کسی بھی نئی چیز کو اپنانے کے معاملے میں ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ تینوں ہی طرح کے معاشروں کا ایک سا حال ہے۔ یکسانیت نے سبھی کو زندگی سے بیزار کر رکھا ہے۔ کوئی بھی نئی بات یوں لپک کر ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہے جیسے اس کے بغیر زندگی نہیں گزر سکے گی۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد ایسے ہیں جو کسی جانور کی طرح کسی بھی نئی چیز یا نئی بات کی بُو سونگھتے پھرتے ہیں اور جیسے ہی کچھ نیا دکھائی دیتا ہے اسے پکڑ اور جکڑ لیتے ہیں۔
جدت پسندی اور ندرت نوازی کچھ آج کے زمانے کا خاصہ نہیں۔ ہر دور کا انسان ایسا ہی واقع ہوتا رہا ہے مگر اب معاملہ ذرا جنون کی سی کیفیت سے دوچار ہوچکا ہے۔ لوگ کچھ نہ کچھ نیا تلاش کرتے رہنے کے ایسے عادی ہوگئے ہیں کہ بسا اوقات باؤلے پن پہ اتر آتے ہیں۔ اب سیلفی ہی کا معاملہ لیجیے۔
خود پسندی انسانی سرشت کا حصہ ہے۔ ہر انسان اپنے آپ کو دنیا کا سب سے منفرد انسان سمجھتا ہے۔ اس بیماری کا علاج کسی کے پاس تھا، نہ ہے۔ خود پسندی کے مرض کی شدت کسی حد تک کم کی جاسکتی ہے، اسے ختم کرنا بھری دنیا میں کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہر انسان کسی نہ کسی طور اپنی بات سب پر مقدم رکھنا چاہتا ہے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے اور جاتا رہا ہے۔
تین چار برس میں سیلفی لینے کا رجحان ایسا پروان چڑھا ہے کہ دنیا بھر میں کروڑوں، بلکہ اربوں افراد اس رجحان کو مرض کی شکل دے کر اپنے حواس اور اعصاب پر سوار کرچکے ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ سوتے ہیں تو سیلفی لیتے ہیں اور جاگتے ہیں تو سیلفی سے دن کا آغاز کرتے ہیں!
چند برس پہلے تک معاملہ یہ تھا کہ شادی یا کسی اور تقریب میں باضابطہ فوٹو گرافی ہوا کرتی تھی۔ وہ تو اب بھی ہوتی ہے مگر اب لوگ اپنے اپنے موبائل فون کے کیمروں کے ساتھ میدان میں نکل آئے ہیں۔ تقریب میں آدھا وقت تو سیلفی لینے اور دوسروں کو snap کرنے میں کٹ جاتا ہے۔ اگر ان بنیادی ''مصروفیات‘‘ سے کچھ وقت بچ رہے تو تقریب کی رونق بڑھانے پر بھی توجہ دی جاتی ہے! سیلفی کے رجحان نے دولہا دلہن کو شدید الجھن سے دوچار کردیا ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ لوگ دولہا دلہن کے دائیں بائیں بیٹھ کر تصویر کھنچوانے کی تیاری کرتے ہیں۔ کیمرا مین انتظار ہی کرتا رہتا ہے کہ کب مہمانان گرامی قدر تیار ہوں اور وہ رسماً ready کہتے ہوئے کلک کا فریضہ انجام دے! دولہا دلہن کے دائیں بائیں بیٹھ کر لوگ اپنے اپنے موبائل فون نکالتے ہیں اور ہاتھ سامنے کی طرف بلند کرکے دولہا یا دلہن کے ساتھ سیلفی لینے لگتے ہیں! یہ صورت حال دولہا اور دلہن دونوں کے لیے انتہائی پریشان کن ہوتی ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟
مورخین اور فلسفی کچھ بھی کہتے رہیں اور اس دور کو کچھ بھی قرار دیتے رہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہم سیلفی کے دور میں جی رہے ہیں۔ یہ وہ کیڑا ہے جو سب کو کاٹ چکا ہے اور معاملہ اب علاج یا تریاق کی حد سے بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ لوگ یوں سیلفی لیتے پھرتے ہیں جیسے زندگی کا کوئی لمحہ کیمرے کی آنکھ سے چُوک گیا تو قیامت میں جواب دینا پڑے گا!
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیلفی کا رجحان جڑ پکڑتا جارہا ہے۔ بات بات پر سیلفی لینے کا رجحان یوں پنپ رہا ہے کہ اب لوگوں کو یاد بھی نہیں آتا کہ جب وہ سیلفی لینے کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے تھے تب شب و روز کس طور بسر ہوا کرتے تھے! لوگ تو خیر اور بھی بہت کچھ بھول چکے ہیں۔ پندرہ بیس برس پہلے تک زندگی کس طور گزرا کرتی تھی یہ بھی اب ذہنوں سے محو ہوچکا ہے۔ کسی کو یاد تک نہیں آتا کہ جب موبائل فون نہیں تھے تب روزانہ سو سوا سو ایس ایم ایس کئے بغیر یا دن بھر میں خاندان بھر کے لوگوں اور دوستوں سے بات کئے بغیر صبح کو شام کیسے کرتے تھے! اب تک حالت یہ ہے کہ کسی دن موبائل فون سروس بند ہو تو سمجھ میں نہیں آتا کہ وقت کو کس طور ٹھکانے لگائیں اور کہاں لے جاکر دفنائیں! اگر دس پندرہ منٹ تک کوئی ایس ایم ایس نہ آئے تو دل و دماغ پر قیامت سی گزرنے لگتی ہے، ہر لمحہ عذاب کی صورت لگتا ہے۔
ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ سیلفی کا رجحان پاکستان جیسے معاشروں ہی میں برہنہ رقص فرما رہا ہے مگر اب معلوم ہوا کہ اس احمقانہ روش کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی ایسی پذیرائی کی جارہی ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ اب یہی دیکھیے کہ جس رجحان کو ہم آپ محض دل پشوری کا ذریعہ سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں اسے مغربی معاشروں میں باضابطہ علمی اور فنی حیثیت دی جارہی ہے۔ کیلی فورنیا یونیورسٹی نے سیلفی کھینچنے کے حوالے سے کورس متعارف کراکے گویا پانی میں پہلا پتھر پھینکا ہے۔ پروفیسر مارک مرینو کا کہنا ہے کہ سیلفی سے متعلق کورس میں ہم اس امر کا مشاہدہ و تجزیہ کرتے ہیں کہ لوگ اپنی شناخت کس طور اجاگر کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیلفی کا رجحان نرگسیت (خود پسندی) ہرگز نہیں بلکہ یہ اپنے بارے میں دوسروں کو مطلع کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
مرزا تنقید بیگ پروفیسر مارک مرینو کی بات سے متفق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ سیلفی لینے کے رجحان تلے دب کر رہ گئے ہیں اور یہ حضرت فرما رہے ہیں کہ کیمرے کی آنکھ میں جھانک کر کلک کرنا خود پسندی نہیں۔ ان کا کہنا ہے: ''کون مانے گا کہ سیلفی لینا خود پسندی نہیں اور یہ کہ اس کے ذریعے لوگ دوسروں کو اپنے بارے میں مطلع کرنا چاہتے ہیں؟ اب سیلفی لینے میں مطلع کرنے والی بات کون سی ہے؟ اور عجیب و غریب ہیئت کے ساتھ، انتہائی بھونڈے زاویے سے تصویر کھینچنا کس اعتبار سے اپنی شناخت قائم کرنے کا عمل ہے؟ شناخت تو کیا قائم ہونی ہے، سیلفی لیتے رہنے سے لوگوں کو چند انتہائی مضحکہ خیز پوز ضرور مل جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر کچھ دیر کے لیے طبیعت ضرور ہشاش بشاش ہوجاتی ہے!‘‘
مرزا غلط نہیں کہہ رہے۔ بعض سیلفیز تو ایسی ہوتی ہیں کہ دیکھنے والے کو شرم سی محسوس ہونے لگتی ہے مگر آفرین ہے ان پر جو ایسی سیلفیز لیتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے شیئر کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے! مرزا کہتے ہیں۔ ''ہر وقت سیلفی لینے والوں کو تو ہم کِھسکا ہوا سمجھتے ہی ہیں مگر کیلی فورنیا یونیورسٹی والوں نے تو حد ہی کردی ہے۔ کیا سیلفی لینے کا رجحان بھی کوئی ایسی حقیقت ہے کہ جس پر تحقیق کی جائے، لوگوں کو اس کے مضمرات و عواقب کے بارے میں بتایا جائے؟ اگر واقعی ایسا ہے تو امریکی جامعات کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہم تو یہ سمجھ کر شرمندہ سے رہتے تھے کہ بے ڈھنگے کورسز کچھ ہماری جامعات ہی تک محدود اور مخصوص ہیں۔ اب پتا چلا کہ ہم اس معاملے میں 'منفرد‘ نہیں! بقول اقبالؔ
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں!
سنا ہے کیلی فورنیا یونیورسٹی والے سیلفی پر فلسفہ ہی نہیں بگھاریں گے بلکہ سیلفی لینا اور سیلفی کے ذریعے اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کا ہنر بھی سکھائیں گے۔ بہت خوب۔ گویا اب تمام اہم موضوعات پر کام مکمل ہوچکا ہے۔ ایسے میں یہ سوچا گیا ہے کہ چند نئے موضوعات تلاش کئے جائیں۔ سنا ہے کہ کیلی فورنیا یونیورسٹی کے سیلفی کورس میں شریک ہونے والوں طلبا و طالبات کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ یعنی کہ کسی کی سیلفی دیکھ کر وہ کیسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں مکھی پر مکھی مارنا! ایک تو مضحکہ خیز سیلفیز اور پھر اسے دیکھنے والوں کا مشاہدہ!‘‘
سیلفیز کے حوالے سے ہماری جامعات پیچھے رہ گئی ہیں۔ مگر خیر، سیلفی لینے کا شوق ایسا جادو ہے جو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اور جب تک یہ جادو سر چڑھ کر بولتا رہے گا، ہمارے ہاں بھی لوگوں اور بالخصوص نئی نسل کو کوئی بھی معقول بات سنائی نہیں دے گی! سیلفی نے شوق سے بڑھ کر اب فوبیا کی شکل اختیار کرلی ہے۔ لوگ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ یومیہ بنیاد پر سیلفی لیتے رہنا چھوڑ دیں گے تو زمانہ انہیں چھوڑ دے گا!‘‘
خیر، جو لوگ رات دن سیلفی لیتے رہنے میں دل و دماغ کی راحت محسوس کرنے لگے ہیں وہ زمانے میں رہتے ہوئے بھی زمانے کو تو چھوڑ ہی چکے ہیں!