"MIK" (space) message & send to 7575

رسموں سے ذرا بچ کے

ہم جس خطے میں رہتے ہیں اس کی فضاء میں آکسیجن زیادہ ہے یا رسمیں، اس حوالے سے پورے تیقن سے کچھ کہنا انتہائی دشوار ہے۔ انسان کی آدھی زندگی مختلف رسمیں نبھانے یعنی بھگتنے میں کٹ جاتی ہے اور باقی آدھی زندگی بہت سی رسموں سے بچنے پر صرف ہوجاتی ہے! بہت سوں کو ہم نے اس حال میں پایا ہے کہ رسموں کا رونا بھی روتے رہتے ہیں اور رسموں کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتے! بقول غالبؔ ع 
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے!
عقل کو دنگ اور تنگ کردینے والی اوٹ پٹانگ رسموں پر بات ہو رہی ہو اور بھارت کا ذکر نہ چھڑے، ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ بھارتی سرزمین پر نسلوں اور ثقافتوں کی بھرپور ورائٹی پائی جاتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے میں رسموں کی ورائٹی کا پایا جانا بھی فطری اور ناگزیر ہے۔ بھارتی معاشرہ رسموں کی سپر مارکیٹ کا درجہ رکھتا ہے۔ ہر موقع کی مناسبت سے مختلف نوعیت اور شدت کی رسمیں پائی جاتی ہیں ع 
بولو جی، تم کیا کیا خریدو گے! 
بھارتی معاشرت میں رسمیں کچھ اِس طرح گھل مل گئی ہیں، رچ بس گئی ہیں کہ اب اِن کے بغیر زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کا تو کیا، ٹھیک سے سانس لینے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری معاشرت پر چونکہ بھارتی معاشرت کے اثرات نمایاں ہیں اِس لیے یہاں بھی بات بے بات رسمیں نبھانے کا سلسلہ پورے جوش و خروش اور آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ 
رشتہ تلاش کرنا ہو تو رسمیں۔ بات پکی کرنی ہو تو پھر وہی رسمیں۔ سگائی (منگنی) کرنی ہو تو رسموں کو زحمت دیجیے مگر رشتے میں ایک آدھ آنچ کی کسر رہ جائے گی۔ نکاح، ولیمے اور چوتھی تک تو رسموں کا مینا بازار لگتا ہے۔ سب اپنے اپنے ارمان نکالنے میں جُتے رہتے ہیں۔ دولہا کی بہنوں کی رسمیں الگ، دلہن کی بہنوں کی رسمیں الگ۔ دولہا کی ماں کسی رسم پر زور دیتی ہے تو دلہن کی ماں اپنی رسم کو بہتر قرار دیتے ہوئے بات منوانا چاہتی ہے۔ رشتہ دیکھنے سے چوتھی تک اِتنی رسمیں ہیں کہ کوئی اگر تھوڑی توجہ دے تو اِس موضوع پر پی ایچ ڈی بھی کرسکتا ہے! (مگر ایک بات کا دھیان رہے۔ تحقیق میں اگر زیادہ دلچسپی لی تو محقق کے ضائع ہوجانے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا!) 
رسموں سے کیا ہوتا ہے، یہ بات کوئی مرد سے پوچھے۔ رشتہ دیکھنے سے ولیمے کے بعد چوتھی تک اِتنی رسمیں کہ اُنہیں نبھانے میں مرد یعنی دولہا کی چار پانچ کمیٹیاں ٹھکانے لگ جاتی ہیں! بے چارے لڑکے شادی سے دو تین سال پہلے سے کمیٹیاں ڈالنا شروع کرتے ہیں اور شادی کے بعد تین چار سال تک اِن کمیٹیوں کو بھگتتے رہتے ہیں۔ اب آپ کی سمجھ میں اچھی طرح آگیا ہوگا کہ شادی کی تقریبات کے دوران دولہا بات بات پر بدکتا کیوں ہے۔ 
کہتے ہیں شادی وہ لڈو ہے کہ کھانے والا بھی پچھتاتا ہے اور نہ کھانے والا بھی۔ یہ خصوصیت کچھ شادی کے لڈو ہی میں نہیں پائی جاتی۔ رسموں کا رس گُلّا بھی کچھ ایسی ہی خصوصیت کا حامل ثابت ہوتا آیا ہے۔ دل چاہے کہ نہ چاہے، رسم (یعنی ہر رسم) نبھانی ہی پڑتی ہے۔ ایسے میں اگر دودلہا بدکنے سے بچے تو کیسے؟ ''شادی مبارک‘‘ کا ڈونگرا برساکر بات بے بات اُس سے جیب ڈھیلی کرائی جاتی ہے! ایسے میں اگر وہ اپنے مقدر اور رسموں کو روئے بھی تو لوگ سمجھتے ہیں آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیر رہے ہیں! 
دشمن گھات لگائے بیٹھا ہو یا نہ بیٹھا ہو، زندگی کے ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی رسم ضرور تاک میں بیٹھی ہوتی ہے اور موقع ملتے ہی بندے کی گردن ناپ لیتی ہے! یُوں تو ہر معاملے میں ڈھیر کے حساب سے رسمیں موجود اور دستیاب ہیں مگر شادی کا معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ صرف شادی کی رسمیں اِتنی ہیں کہ انسان بُھگت بُھگت کر عاجز آجاتا ہے۔ ہر قدم پر ایک رسم یعنی نکالو مال۔ جیب ڈھیلی نہ کی تو ''اپ شگن‘‘ ہوجائے گا، رسم ادھوری یا ''بے نبھائی‘‘ رہ جائے گی اور زندگی بھر اُس رسم کے نام کا طعنہ سننا پڑے گا۔ 
1947ء سے قبل ہماری یعنی مسلمانوں کی زندگی میں بہت سی رسمیں داخل کرنے اور 1947ء کے بعد دوسری بہت سی رسمیں ہمیں برآمد کرنے والے بھارت میں ویسے تو ہر علاقہ رسموں کے حوالے سے خود کفیل ہے مگر اُتر پردیش، راجستھان اور گجرات کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ خاص طور پر اُتر پردیش اور اُس سے ملحق علاقے اس معاملے میں ایسے ''زرخیز‘‘ ہیں کہ انسان کا دل بھر سکتا ہے مگر رسموں کا دل نہیں بھرتا! 
اُتر پردیش کے مختلف علاقوں میں قبیلوں اور برادریوں کی الگ الگ رسمیں پائی جاتی ہیں۔ اور معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔ بعض کنبوں یعنی خانوادوں کی اپنی رسمیں ہیں اور اِن رسموں پر وہ ایسے عمل کرتے ہیں جیسے ایسا نہ کرنے پر اگلے جنم میں بھی بطور سزا یہی کنبہ ملے گا اور وہ بھی بھارت میں! 
بہت سی برادریوں اور خاندانوں میں ایسی عجیب رسمیں پائی جاتی ہیں کہ پڑھیے تو ہنسی چُھوٹ جائے اور اگر بھگتنی پڑ جائیں تو روتے روتے جان پر بن آئے! 
اُتر پردیش سے الگ کرکے باضابطہ ریاست (صوبہ) بنائے جانے والے چھتیس گڑھ کے مختلف علاقوں میں چند ایسی رسمیں پائی جاتی ہیں کہ ہم نے پڑھا تو تھوک نگل کر رہ گئے۔ ایک لمحے کو سوچا کہ اگر ایسی رسمیں ہمارے ہاں تو جان پر بن آئے، سانس لینا دشوار ہوجائے۔ 
چھتیس گڑھ کے بعض گھرانوں میں آج بھی یہ رسم ہے کہ شادی ہو جانے پر یعنی مقدس اگنی کے گرد پھیرے لیے جانے کے بعد دولہا اور دلہن بیل گاڑی میں گھر روانہ ہوتے ہیں۔ آپ سوچیں گے اِس رسم میں کیا قباحت ہے۔ کار نہ سہی، بیل گاڑی سہی۔ سوال بیل گاڑی کا نہیں، اُس میں جوتے جانے والے بیلوں کا ہے۔ آپ شاید پھر سوچیں کہ بیل گاڑی بیل نہیں کھینچیں گے تو کون کھینچے گا۔ آپ سمجھ نہیں پارہے۔ چلیے ہم بتائے دیتے ہیں۔ رسم یہ کہ دولہا دلہن جس بیل گاڑی میں بیٹھ کر گھر روانہ ہوتے ہیں اُس بیل گاڑی کو دولہا کا بہنوئی اور پُھوپھا مل کر کھینچتے ہیں! 
ہم نے جب اس رسم کے بارے میں پڑھا تو ایک لمحے کو تو سہم کر رہ گئے کیونکہ ہم بہنوئی کے ''درجے‘‘ پر بھی ''فائز‘‘ ہیں اور چند بچوں کے پُھوپھا بھی ہیں! گویا بہنوئی کی حیثیت سے بچ نکلے تو پُھوپھا کی حیثیت سے پھنس جائیں گے اور ساری ''پُھوں پھاں‘‘ نکل جائے گی! اب آپ ہی بتائیے کہ یہ کیا رسم ہوئی کہ شادی تو کرے کوئی اور بھگتیں اُس کے بہنوئی اور پُھوپھا! 
اور ذرا چالاکی تو ملاحظہ فرمائیے۔ کسی لڑکے کی شادی ہو تو پورا خاندان مزے کرے، آرام دہ گاڑیوں میں سفر کرے اور دولہا دلہن کی بیل گاڑی کھینچیں بہنوئی اور پُھوپھا۔ رشتے پر غور کیجیے۔ دونوں پرائے ہیں۔ نہ ماموں کی گردن پھنس رہی ہے نہ چاچا یا تایا کی۔ اور دولہا کی ماں بھی خوش کہ اُس کی بہن کا شوہر (یعنی دولہا کا خالو) بھی بچ گیا حالانکہ غیر تو وہ بھی ہے! 
ہم نے پاکستان میں بھی شادی کے موقع پر عجیب و غریب رسمیں پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر دیکھی ہیں جن میں ہم جیسوں کی گردن پھنس رہی ہوتی ہے۔ مثلاً دولہا کو سہرا تو بہنوئی ہی باندھے گا۔ آپ سوچیں گے یہ تو عزت دینے والا معاملہ ہے۔ ٹھیک ہے مگر سہرا باندھنے پر بہنوئی کو جیب سے تین سے چار ہزار نکال کر دولہا کو تھمانے بھی تو پڑتے ہیں! کہیں کہا جاتا ہے کہ دولہا کے سر پر کُلاہ تو پُھوپھا سجائے گا۔ یعنی پھر کرو جیب ڈھیلی۔ بعض گھرانوں میں رسم ہے کہ شادی کے بعد دلہن جب سُسرال پہنچتی ہے تو دولہا اُسے اُٹھاکر اپنے کمرے تک لے جاتا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایسے مواقع بعض نازک مزاج دولہوں کی ناف ہٹ جاتی ہے! اور اگر دلہن 80 کلو گرام سے زائد وزن کی ہو تو دولہا خاندانی رسموں پر لعنت بھیجتے ہوئے دلہن سے دور دور، دوستوں کے جُھرمٹ میں چلتا ہے! 
''ٹوکن سے ذرا بچے کے‘‘ والے مشورے سے ملتا جلتا مشورہ ہم آپ کو بھی دیں گے۔ یہ کہ رسموں سے ذرا بچ کے۔ خاص طور پر ایسی رسموں سے جن کے نبھانے میں جیب بھی خالی ہوتی ہو اور جسم کے انجر پنجر ڈھیلے ہوجانے کا بھی اندیشہ ہو! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں