وہ گھڑی آن پہنچی جس کا ہر نظر کو شدت سے انتظار تھا۔ عید الفطر بس آ ہی چکی ہے۔ ماہِ صیام کے دوران اللہ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنے والوں کے لیے خوشی کا اس سے بڑھ کر کوئی موقع ہو نہیں سکتا۔ بہت سے اہل ایمان رب کو منانے کے لیے ماہِ صیام کا انتظار کرتے ہیں اور اس حوالے سے تیاری بھی کر رکھتے ہیں۔ مگر خیر، یہ منزل تو ہم کہیں بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ اب تو ماہِ صیام اُخروی سے زیادہ دُنیوی فوائد کے حصول کا ذریعہ بن چکا ہے! جنہیں اللہ کی رضا درکار ہے وہ بھوک اور پیاس کی شدت برداشت کرتے ہیں یعنی اللہ ان کا صبر آزماتا ہے۔ اور جو ماہِ صیام کے ذریعے دنیا حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بھی روزہ داروں کا صبر آزماتے ہیں۔ گویا جن کا ایمان پختہ ہے ان کا دگنا امتحان ٹھہرا۔ بلکہ تین گنا کہیے۔ اللہ کی طرف سے آزمائے جانے کو تو اہل ایمان حرزِ جاں بنالیتے ہیں اور سکون بھی پاتے ہیں مگر دنیا والوں کی طرف سے نازل کی جانے والی آزمائش کا یہ تو حال ہے کہ بقول خواجہ میر دردؔ ؎
آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ
جیسے دُہری دھار کا خنجر چلے!
اللہ کا فرمان ہے کہ رمضان المبارک میں شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں۔ یقیناً ایسا ہی ہوتا ہے مگر ان کی کمی انسانوں سے برداشت نہیں ہو پاتی۔ رمضان کے دوران بہت سے انسان یہ کمی پوری کرنے پر تُل جاتے ہیں! اور یہ تماشا سارا رمضان دکھائی دیتا ہے۔ قدم قدم پر یہ متحرک اور فعال دکھائی دیتے ہیں۔ ایک عفریت سے بچ نکلیے تو دوسرے سے ٹاکرا ہو جاتا ہے۔ آخرت کمانے کے مہینے میں دنیا اور اس کے اموال و اسباب بٹورنے بلکہ دبوچنے کی کوششیں کچھ اس انداز سے جاری رہتی ہیں کہ دیکھ کر نظریں جُھکی جاتی ہیں۔ گویا دیکھتا جا، شرماتا جا!
روزے کی حالت میں صرف بھوک پیاس ہی صبر کو آزمائش کی سرنگ سے نہیں گزارتی، اہل خانہ بھی اچھے خاصے آدمی کو گھن چکّر بنائے رکھتے ہیں! اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا پہلو نشیں رہنے کے دنوں میں ہر وقت ذہن پر یہی فکر لاحق رہتی ہے کہ جنہیں عید منانے کی جلدی ہے ان کے ہر ارمان کو ثمر بار کرنے کی خاطر کون کون سے جتن کئے جائیں!
ماہِ صیام کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے۔ یہ بات اُن کے لیے ہے جن کے دلوں میں ایمان اب تک پختہ ہے۔ رہ گئے دنیادار تو ان کے لیے اس بات کی بظاہر کوئی اہمیت نہیں کہ ماہِ صیام میں روح کی تسکین کے لیے کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ ایسوں کی نظر میں یہ مبارک مہینہ زیادہ سے زیادہ دنیوی فوائد بٹورنے کا ہے۔ ان کے ذہنوں میں یہ غلط فہمی یا خوش گمانی راسخ ہوچکی ہے کہ اللہ کے رحم و کرم کا دریا بہہ رہا ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ تو مل ہی جائے گا!
ماہِ صیام کی آمد پر پاکستانی معاشرہ بہت حد تک تبدیل ہوجایا کرتا تھا۔ لوگوں کو روزے رکھنے اور عبادات میں مشغول رہنے کی فکر رہتی تھی۔ گلی کوچوں میں اوراد و وظائف کی صدائیں گونجا کرتی تھیں۔ ہر معاملے میں اہتمام تو کیا جاتا تھا مگر سادگی اور اخلاص کے عناصر نمایاں رہا کرتے تھے۔ مگر یہ پچیس تیس سال پہلے کی بات ہے۔ اب تو ماہِ صیام کے آغاز سے قبل عیدالفطر کی تیاریوں کی فکر لاحق ہوجاتی ہے! انتیس یا تیس روزوں کے دوران عبادات سے زیادہ اس بات پر دھیان رہتا ہے کہ کب کیا خریدنا ہے اور کہاں سے خریدنا ہے! یہ جو خریداری کا رونق میلہ ہے، بس یہ سمجھ لیجیے کہ اس نے ہمیں اونے پونے داموں خرید لیا ہے یا دنیا کے بازار میں بہت سستا بیچ دیا ہے!
عید پر زیادہ سے زیادہ خوش ہونا ہر اہل ایمان کا حق اور فرض ہے مگر اس خوشی کے لیے مفت کی پریشانیوں کو گلے لگانا تو اللہ کی مشیّت کا تقاضا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ وائے ناکامی کہ ہم یہی کر رہے ہیں۔
دو ڈھائی عشروں سے حالت یہ ہے کہ ہم نے صبر و شکر اور اللہ کی رضا کے حصول کے ماہِ مبارک کو ''شاپنگ گالا‘‘ میں تبدیل کرلیا ہے۔ فیوض و برکات سے بہرہ مند ہونے کی ساعتوں کا مصرف یہ رہ گیا ہے کہ عیدالفطر کے ایام سعید کے لیے زیادہ سے زیادہ دنیوی تیاریاں کی جائیں۔ ویسے تو خیر فطری طور پر بھی میلان کم نہ تھا مگر میڈیا نے بھی بُھوسے میں چنگاریاں ڈال دی ہیں۔ بیشتر خواتین اس معاملے میں اس قدر متشدد مزاج واقع ہوئی ہیں گویا عید کی شاپنگ بھی ایمان کا کوئی بنیادی تقاضا ہے! انہیں رات دن یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ عید کے تینوں دنوں کے الگ الگ جوڑے ہونے چاہئیں۔ اور جوڑوں کے ساتھ ہر چیز میچنگ کی ہونی چاہیے۔ اور یہ سب کچھ زیادہ سے زیادہ اہتمام کے ساتھ کرنا ہے یعنی جو کچھ جیب میں ہے وہ سب کا سب ٹھکانے لگ جانا چاہیے۔ گویا یہ خوف لاحق ہو کہ اگر عید کی تیاریوں کے دوران جیب میں کچھ بچ گیا تو اللہ حساب طلب کرلے گا!
ماہِ صیام کا تیسرا عشرہ جہنم کی آگ سے نجات ہے مگر بیشتر مَردوں کے لیے یہ شاپنگ کے جہنم سے گزرنے کا عشرہ بن گیا ہے! جبینوں میں سجدے تڑپتے رہ جاتے ہیں اور لوگ اہل خانہ کے ساتھ شاپنگ سینٹرز کے آستانوں پر جبیں سائی کرتے دکھائی دیتے ہیں! تنخواہ ملتے ہی پروگرام طے کرلیا جاتا ہے کہ کب کہاں جانا ہے اور کیا کیا خریدنا ہے۔ اگر کوئی چیز بہت آسانی سے گھر کے نزدیک دوسری یا تیسری گلی میں بھی مل رہی ہو تو ملتی رہے۔ وہ چیز آٹھ دس کلو میٹر دور جاکر کسی مشہور شاپنگ مال سے خریدنی ہے۔ اگر گھر کے آس پاس کسی دکان سے کوئی چیز خرید لی جائے تو دل میں چُبھن سی رہ جاتی ہے! سوال صرف شاپنگ کا تھوڑی ہے۔ ایک شاپنگ میں کئی میلے سموئے جاچکے ہیں۔ شاپنگ گھر سے دس بارہ کلو میٹر دور ہو تو لگے ہاتھوں ''آؤٹنگ‘‘ بھی ہوجاتی ہے۔ اور جب گھر سے دور ہوں تو کھانا پینا بھی گھر سے باہر ہی ہونا چاہیے نا! یعنی شاپنگ کے ساتھ ساتھ آؤٹنگ اور باہر کا کھانا!
اسے کہتے ہیں ایک تیر میں تین نشانے۔ اور یہ تیر جسے جھیلنا ہے بس اسی کو جھیلنا ہے۔ باقی سب تو مزے میں ہیں۔ ؎
دریا کو اپنی موجوں کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے!
جنہیں اللہ نے نوازا ہے ان کے لیے تو خیر کوئی مسئلہ نہیں مگر مشکلات کا سمندر تو انہیں پار کرنا ہے جو محدود آمدنی کے دائرے میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہاتھ آنے والا بونس یا ایڈوانس کی مد میں ملی ہوئی تنخواہ بھی پلک جھپکتے میں ٹھکانے لگ جاتی ہے۔ اہل خانہ کو عید شایان شان طریقے سے منانے سے کام۔ اگر اس معاملے میں کوئی جان سے جاتا ہے تو جائے۔ جن کی آمدن سے گھر چلتا ہے وہ دفتر یا فیکٹری سے ملنے والا ایڈوانس بھی اگر عید کی تیاریوں میں لگا بیٹھیں تو بعد میں دو ڈھائی ماہ تک گھر کا بجٹ اونچا نیچا ہوتا رہتا ہے۔ مگر جو عید کے مزے لے چکتے ہیں انہیں اس سے کیا غرض؟ ؎
جو گزرتی ہے قلبِ شاعر پر
''شاعرِ انقلاب‘‘ کیا جانے!
جن کے نصیب میں صرف کمانا اور رمضان کی بابرکت ساعتوں میں بھی اہل خانہ کو شاپنگ کراتے رہنا لکھا ہوا ہے ہماری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ روحانی بالیدگی کے لمحات کو ان کے لیے سوہانِ روح بنادیا گیا ہے۔ اہل خانہ عید منانے کی تیاریاں اس طور کرتے ہیں کہ جنہیں ان تیاریوں کا بھگتان کرنا ہوتا ہے وہ سراپا وحشت ہوکر رہ جاتے ہیں ؎
بے چینیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
جب کچھ نہ بن سکا تو مرا دل بنا دیا!