"MIK" (space) message & send to 7575

جُھوٹ بولو، جُھوٹ!

جُھوٹ بولنے سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں مگر صاحب، سوچ بولنے سے صرف خرابیاں پیدا نہیں ہوتیں بلکہ تباہی بھی نازل ہوجاتی ہے! ہر سچ کو زبان پر نہیں آنا چاہیے۔ کبھی کبھی کسی سچ کو دو چار پردوں میں لپیٹ کر بولنا یا پھر نہ بولنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اِسی بات کو حبیب جالبؔ نے فلم ''زندگی ایک سفر ہے‘‘ کے ایک گانے میں مہدی حسن کی زبانی یُوں بیان کیا ہے ؎ 
تمہیں جو یہ لباس ہے بہت عزیز دوستو 
حقیقتوں کو ڈھانپنے کی ہے یہ چیز دوستو 
یہاں وگرنہ ہر کسی کا نام و ننگ ایک ہے 
ہر آدمی الگ سہی، مگر امنگ ایک ہے 
جُدا جُدا ہیں صُورتیں، لہو کا رنگ ایک ہے 
بھارتی ریاست اُتر پردیش میں سیاسی جماعت جنتا دل یونائٹیڈ کے صدر شرد یادو نے خواتین کے بارے میں اپنے (ظاہر ہے فطری) جذبات کا برملا اظہار کرکے ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔ ایک تقریب میں اُنہوں نے کہا کہ بھارت کے لوگ گوری چمڑی پر مرتے ہیں اور گوری رنگت کی کسی بھی عورت کو دیکھتے ہی ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کے لوگوں کا دوغلا پن سمجھ میں نہیں آتا۔ مرتے ہیں گوری چمڑی پر اور پوجتے ہیں سانولے بھگوان کو! اُنہوں نے جنوبی ہند کی عورتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ گہرے سانولے رنگ کی ہوتی ہیں مگر بظاہر بہت خوبصورت ہوتی ہیں اور وہ ناچنے کا فن بھی جانتی ہیں۔ اِس بیان پر تقریب کے بعد ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ حقوق نسواں کے لیے سرگرم تنظیموں نے شرد یادو کے خلاف ریلیاں نکالی ہیں اور مظاہرے کئے ہیں۔ اُن کا مطالبہ ہے کہ شرد یادو اپنے ریمارکس پر ملک بھر کی خواتین سے معافی مانگیں۔ 
مگر ہمیں اِس بات پر حیرت ہے کہ منجھے ہوئے سیاست دان ہونے پر بھی شرد یادو سچ کو بے ضرر بناکر بولنا نہیں جانتے! ارے بھئی، اِس قدر سچ بولنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ وہ راج نیتی میں ہیں تو سبھی سمجھ سکتے ہیں کہ عورتوں میں بھی دلچسپی لیتے ہی ہوں گے۔ یہ بات کوئی بتانے والی تھوڑی ہے! بھارت کیا، دُنیا بھر کے نیتا ایسے ہی ہوتے ہیں۔ 
اور گوری چمڑی پر مرنا کچھ بھارت کے لوگوں کا ''خاصہ‘‘ نہیں۔ یہ تو پورے خطے کا مخمصہ ہے۔ جیسے ہی کوئی گوری چمڑی والی خاتون دکھائی دیتی ہے، لوگ صرف دیکھتے نہیں بلکہ دیوانہ وار دیکھتے ہیں۔ آج بھی بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال کہیں بھی اگر کسی مغربی ملک کی کوئی خاتون سڑک پر دکھائی دے تو دیکھتے ہی دیکھتے ہجوم تشکیل پا جاتا ہے۔ سب اپنے کام کاج بھول کر یُوں دیکھنے لگتے ہیں جیسے کبھی کوئی سفید فام عورت دیکھی ہی نہ ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے، دیکھنے کا معاملہ گھورنے کی منزل تک پہنچ جاتا ہے! بہت سے لوگ تو آج بھی کسی انگریز عورت کو دیکھتے وقت صرف اُس کے حُسن سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ سابق ''مالکن‘‘ ہونے کے ناتے اُس سے مرعوبیت بھی محسوس کرتے ہیں! اور اِس پر شرمندگی اِس لیے محسوس نہیں ہوتی کہ گھر کی مالکن کے سامنے بھی خود کو غلام ہی محسوس کرتے ہیں! 
اب جنتا دل یونائٹیڈ کے ترجمان کے سی تیاگی نے ہوش و حواس کا تیاگ کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے صدر جیسا ہی بیان داغ دیا ہے جس پر خواتین مزید بھڑک اُٹھی ہیں۔ کے سی تیاگی بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے رکن ہیں۔ اُنہوں نے ضلع ہاپڑ کی راما یونیورسٹی میں ایک تقریب کے دوران کہا کہ خواتین کو دیکھنا اُن کے حُسن کی تعظیم کا درجہ رکھتا ہے۔ ہاں، اُنہیں گھورنا پاپ ہے! 
اِس کا مطلب یہ ہوا کہ تیاگی جی بھی اپنی پارٹی کے سربراہ کی طرح ''پاپی‘‘ نکلے! اِس بیان پر بھی ہنگامہ تو کھڑا ہوگیا ہے مگر تیاگی جی اپنی بات پر قائم ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ حُسن ہے ہی دیکھنے کی چیز۔ اُنہوں نے بچت کے پہلو کے طور پر گھورنے کو بُرا قرار دیا ہے۔ مگر یہاں بھی اُن کی چالاکی کی داد دینی پڑے گی کہ گھورنے کو اُنہوں نے ''اپرادھ‘‘ (جرم) نہیں بلکہ ''پاپ‘‘ یعنی گناہ قرار دیا ہے۔ گویا قانون بیچ میں نہیں آسکتا۔ پاپ کی سزا تو بھگوان ہی دے سکتے ہیں۔ مگر تیاگی جی نے تو بھگوان کے لیے سمسیا کھڑی کردی۔ جو سُندرتا بھگوان نے خود بنائی ہے اُسے گھورنے پر وہ سزا کیسے دے سکتا ہے! 
تیاگی جی کے بیان کی روشنی میں حقوق نسواں کی تنظیموں کے لیے بھی مشکل کھڑی ہوگئی ہے۔ اب کیا یہ تنظیمیں ماہرین سے ایسے آلات تیار کرائیں جن کی مدد سے دیکھنے اور گھورنے کا فرق معلوم کیا جاسکے؟ یعنی خواتین کو خود یہ حساب رکھنا پڑے گا کہ کون کب تک دیکھ رہا تھا اور کب سے اُس نے دیکھنا چھوڑ کر 
گھورنا شروع کیا! گھورنا ویسے بھی ایک عادت ہے جو اس خطے کے عوام میں عام ہے۔ ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ آتے جاتے شخص کو خواہ اس کی جنس کوئی بھی ہو‘ اسے اس طرح گھورے کہ وہ پریشان ہو کر رہ جائے۔ یہ کام یورپ اور امریکہ میں نہیں ہوتا۔ اگر کوئی ایسا کرے تو دوسرا شخص برا محسوس کرتا ہے۔ ہر کوئی اپنے آپ میں اتنا مگن ہوتا ہے کہ دوسرے کو دیکھنے کا ویسے ہی کسی کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ موبائل فون نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا ہے۔ پہلے جو لوگ کتابیں پڑھنے میں وقت گزارتے تھے‘ اب اس ایجاد نے انہیں اپنے ساتھ یوں چپکا لیا ہے کہ انہیں دنیا و مافہیا کی خبر نہیں ہوتی۔
چلیے، ہم مان لیتے ہیں کہ خواتین ایسا کوئی سینسر یا ڈیٹیکٹر بنوا بھی لیں جس کی مدد سے دیکھنے اور گھورنے کا فرق معلوم کیا جاسکتا ہو تو کسی ''پاپی‘‘ کے خلاف کارروائی کیسے ہوگی؟ ۔ اب تک ایسا کوئی قانون تو تعذیراتِ ہند میں ہے ہی نہیں جس کی بنیاد پر خواتین کو گھورنے والے کو پکڑ کر نذرِ حوالات کیا جاسکے! معاملہ اگر پاپ کا ہے تو بھگوان کے حوالے کرنا پڑے گا۔ یعنی معاملہ اگر سزا تک پہنچے گا بھی تو قیامت کے دن۔ مشکل یہ ہے کہ ہندوؤں میں یومِ جزا و سزا کا واضح تصور موجود نہیں۔ یعنی خواتین بے چاری اپنے مجرموں کے لیے سزا کا انتظار ہی کرتی رہ جائیں گی۔ 
تیاگی جی نے راجیہ سبھا کے ماحول کی طرف اشارا کرکے بھی خواتین کو اچھا خاصا ناراض کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایوان میں ماضی کی دو تین حسین اداکارائیں بھی ہیں جنہیں وہ پلٹ 
پلٹ کر دیکھتے رہتے ہیں۔ تیاگی جی کے اِس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کو کس طور چلایا جاتا ہے! واضح رہے کہ ماضی کی مشہور اداکارائیں جیہ بچن اور ہیما مالنی راجیہ سبھا کی رکن ہیں۔ تیاگی جی حُسن کی اِن باقیات کو دیکھنے سے بھی گریز نہیں کرتے! 
ہماری سیاست ہو یا بھارت کی (یا پھر پورے خطے کی)، ہر طرف ایک ہی موسم چل رہا ہے۔ اصل مسائل جائیں بھاڑ میں۔ سب غیر متعلقہ باتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ گوری اور سانولی چمڑی کے فرق پر فلسفہ بگھاراجا رہا ہے۔ جب کسی پارٹی کا سربراہ خواتین کے بارے میں ریمارکس دیتے ہوئے احتیاط نہیں برتے گا تو اُس پارٹی کا ترجمان بھلا اپنے جذبات کیوں قابو میں رکھے گا؟ شرد یادو کی بے باکی ہی نے تیاگی جی کو بھی دِل کی بات زبان پر لانے کی تحریک دی۔ ہم بھارت سے پیچیدہ مسائل پر بات چیت کے لیے بے تاب ہیں اور بھارتی نیتا تو ابھی تک خواتین میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ اُن کے سنجیدہ ہونے تک ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔ 
ہمارے ہاں بھی ایسے سیاست دانوں کی کمی نہیں جو خواتین کے دیدار کو اپنے زندگی کے مقاصد میں شمار کرتے ہیں۔ مگر وہ سچائی کو شرد یادو یا کے سی تیاگی کی طرح کُھل کر بیان نہیں کرتے اور ردعمل سے بچے رہتے ہیں۔ سیاست بہت کچھ بیان کرنے کا نام ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بہت کچھ بیان نہ کرنے کا بھی نام ہے۔ کیا بولنا چاہیے اور کیا نہیں بولنا چاہیے، یہ فن بھارتی سیاست دان چاہیں تو ہمارے سیاسی فنکاروں سے سیکھ سکتے ہیں۔ یہ کاری گر لوگ من کی مرضی کر گزرتے ہیں اور پکڑائی بھی نہیں دیتے! یعنی سچ بولنے کا فن آتا ہے تو بولو ورنہ جُھوٹ بولو، جُھوٹ! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں