گانے والے تو اور بھی بہت ہوئے ہیں اور آتے بھی رہیں گے مگر ایسی ہستیاں اب کہاں سے آئیں گی جنہیں گانا آتا بھی ہو؟ پاکستان کے لیے جو چند باتیں اعزاز کی رہی ہیں اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ شہنشاہِ غزل مہدی حسن کا تعلق پاکستان سے تھا۔ قوم اپنے اس عظیم سپوت پر جس قدر بھی ناز کرے، کم ہے۔
مہدی حسن کے فن سے محظوظ ہوتے ہوئے پاکستان میں تین نسلیں جوان ہوئیں۔ اُن کی آواز آج بھی ہمارے کانوں میں رس گھولتی ہے۔ اور گھولتی ہے کیا، گھولتی رہے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ مہدی حسن اُن چند فنکاروں میں سے تھے جو فن کے تمام تقاضوں کو بخوبی نبھانا جانتے تھے۔
مہدی حسن کے فن میں ایسی پختگی اور تاثیر تھی کہ رنج و الم کی کیفیت میں ڈوب کر گایا ہوا اُن کا کوئی گیت سُنیے تو آنکھیں ہی نہیں، دِل بھی رونے لگتا ہے۔ ہم بھی اُن لاکھوں پاکستانیوں میں سے ہیں جو ہر دور میں مہدی حسن کے دیوانے رہے ہیں۔ اور ہر گزرتا ہوا دِن، فن کی دُنیا کے زوال آمادہ ہوجانے کے باعث، ہمیں مہدی حسن سے مزید قریب لے جارہا ہے۔
مگر چشم و دِل کو خُون کے آنسو رُلانے کا فریضہ صرف مہدی حسن کی آواز نے انجام نہیں دیا بلکہ اُن کی داستانِ حیات کا آخری باب بھی ایسا خُوں چکاں تھا کہ اُن کے چاہنے والے دِل تھام کے رہ گئے۔ ع
جل کے دِل خاک ہوا، آنکھ سے رویا نہ گیا!
1993ء میں شہنشاہِ غزل سے پہلی ملاقات کراچی کی النور سوسائٹی میں اُن کے چار منزلہ گھر کی چھت پر بنے ہوئے کمرے میں ہوئی۔ سُر سنگیت کی دُنیا کی چلتی پھرتی داستان کو اپنے سامنے پاکر ہماری مسرّت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ کیفیت یہ تھی کہ ع
اُن کو دیکھیں کہ اُن سے بات کریں!
مگر ساتھ ہی ساتھ دِل کو رنج بھی پہنچا۔ مہدی حسن سامنے ہوں اور رنج؟ جی ہاں۔ تلخ حقیقت یہی تھی۔ ہمیں جس کمرے میں لے جایا گیا‘ وہیں شہنشاہِ غزل مہمانوں سے ملا کرتے تھے۔ جس کے فن نے گائیکی کی دُنیا پر راج کیا تھا اُس کے کمرے پر بے ترتیبی کا راج تھا۔ کوئی بھی چیز ٹھکانے پر نہ تھی۔ اور پرائیویسی بھی میسر نہ تھی۔ شہنشاہِ غزل ہونے کے ناتے خاں صاحب کو ایسا کمرہ یقینا ملنا ہی چاہیے تھا جسے دیکھ کر مہمان دنگ رہ جائیں۔ خاں صاحب سے مل کر یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ پورے گھر کی معیشت کا مدار اُن کے گلے کی صنعت پر ہے! ایک عظیم فنکار کو جب گھر کا چولھا جلتا رکھنے ہی سے فرصت نہ ہو تو وہ اپنی زندگی میں ترتیب اور نظم و ضبط کہاں سے لائے؟ ہم نے گفتگو کے دوران جب ترتیب و تنظیم کے فقدان کا ذکر کیا تو خاں صاحب نے خاصی سُریلی مُسکراہٹ کے ساتھ کہا، ''سب کو سبھی کچھ نہیں مل جایا کرتا۔ میرا کام ہے گانا۔ اور میں اپنے کام سے کام رکھتا ہوں۔‘‘
خاں صاحب نے بھرپور زندگی گزاری۔ فن کی دنیا میں جس کامیابی کا سوچ کر لوگ صرف ترسا ہی کرتے ہیں وہ خاں صاحب کے حصے میں آئی۔ اُن کا احترام کرنے والوں کی کمی کل تھی‘ نہ اب ہے۔
خاں صاحب کی پوری زندگی سُروں سے عبارت تھی۔ گلے میں سات اور زندگی میں چودہ سُر تھے۔ چودہ سُر اِس طرح کہ اللہ نے 9 بیٹوں اور 5 بیٹیوں سے نوازا! اِتنے بڑے گھرانے کی پرورش میں وہ کہیں بھی اپنی ذمہ داری سے غافل دکھائی نہیں دیے۔ بڑے صاحب زادے سَجّاد لاہور میں اعلیٰ پولیس افسر ہیں۔ آصف مہدی نے والد سے گانا سیکھا اور خوب سیکھا۔ کچھ عرصہ فن کا مظاہرہ کرنے میں دلچسپی لی مگر والد کا سا جوش و جذبہ پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ مہدی حسن سے محبت کے ناتے ہم نے بھی یہ چاہا کہ آصف سنجیدہ ہوجائیں اور خود کو فن کے لیے وقف کردیں مگر اب تک وہ ایسا نہیں کر پائے ہیں۔ عمران نے طبلہ نوازی سیکھی اور کچھ نام کمایا۔ کامران نے بھی غزل سرائی کی کوشش کی مگر خاطر خواہ کامیابی نہ پاسکے۔
ہر بڑے اِنسان کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ اولاد توقعات پر مشکل ہی سے پوری اُتر پاتی ہے۔ مہدی حسن کا معاملہ کوئی انوکھا نہ تھا مگر معاملہ یہاں تک محدود نہیں۔
جس ہستی نے شاید ہی کبھی کوئی سُر غلط لگایا ہو اُس کی زندگی کی آخری سرگم کے سُر درست اور مکمل نہ تھے۔ مہدی حسن کا جسم ڈھلا تو کئی بیماریاں لاحق ہوئیں۔ فالج اُن میں سب سے نمایاں رہا۔ اُن کا علاج سرکاری خرچ پر کرایا جاتا رہا۔ کئی بار اُن کے لیے بینیفٹ شو بھی ہوئے۔ بھارت کے معروف گلوکار جگجیت سنگھ بھی اِس سلسلے میں پاکستان آئے۔ عمر کے آخری مراحل میں مہدی حسن کی پریشانیاں بڑھ گئیں کیونکہ وہ ہلنے جلنے کے قابل بھی نہ رہے تھے۔ ایسے میں اولاد ہی نے اُن کی دیکھ بھال کی۔ جہاں تک ہم سمجھ پائے ہیں، لاہور میں سجاد مہدی کے اہل خانہ نے اِس عظیم ہستی کا خاص خیال رکھا۔ بڑھاپے میں والدین کا خیال رکھنا اولاد ہی کا فرض ہوا کرتا ہے۔ اور علاج کرانا بھی۔ کراچی میں مہدی حسن کے علاج کے نام پر بار بار دستِ سوال دراز کرنا اُن کے تمام ہی پرستاروں کے لیے انتہائی دُکھ کا باعث تھا۔ یہ بات فہم سے بالا تر بھی تھی۔ مہدی حسن کوئی معمولی فنکار نہ تھے کہ مالی تنگی کا شکار ہوتے اور اُن کے علاج کے لیے ہاتھ پھیلانا پڑتا۔ وہ تو زندگی بھر اولاد کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں کی بھی کچھ نہ کچھ معاونت کرتے آئے تھے۔ خاں صاحب کے ہاتھ پیر ڈھیلے پڑتے ہی وہ سب کیا ہوئے؟
ملکۂ ترنم نُور جہاں کی عظمت کو سلام کرنا ہی پڑے گا کہ اُنہوں نے زندگی بھر ناداروں کی مدد کی اور کبھی کسی سے مدد نہیں مانگی۔ جب اُنہیں کینسر ہوا تو اُنہوں نے اپنی املاک بیچ کر لندن میں علاج کرایا!
آغا خان ہسپتال میں خاں صاحب کے علاج کا 20 لاکھ سے زائد کا بل بھی سندھ حکومت نے ادا کیا۔ گورنر سندھ نے کئی بار امدادی رقم دی۔ ایک بار سابق صدر پرویز مشرف نے راشد قریشی کے ذریعے امدادی چیک بھجوایا۔ 2009ء میں اُس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے خاں صاحب کے لیے تاحیات پچاس ہزار روپے کا ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تھا۔ اِن رقوم کی بظاہر خاں صاحب کو تو چنداں ضرورت نہ تھی۔ اِن پیسوں کا اُنہیں کرنا بھی کیا تھا؟ وہ تو آخری چار پانچ سال بستر ہی پر رہے۔
حالات کی سِتم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ شہنشاہِ غزل تو دُنیا سے چلے گئے ہیں مگر اُن کے حوالے سے دِل دُکھانے والی خبروں کا سلسلہ اب تک نہیں رُکا۔ خاں صاحب کی بہو عمائمہ عارف نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست جمع کرائی ہے کہ اُن کے سسر کا صدارتی تمغہ برائے حُسن کارکردگی، دیگر اعزازات، ایوارڈز اور ہارمونیم نامعلوم افراد نے چُرالیا ہے لِہٰذا پنجاب پولیس کو اِن تمام اشیاء کی بازیابی کا حکم دیا جائے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ تمام تمغے اور ایوارڈز لِٹن روڈ پر کرائے کا مکان لے کر اُس میں رکھے گئے تھے۔ یہ سب کچھ عجائب گھر کے حوالے کیا جانا تھا۔ یہ گویا حد ہے۔ جب اہل خانہ سے خاں صاحب کے تمغوں، اعزازات اور ایوارڈز کا تحفظ ممکن نہ ہوسکا تو اُن کی فَنّی میراث کے تحفظ کی اُمّید کِس برتے پر کی جائے؟
رہی سہی کسر چینلز نے پوری کردی ہے۔ خاں صاحب کے تمغے، ایوارڈز اور ذاتی ہارمونیم کی چوری پر ع
جس عہد میں لُٹ جائے فقیروں کی کمائی
اُس عہد کے سُلطان سے کچھ چُوک ہوئی ہے!
جیسے اشعار چلاکر سِتم بالائے سِتم والی بات درست کر دِکھائی ہے!