انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ جس چیز سے بہت چِڑتا ہے، عادی ہوجانے پر اُسی کو اِس طرح اپناتا ہے کہ دیکھ کر دانتوں تلے انگلیاں دباتے ہی بنتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ ایسے انسانوں سے بھرا پڑا ہے جو کسی بھی بُرائی کے عادی ہوجانے پر اُسے حِرزِ جاں بنانے میں دیر نہیں لگاتے۔
ضلع نوشہرو فیروز میں کئی افراد کو ایسا چُونا لگایا گیا جو اُنہیں تو اُنہیں، دوسروں کو بھی مدتوں یاد رہے گا۔ ہوا یُوں کہ اس شخص سجّاد رند نے مبینہ طور پر متعدد نوجوانوں کو سرکاری نوکری دلانے کا جھانسا دیا۔ ثمر سندھی، مظہر علی کلہوڑو، ندیم علی اور کئی دوسرے نوجوانوں کو سجّاد رند میں اپنا نجات دہندہ نظر آیا۔ بس اِتنا ہی کافی تھا۔ سجّاد بس نام کا ہی رند تھا، ویسے پورے ہوش میں تھا اور کئی نوجوانوں کے ہوش اُڑا گیا! آب پاشی، پولیس، اینٹی کرپشن، خوراک و زراعت، صحت، تعلیم، ایکسائز اور دیگر محکموں میں نوکری دلانے کے نام پر اُس نے فی کس 4 لاکھ روپے بٹورے اور اِن نوجوانوں کو تقرر نامے تھمادیئے۔ اِن سب کے اکاؤنٹس میں ایک ایک ماہ کی تنخواہ بھی ڈال دی گئی۔ یہ تماشا ایک ماہ چلا۔ اگلے ماہ جب یہ لوگ بینک گئے تو معلوم ہوا کہ ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا!
جب تقرر ناموں کی تصدیق کرائی گئی تو معلوم ہوا کہ سب کے سب جعلی تھے۔ کسی ایک کو بھی کہیں ملازمت نہیں ملی تھی۔ جب سانپ نکل گیا تو لکیر پیٹنے کا خیال آیا۔ پولیس میں رپورٹ درج کرائی گئی۔ سجّاد رند کے ہاتھوں لُٹنے والوں نے بتایا کہ اُنہوں نے گھر کا زیور وغیرہ بیچ کر فی کس 4 لاکھ روپے دیئے تھے۔
اب آپ خود ہی سوچیے کہ اِس ملک میں کسی کو بے وقوف بنانا کس قدر آسان ہے۔ دیہی معاشرے میں آج بھی چار پانچ لاکھ روپے کم نہیں ہوتے۔ اور اگر بے روزگاری چل رہی ہو تو اِتنی رقم اثاثہ معلوم ہوتی ہے۔ لوگ یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ سرکاری نوکری کے حصول کا ایک طریق کار ہوا کرتا ہے۔ اِس سلسلے میں متعلقہ محکموں یا وزارتوں کے حکام سے تصدیق کرائی جاتی ہے۔ حیرت اِس بات پر ہے کہ جو لوگ مشکل وقت میں اپنے جگری دوستوں کو ہزار دو ہزار روپے دینے کے بھی مُکلّف نہیں ہوتے وہ سرکاری نوکری کا نام سُنتے ہی آنکھیں بند کرکے پانچ پانچ دس دس لاکھ روپے حاضر کردیتے ہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ سرکاری نوکری کا نام سُنتے ہی حسین خوابوں میں کھو جانے والے یہ بھی نہیں سوچتے کہ کوئی کس بِرتے پر نوکری دِلانے کی بات کر رہا ہے۔ کم از کم اُسی سے تفصیل معلوم کرلی جائے۔ اور جو کچھ معلوم ہو پائے اُس کی کسی کے ذریعے تصدیق کرالی جائے۔
سرکاری ملازمت یا بیرون ملک رہائش دلانے کے دعویدار پاکستان بھر میں پائے جاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اِن دکان داروں کو گاہک بھی بہت آسانی سے مل جاتے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی مانگتے ہیں، اُن کے آگے حاضر کردیا جاتا ہے۔ لوگ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں آباد ہونے کے لیے پندرہ تا بیس لاکھ روپے پیش کردیتے ہیں۔ نوکری یا بیرون ملک کام کا جھانسا دینے والے خدا جانے کون سا منتر پڑھ کر پُھونکتے ہیں کہ شوقین افراد کی آنکھوں پر پٹّی بندھ جاتی ہے اور یہ نوسر باز اُن کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت تک سلب کرلیتے ہیں۔
ہم کہاں جی رہے ہیں؟ یہ کون سا دور ہے؟ لوگ آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلتے رہتے ہیں۔ اور اِس پر بھی شرمسار ہوکر اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ایک ہی سوراخ سے کئی بار ڈسے جانے پر بھی اُنہیں کوئی اُلجھن یا کوفت محسوس نہیں ہوتی اور اصلاحِ نفس پر مائل نہیں ہوتے!
ہم نے سجّاد رند کا ''شاندار کارنامہ‘‘ پڑھا تو چند لمحات کے لیے لرز کر رہ گئے۔ جنہیں لُوٹا گیا تھا اُن کے ساتھ ساتھ اُن کے اہل خانہ کا بھی خیال آیا کہ پتانہیں اُن کے دِلوں پر کیا بیت گئی ہوگی۔ گھر بھر کی جمع پُونجی ایک سرکاری نوکری کے نام پر بٹور لی گئی۔ اب دور تک اندھیرا ہے۔
مرزا تنقید بیگ جعل سازوں اور نوسر بازوں کے تماشوں کا سُن کر ذرا بھی افسردہ نہیں ہوتے۔ اُن کا استدلال ہے کہ جو ذرا سی کوشش پر بہت آسانی سے بے وقوف بن جائیں اُن کے لیے زیادہ دُکھ محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ مرزا کو اِس بات سے بہت چِڑ ہے کہ لوگ بالکل سامنے کی چیز پر بھی غور نہیں کرتے اور ذرا سا لالچ دینے پر لُڑھک جاتے ہیں۔ دُنیا بھر میں لوگ دھوکے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمارے ہاں لوگ دھوکا کھانے کو بے تاب رہتے ہیں۔ کہیں کہیں تو ایسا لگتا ہے کہ لوگ ہاتھوں میں نوٹ لیے گھومتے ہیں کہ کوئی بے وقوف بنائے یا لُوٹ لے! لوگوں نے فریب خوری کی عادت اپنالی ہے، دھوکا کھانے کو اپنی قسمت میں تبدیل کرلیا ہے۔ بقول باقیؔ صدیقی مرحوم ؎
اپنی قسمت سے ہے مَفر کس کو؟
تیر پر اُڑ کے بھی نشانے لگے!
مرزا کہتے ہیں : ''لوگ آ آکر ڈبکیاں لگانے اور ڈوب مرنے پر راضی بلکہ تُلے ہوئے ہوں تو دریا کا کیا قصور؟‘‘
ہم نے عرض کیا کہ لوگوں کو دھوکا دینے والوں کے خلاف کارروائی تو ہونی چاہیے۔
مرزا کا جواب تھا : ''کارروائی کیسے ہوسکتی ہے؟ کوئی کسی کو سرِ راہ لُوٹ لے تو پولیس کچھ کرے بھی۔ اگر کوئی کچھ چُرا رہا ہو، دکان یا مکان کا تالا توڑ رہا ہو تو کوئی کارروائی کی جائے۔ مگر جب سب کچھ چُپکے چُپکے ہو رہا ہو یا ہوا ہو تو کیا کیا جائے؟ لوگوں ہاتھ بھر بھر کر پیسے دیتے ہیں اور جعلی آفر لیٹر یا کنفرمیشن لیٹر لے کر سرکاری نوکری کے جھولے میں جھولنا شروع کردیتے ہیں۔ وہ اِس سودے بازی کے بارے میں گھر والوں اور دوستوں کو نہیں بتاتے۔ شاید نظر لگ جانے کا خوف لاحق رہتا ہے! اور متعلقہ محکموں سے رابطہ کرکے تصدیق کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ ایسے میں پولیس یا متعلقہ محکمے کو کچھ معلوم ہوگا تو کیسے؟ کیا عاملوں کے ذریعے معلومات لی جائیں گی؟‘‘
جو لوگ اکیسویں صدی اور عقل و دانش کی حکمرانی کا راگ الاپتے نہیں تھکتے اُنہیں ذرا پاکستانی معاشرے کی سیر کرائی جائے تو اندازہ ہو کہ ہزار بارہ سو سال پہلے کے معاشرے میں کیسے جیا جاتا ہے!
جو کچھ ہو رہا ہے وہ افسوسناک ہے۔ تدارک کی کوئی تو صورت نکلنی چاہیے۔
مرزا کہتے ہیں : ''یہ صورت عوام خود ہی نکال سکتے ہیں۔ جب وہ بے وقوف بننا ترک کردیں گے تو بے وقوف بنانے والے ناپید ہوجائیں گے۔ سوال نوکری کے حصول کا ہو یا ملک چلانے والوں کے انتخاب کا، عوام کو نوسر بازوں سے بچنا ہے۔ فیصلہ اُن کے اپنے اختیار کا ہے۔ اب تو پاکستانیوں کو بے وقوف بنتے رہنے کی 'روایت‘ ترک کرنی ہوگی! سرکاری نوکری کے جھانسے کی طرح لوگ بار بار نام نہاد جمہوریت کے جھانسے میں بھی آجاتے ہیں۔ آنکھوں سے کاجل چُرانے میں مہارت رکھنے والے سیاسی شعبدہ بازوں کو بھی قوم کئی عشروں سے جھیل رہی ہے۔ مگر عوام بھی اُنہی کی طرح پَکّے ہیں۔ وہ لُوٹنے سے باز نہیں آتے اور یہ لُٹنے کی روش ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ یہی حال نوکری کے حصول کا ہے۔ یہ معاملہ سات پردوں میں انجام کو پہنچتا ہے۔ معمولی سی نوکری دلانے کے نام پر چار پانچ لاکھ روپے وصول کرنے والے کی ہدایت ہوتی ہے کہ ابھی کسی کو کچھ نہ بتایا جائے۔ یعنی وہ آسامی کا منہ بند کرکے اپنی جعل سازی کے دفاع کا بھرپور انتظام پہلے ہی سے کرلیتے ہیں! لوگ اِس بات پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ جب معاملہ سرکاری نوکری کا ہے اور ایک دن دفتر جاکر سیٹ پر بیٹھنا ہی ہے تو اِس میں چُھپانے والی بات کون سی ہے؟ عموماً تین چار واسطے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک شخص پکڑا جائے تو دوسرے تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اور دوسرا پکڑا جائے تو تیسرے کو تلاش کیا جاتا ہے۔ ایسے میں کچھ پتا نہیں چلتا کہ کس نے کب کتنا چُونا لگایا! جب سبھی کچھ چھپ چھپاکر کیا جارہا ہو تو کوئی بھی تفتیشی ٹیم کیا معلوم کر پائے گی۔‘‘
کہتے ہیں شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوا کرتی۔ ہمارے ہاں لوگوں کو اور بہت سے معاملات کی طرح اب shock کھانے کا بھی شوق ہے۔ اور اِس شوق کی بھی کوئی قیمت نہیں۔ جب تک لوگ گھر کا سامان بیچ کر ہاتھوں میں نوٹ لیے کھڑے رہیں گے تب تک سجّاد رند آتے رہیں گے اور ساقی بن کر اوروں کے حِصّے کے جام بھی لُنڈھاتے رہیں گے!