دنیا بھر میں کام کا کلچر تبدیل ہوچکا ہے۔ دن بھر شدید محنت و مشقّت کرنے کا تصوّر دم توڑتا جارہا ہے۔ ہر شعبے کے ماہرین کی بھرپور کوشش ہے کہ کم سے کم محنت کے ذریعے زیادہ سے زیادہ کام ممکن بنایا جائے۔ یعنی کام کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جسمانی مشقّت کرنے والوں کے مقابلے میں اب ذہنی مشقّت کرنے والے زیادہ آرام سے کام کرتے ہیں اور معاوضہ بھی زیادہ پاتے ہیں۔ آپ سوچیں گے یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ اب ذہنی مشقّت کرنے والوں کو زیادہ معاوضہ ملتا ہے اور وہ کام بھی خاصے آرام دہ ماحول میں کرتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ اِس دنیا میں ہر بات کے آخر میں ایک ''مگر‘‘ ہوتا ہے! اگر ہم اِس ''مگر‘‘ پر قابو نہ پاسکیں تو بات نہیں بنتی۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ جو لوگ دن بھر جدید ترین سہولتوں سے آراستہ دفاتر میں کام کرتے ہیں ان کی زندگی میں بھی کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہ ماہرین دن بھر میں دس تا بارہ گھنٹے کرسی پر بیٹھ کر کام کرنے والوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ اتنی دیر تک بیٹھ کر کام کرنے سے ان کے جسم پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بیٹھے رہنے سے دوران خون بے ترتیب ہوجاتا ہے۔ پٹھوں اور جوڑوں کو ہلنے کا موقع نہیں ملتا اس لیے ان میں اکڑن پیدا ہوتی ہے۔ ایک جگہ بیٹھے رہنے سے چونکہ پورا جسم حرکت سے محروم رہتا ہے اس لیے پورے جسم کو جمود کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زندگی حرکت ہے اور جمود موت کے مماثل۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیا کرنا چاہیے کہ دفاتر میں کام کے دوران جسم متوازن اور متحرک رہے۔ ماہرین نے بتایا ہے کہ دفتری اوقات میں اگر چار گھنٹے کھڑے رہ کر کام کیا جائے تو جسم کو غیر ضروری جمود اور تھکن سے بچایا جاسکتا ہے۔ کھڑے ہوکر کام کرنے سے دوران خون بہتر ہوتا ہے اور جسم کو زیادہ متوازن رکھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ ایسی حالت میں پٹھے اور جوڑ بھی حرکت پذیر رہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جسم پر خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چار گھنٹے تک کھڑے ہوکر کام کرنے سے موٹاپے، شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کو کسی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ جسم کو مکمل متوازن حالت میں رکھنے کے لیے ویسے تو تیز رفتاری سے چلنا یا دوڑنا لازم ہے لیکن بیٹھے رہنے کے مقابلے میں کھڑے رہنا بھی کسی حد تک جسم کو متحرک رکھ کر مزید نقصان سے بچاتا ہے۔
ماہرین کی بات تو بالکل درست ہے۔ مگر پاکستانی معاشرے کے تناظر میں ان کی رائے کا جائزہ لیجیے تو ناممکن ہے کہ ہنسی نہ آئے اور عین ممکن ہے کہ ہنسی ایسی چُھوٹے کہ قابو میں نہ آئے! دنیا بھر کے معاشروں کے تناظر میں تو یہ بات بہت بھلی معلوم ہوتی ہے کہ چار گھنٹے کھڑے ہوکر کام کیا جائے۔ پاکستانی معاشرے میں معاملات کچھ مختلف ہیں۔ ماہرین نے جو بات کہی ہے وہ اِس حقیقت کے تناظر میں ہے کہ لوگ دفاتر میں آٹھ تا دس گھنٹے بیٹھ کر کام کرتے ہیں جس سے ان کے جسم پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہمارے جسم پر کام کے منفی اثرات اس وقت مرتب ہوں گے جب ہم کام کریں گے!
پاکستانی معاشرے کی حالت یہ ہے کہ لوگ دفتر پہنچتے ہی گھنٹے سوا گھنٹے کی تاخیر سے ہیں! یعنی جسم کو شدید نقصان سے بچانے کا دس بارہ فیصد انتظام پہلے مرحلے ہی میں کرلیا جاتا ہے! دفتر میں قدم رکھنے کے بعد چائے کے آنے تک اور چائے پینے کے دوران جو گپ شپ کی جاتی ہے اس میں مزید ایک آدھ گھنٹہ گزر جاتا ہے۔ یعنی جسم کو غیر ضروری تھکن سے بچانے کا پچیس فیصد انتظام ہوچکا!
اب رہ گئے 6 گھنٹے۔ تھوڑی دیر کام کیجیے تو دوپہر کے کھانے کا وقت ہوجاتا ہے۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ دوپہر کے کھانے کا دورانیہ کم و بیش ایک گھنٹہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایک آدھ گھنٹہ کام ہوتا ہے کہ شام کی چائے کا وقت ہو جاتا ہے۔ اور شام کے چائے کے بعد کون کافر ہے جس کا دل کام کرنے کو چاہے گا؟
سیدھی سی بات ہے ہمارے ہاں بیشتر دفاتر میں معمول کچھ ایسا ہے کہ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی میں تقریباً چار گھنٹے ہی کام ہو پاتا ہے۔ اور باقی چار گھنٹوں کا ہم مل جل کر بہت عمدگی سے کام تمام کر ڈالتے ہیں! اب آپ ہی بتائیے کہ ایسے میں ماہرین کے اس مشورے کا ہماری زندگی سے کیا تعلق کہ چار گھنٹے کھڑے ہوکر کام کرنا چاہیے!
51 سال کی عمر میں ہم نے کم و بیش 30 سال اخبارات کے دفاتر میں گزارے ہیں۔ اور اس دوران ہمارا عمومی مشاہدہ یہ رہا ہے کہ کسی بھی انچارج کے لیے سب سے بڑا کمال یہ نہیں کہ وہ اپنے ماتحت افراد سے کام کس طرح لیتا ہے بلکہ اصل فن یہ ہے کہ وہ انہیں نشست پر بٹھائے رکھنے میں کامیاب ہو! کام کسی سے بھی لیا جاسکتا ہے مگر اُس وقت جب وہ اپنی نشست پر بیٹھا ہوا پایا جائے! ہمارا عمومی دفتری کلچر یہ ہے کہ لوگ اپنی نشست پر بیٹھے رہنے سے یوں گریز کرتے ہیں جیسے اس میں کیلیں نکلی ہوئی ہوں!
ماہرین بے چارے کیا جانیں کہ جن معاشروں میں لوگ دن دن بھر اپنی نشست پر بیٹھے، میز پر سَر جھکائے کام کرتے رہتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ چار گھنٹے کھڑے ہوکر کام کریں۔ جہاں لوگ دفتر دیر سے پہنچتے ہوں اور پھر اپنی نشست پر بھی کم کم پائے جاتے ہوں وہاں کیسی تھکن، جسم پر کیسے منفی اثرات اور ان منفی اثرات کا کیسا تدارک!
مرزا تنقید بیگ کو ہم نے ہمیشہ کام سے بچتے بچاتے یعنی خاصے پُرسکون انداز سے زندگی بسر کرتے دیکھا ہے۔ وہ جب سرکاری دفتر میں تھے تب کام سے یُوں بچتے تھے جیسے آسمان سے کام کو یکسر حرام قرار دینے کا فرمان آگیا ہو! مرزا کو ماہرین کے حوالے سے دل کی بھڑاس نکالنے کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ موقع ملتے ہی وہ پھٹ پڑتے ہیں۔ کام کے بارے میں ماہرین جتنے بھی نظریات پیش کرتے آئے ہیں انہیں مرزا نے ہمیشہ بیک جنبشِ قلم مسترد کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مغربی دنیا کے ماہرین انسان کو کام کرنے والا جانور سمجھتے ہیں اور اسے ہر وقت کولھو کا بیل بنائے رکھنے کے طریقے سوچتے رہتے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں کی جانے والی تحقیق کا بنیادی مقصد لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولت اور سکون فراہم کرنا ہوتا ہے۔ مگر مغرب میں بیشتر ماہرین ایسے طریقے سوچتے ہیں جن سے کام گھٹنے کے بجائے بڑھتا ہے اور انسان ڈھنگ سے سکون کا سانس بھی نہیں لے پاتا۔ یہی سبب ہے کہ جب بھی ماہرین کام کے حوالے سے کوئی تصوّر پیش کرتے ہیں، مرزا کی رگِ تنقید آن کی آن میں رگِ ظرافت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
مرزا کا استدلال ہے کہ کام کے معاملے میں پاکستان جیسے معاشرے پوری دنیا کے لیے مثال ہیں۔ یعنی دنیا کو ہم سے سیکھنا چاہیے کہ کم سے کم کام کرکے بھی کتنی پُرسکون زندگی بسر کی جاسکتی ہے! مغرب اور مشرق بعید کے ترقی یافتہ معاشروں میں انسان کام کرتے کرتے گھن چکّر بن کر رہ گیا ہے۔ رات دن اتنا کام لیا جاتا ہے کہ فراغت کے چند لمحات بھی ڈھنگ سے میسّر نہیں ہو پاتے۔ ہفتہ بھر اِتنا کمر توڑ کام لیا جاتا ہے کہ ویک اینڈ کی فراغت سے محظوظ ہونے کے معاملے میں لوگ جنون کا شکار ہوجاتے ہیں!
دنیا والے پتا نہیں کس مزاج کے ہیں کہ کام کے بغیر زندگی بسر کرنے کا سوچتے ہی نہیں۔ اور اِدھر ہم ہیں کہ کام کے تصوّر ہی سے کانپ کانپ اٹھتے ہیں!
ہم کام کے معاملے میں مرزا کے تصوّرات اور دلائل سے پوری طرح متفق تو نہیں مگر ہاں کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کام (کام نہ کرنے) کے معاملے میں اُن سے ''نظریاتی ہم آہنگی‘‘ رکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ جس راہ پر چلنے سے زندگی کو پُرسکون بنانے کی راہ ہموار ہوتی ہو اُس پر سفر ہی کافی ہے، منزل کا کوئی کیا اور کیوں سوچے!