منگل 7 اپریل کو سندھ اسمبلی نے قوم کے منتخب ایوانوں کی ''تابندہ‘‘ روایت کو جلا بخشی۔ ایوان ہلکے پھلکے جملوں کے جھولے میں ہچکولے لیتا ہوا ''بزنس‘‘ نمٹاتا رہا۔ ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کو ہدیۂ تبریک کہ اُنہوں نے چند زندہ دلانہ جملوں کی مدد سے ایک پریشان حال صوبے کے منتخب ایوان کا ماحول خوشگوار بنادیا۔ ویسے تو خیر ایک دوسرے پر جملے چسپاں کرنے میں کسی بھی منتخب ایوان کے ارکان کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے مگر محترمہ شہلا رضا کی قیادت میں سندھ اسمبلی نے کمال کر دکھایا۔
اخبارات اور چینلز کا دعویٰ ہے کہ منگل کو سندھ اسمبلی میں جملے بازی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ ہم چونکہ منتخب ایوانوں سے کچھ زیادہ توقعات وابستہ نہیں رکھتے اِس لیے احترام کے ساتھ یہی عرض کریں گے کہ ریکارڈز کے ذکر کے ساتھ ٹوٹنے کا ذکر کیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ ہمارے ہاں عوام کے منتخب نمائندے جہاں بھی بیٹھتے ہیں وہاں بنانے سے زیادہ مِٹانے پر یقین رکھتے ہیں!
انتخابی سیاست نے اِس ملک میں سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ بہت سوں کو ہم نے سیاست کے معاملے میں خون کے رِشتے بھی داؤ پر لگاتے دیکھا ہے۔ ذاتی مفادات کی بھٹّی میں سبھی کچھ بھسم ہو جایا کرتا ہے اور پھر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ منتخب ایوانوں کی کارروائی کے دوران پایا جانے والا جوش و خروش کبھی کبھی تمام رشتوں کو خلط ملط کردیتا ہے۔ جس طرح ماہرین پودوں میں قلم لگاکر نیا پھل یا سبزی متعارف کراتے ہیں یا جس طور دو رنگوں کے امتزاج سے کوئی انوکھا اور دل نشیں رنگ ابھر کر سامنے آتا ہے بالکل اُسی طرح منتخب ایوانوں میں بھی بعض رشتوں (اور بالخصوص مقدس رشتوں) کو ملاکر چند نئے رشتے تخلیق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے!
منگل کو سندھ اسمبلی میں محترمہ شہلا رضا اور اپوزیشن لیڈر شہریار مہر نے ایک مقدس رشتے کی بنیاد ڈال دی۔ کسی معاملے پر بحث کے دوران زِچ ہوکر شہلا رضا نے کہا: ''بیٹا! آپ اپنی تحریک اِلتواء پر اِصرار نہ کریں، بیٹھ جائیں۔‘‘ اِس پر شہریار مہر نے وہ جواب دیا جس کی شہلا رضا صاحبہ کو شاید توقع نہ رہی ہوگی۔ شہلا رضا کی طرف مادرانہ شفقت کے ساتھ مہر (محبت) کے اظہار پر شہریار مہر نے ''اچھا اَمّی!‘‘ کہا اور بیٹھ گئے!
خیر، گزری کہ اپوزیشن لیڈر کو ایک خاتون نے بیٹا بنایا اور وہ بن بھی گئے۔ اگر کسی مرد کی طرف سے بیٹا بننے کی پیشکش پر وہ آمنّا و صدقنا کہتے تو ہمارا ردعمل خاصا مختلف ہوتا!
شہلا رضا صاحبہ نے شہریار مہر کی طرف سے آنے والے جواب کے جواب میں کہا: ''اُمید ہے کہ آپ معاملے کو محض آج تک محدود نہیں رکھیں گے بلکہ اِس رشتے کا احترام کرتے رہیں گے۔‘‘
لگتا ہے شہلا رضا نے شہریار مہر کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ایوان میں رشتوں کا لحاظ اور احترام؟ اللہ اللہ! یہ تو شاہین کو بے بال و پَر کرنے جیسا معاملہ ہے! سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر نے مادرانہ شفقت کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے سلیم بندھانی کو بھی بیٹا کہا۔ اُنہوں نے ارکان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: ''آپ لوگ دودھ پیتے بچوں کی طرح لڑتے رہتے ہیں۔ آپ سب یہ سوچ کر ایوان میں آتے ہیں کہ مجھے تنگ کرنا ہے۔‘‘
ہم شہلا رضا صاحبہ کی خدمت میں انتہائے احترام کے ساتھ عرض کریں گے کہ شہر میں پلے گراؤنڈز تو رہے نہیں‘ اور جب ارکان کو خود محترمہ نے دودھ پیتے بچے قرار دے دیا ہے تو پھر وہ ایوان کو میدان سمجھ کر کھیلنے اور لڑنے کے سِوا کیا کریں گے؟ اور یوں بھی ایوان کا ماحول تمام ارکان کو کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
شہلا رضا صاحبہ ارکان سے بہت تپی ہوئی لگتی ہیں۔ اُنہوں نے ایوان کی کارروائی کے دوران اخلاقی گراوٹ کا رونا بھی رویا۔ وہ ارکان کے صرف اخلاق درست نہیں کرنا چاہتیں بلکہ اُنہیں انگریزی بھی سِکھانا چاہتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ انگریزی وہ مفت سِکھائیں گی اور انگریزی میں پہلا سبق اخلاقی اقدار پر ہوگا۔
یہ بھی خوب رہی۔ ہماری سیاست اگر آج رونق میلے میں تبدیل ہوکر ہماری دل بستگی کا سامان کر رہی ہے تو یہ سب اخلاقی زبوں حالی ہی کے مرہونِ منت ہے! اگر منتخب ارکان اخلاقی اقدار سے کماحقہ واقف ہوگئے تو سارا رونق میلہ ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا! انگریزی سِکھانے کی حد تک تو ہم شہلا رضا کے ساتھ ہیں۔ اچھا ہے بعض ارکان تھوڑی بہت انگریزی سیکھ کر ثابت کریں کہ اُن میں اور مِیرا میں بہت فرق ہے! مگر یہ اخلاقی اقدار سِکھانے والی بات سے ہم متفق نہیں۔ ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ ایک منتخب ایوان کی رونقوں کا فیوز اُڑ جائے!
اب آپ سے کیا چھپانا۔ منتخب ایوانوں کی کارروائی بغور پڑھ کر ہم اپنے کالموں کے لیے چند ایک نکات کشید کرلیتے ہیں۔ اِن نکات کی مدد سے ہم تھوڑا بہت لکھ کر اپنے لکھنے کی لاج رکھ لیتے ہیں ورنہ ہم کیا اور ہمارا لکھنا کیا۔
بہتر ہوگا کہ شہلا رضا صاحبہ ارکان کو کچھ نہ سِکھائیں۔ خاص طور پر اخلاقیات کا معاملہ تو بالائے طاق ہی رہنے دیں۔ ہمارے منتخب ایوان قوم کو بہت کچھ سِکھا رہے ہیں۔ بچے اب گفتگو کا فن منتخب ارکان کی باتوں سے سیکھتے ہیں۔ یعنی جب بولنا ہے تو کیا نہیں کہنا ہے! جس طور بعض اچھے اداکاروں کی اداکاری دیکھ کر سیکھا جاتا ہے کہ اداکاری کیسے کرنی ہے بالکل اُسی طرح اب ارکان کی طرز عمل دیکھ کر سیکھا جاسکتا ہے کہ بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے کیا نہیں کرنا ہے! اگر شہلا رضا صاحبہ ارکان کو سُدھارنے کی کوشش کریں گی تو ہم خالص شائستگی کی طرح خالص ناشائستگی سے بھی محروم ہوجائیں گے!
یہاں تک تو بات ٹھیک ہے۔ بات اگر ''ماں بیٹے‘‘ تک رہتی تو کچھ غم نہ تھا، کوئی ہرج نہ تھا۔ ارکان کے بُرے طرزِ عمل سے پریشان ڈپٹی اسپیکر نے میڈیا کو بھی لتاڑ دیا۔ کہنے لگیں: ''میڈیا صرف شور شرابہ دکھاتا ہے۔‘‘ ساتھ ہی اُنہوں نے ارکان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: ''اگر آپ یوں ہی بحث میں اُلجھے رہے تو ہم میں اور میڈیا کے ایک گھنٹے کے پروگرام میں کیا فرق رہ جائے گا؟‘‘
یہ وہی بات ہوئی کہ طویلے کی بلا بندر کے سَر۔ میڈیا کے ایک گھنٹے کے پروگراموں کا حوالہ دیتے ہوئے شہلا رضا صاحبہ شاید بھول گئیں کہ میڈیا پر ایک گھنٹے کے گلشن میں بھی سیاست ہی کے پھول مہک رہے ہوتے ہیں! اگر یہ مرغوں کی لڑائی ہے تو اِس یومیہ لڑائی میں ہم مرغے سیاست کے ڈربے ہی سے لاتے ہیں! ہم کیا اور ہماری بساط کیا۔ یہ تو اہلِ سیاست ہیں جن کی گُل افشانیاں عوام کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور میڈیا کا بھرم رہ جاتا ہے!
لوگ کہتے ہیں کہ میڈیا والے انتہائی بے باک ہیں، حساب فوری بے باق کردیتے ہیں۔ یہ بھی محض ایک فریبِ نظر ہے، اور کچھ نہیں۔ ہم شہلا رضا صاحبہ کی خدمت میں عرض کرنا چاہیں گے کہ میڈیا والے کتنے ہی بے باک سہی، سیاست دانوں کی تمام بے باکیاں نہیں دکھاسکتے! جس دن سے ایسا ہونے لگے گا، عوام میڈیا سے ''مستفید‘‘ ہونے سے توبہ کرلیں گے! ہم میڈیا والے فی الحال عوام کو توبہ کی منزل تک لانا نہیں چاہتے اِس لیے سیاست دانوں کی مکمل کوریج سے گریز کی راہ پر گامزن ہیں!