی چاہیے۔ کیا؟ بھئی تعریف، اور کیا۔ اللہ اپنے بندوں اور بالخصوص شادی شدہ بندوں کو سَو سَو طرح سے آزماتا ہے۔ جب بھی گھر میں کوئی انوکھی ڈِش تیار ہو، اُسے اللہ کی طرف سے آزمائش سمجھ کر حلق سے اُتاریے۔ صبر و تحمل کے اِس مظاہرے کا صِلہ دینے والی ذات بھی اللہ ہی کی ہے۔ کبھی کبھی چینلز کی مہربانی سے کوئی اچھی ڈِش بھی کھانے کو ملتی ہے، ورنہ عام طور پر معاملہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی نیا پکوان تیار ہو تو کھاتے وقت ہم یُوں تعریف کرتے ہیں گویا ؎ 
کچھ اِس ادا سے یار نے پُوچھا مِرا مزاج 
کہنا پڑا کہ شُکر ہے پروردگار کا! 
مصر کے حالات بھی ہمارے ملک کے حالات جیسے ہی ہیں۔ لوگ پریشان حال ہیں۔ مصطفیٰ جاد پر بھی حالات کا دباؤ ہو گا۔ پریشانی میں سچ بول گیا اور جان سے گیا۔ آپ کو ہم یہی مشورہ دیں گے کہ ملک کے حالات کو ایک طرف ہٹائیے، گھر میں داخل ہوتے ہی اپنے دِل و دِماغ کے حالات کے مطابق فیصلے کیجیے اور وہی بولیے جو مصلحت کا تقاضا ہو۔ ہر شادی شدہ آدمی کو یہی کرنا چاہیے۔ اگر کوئی شادی شدہ ایسا نہیں کرے گا تو ''ختم شدہ‘‘ ہو جائے گا!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں