"MIK" (space) message & send to 7575

’’سیلابی میلہ‘‘

ایک بار پھر اللہ کی رحمت برس رہی ہے۔ پیاسی، سُوکھی زمین، جو پانی کی بوند بوند کو ترس رہی تھی، اب سیراب ہوچلی ہے۔ فضا خوشگوار ہے۔ بادلوں کی کوکھ سے نکل کر برستی ہوئی رحمت نے گرد و غبار ہی کو سمندر کے جھاگ کی طرح بٹھا نہیں دیا بلکہ دلوں کا میل بھی اتار دیا ہے۔ لوگ خوش ہیں کہ گرمی کا زور ٹوٹا اور سہانا موسم پھر مقدر بنا۔ 
مگر موسم کی اس خوشگوار تبدیلی پر ہم نے اللہ کا شکر کس طور ادا کیا؟ ہماری حالت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت کو زحمت بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ بارش کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ مگر خیر، قدرت ہماری طرح بے اُصول نہیں۔ ہر معاملے میں قدرت کے اپنے اُصول، ضوابط اور پیمانے ہیں۔ سردی اور گرمی کی طرح بارش کا بھی موسم ہوتا ہے۔ تھوڑی بہت کمی بیشی تو ہوسکتی ہے مگر مجموعی کیفیت یکساں رہتی ہے۔ بارش کب ہوگی اور کتنی ہوگی یہ تو قدرت نے ٹھہرادیا ہے مگر ہم نے اب تک نہیں سوچا کہ ہمیں بھی کچھ ٹھہرانا ہے۔ یعنی جب بارش ہو تو رحمت کو زحمت میں تبدیل ہونے سے روکنے کی خاطر کچھ نہ کچھ ضرور کرنا ہے اور کرکے رکھنا ہے۔ دانش اور حکمت کا تقاضا تو یہی ہے۔ 
جب بھی بارش ہوگی تو پانی کہاں جائے گا؟ کچھ تو زمین پی لے گی۔ کچھ اِدھر اُدھر گڑھوں میں بھر جائے گا۔ باقی پانی ندی نالوں سے ہوتا ہوا دریاؤں میں جا گرے گا۔ دریاؤں میں پانی ہر سال آتا ہے۔ اِس بار بھی قدرت یہی کلیہ بروئے لائی ہے۔ ملک بھر میں ملک بھر میں اور بالخصوص بالائی علاقوں میں خوب بارش ہوئی ہے تو دریا پھر بپھرے ہوئے ہیں۔ دریاؤں میں پانی کے سمانے کی ایک حد ہوتی ہے۔ جب پیالہ بھر جاتا ہے تو چھلک ہی جاتا ہے۔ دریاؤں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ پانی کی مقدار بڑھنے سے دریا اپنے کنارے چھوڑ چلے ہیں۔ سیلابی ریلوں نے آبادیوں کو پہلے گلے اور ٹھکانے لگانا شروع کردیا ہے۔ ملک بھر میں سیکڑوں علاقے زیر آب ہیں یا پھر کسی بھی وقت زیر آب آنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ بہت سی بستیاں سیلابی ریلوں کی زد میں آکر تباہی سے دوچار ہوچکی ہیں۔ جانی اور مالی ہر دو طرح کا نقصان ہوا ہے۔ کھڑی فصلیں بے ثمر ہوگئی ہیں۔ 
قوم ہم تھے تب تھے۔ اب تو محض ہجوم ہیں، بھیڑ ہیں۔ جب کوئی قوم ہجوم یا بھیڑ میں تبدیل ہوتی ہے تو مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت کرنے پر بھی تُل جاتی ہے۔ ہم بھی کچھ ایسے ہی واقع ہو رہے ہیں۔ ابھی کل تک جو صورت حال ہمیں پریشان کرتی تھی وہی صورت حال بہت سوں کے لیے راحت کا سامان کرتی ہے! اُنہیں ''نوید‘‘ ہو جو بارش اور سیلاب کے منتظر رہتے ہیں۔ اور منتظر کیوں نہ رہیں؟ یہی تو اُن کے کھانے کمانے کا سیزن ہے! جس طرح گورکن کا دھندا لوگوں کے مرنے پر موقوف ہے بالکل اُسی طرح بارش اور سیلاب کے ہاتھوں واقع ہونے والی تباہی بھی بہت سوں کی ہوس کا پیٹ بھرنے کا اہتمام کرتی ہے۔ 
چاروں صوبے سیلاب کی لپیٹ میں ہیں۔ یہ المیہ ہے مگر اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ چاروں صوبائی حکومتیں عوام کے جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے کے فرض کو یکسر بھول کر کسی اور دنیا میں گم ہیں۔ یہ دنیا ہے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراکر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی۔ سیلاب محض دستک نہیں دے رہا بلکہ گھر میں آچکا ہے مگر اب بھی صوبائی حکومتیں بیانات کے ذریعے، الزامات کی مدد سے اور تنقید کے توسط سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں۔ ہر صوبائی حکومت گڈ گورننس کے دعوے کے ریلے میں بہہ رہی ہے۔ طے کرلیا گیا ہے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ صرف بیانات، الزامات، تنقید، وعدوں اور دعووں کے میدان میں کرنا ہے۔ 
اللہ نے ہر جاندار کو کسی نہ کسی مقصد کے تحت پیدا کیا ہے۔ یہ تو صرف انسان ہے جو یہ ثابت کرنے پر تُلا رہتا ہے کہ اس کا کوئی مصرف نہیں! گِدھوں ہی کی مثال لیجیے۔ یہ قوی الجُثّہ پرندے اللہ نے بنیادی طور پر اس لیے پیدا کیے ہیں کہ ماحول صاف سُتھرا رہے۔ گِدھ مُردار خور ہیں۔ اِس سے پہلے کہ کوئی جاندار مرنے کے بعد ماحول کو خراب کرے، گِدھ اُسے کھا جاتے ہیں۔ ہمارے سیاسی نظام اور انتظامی مشینری میں بھی بہت سوں نے گِدھ کا کردار اپنالیا ہے۔ شاہین بن کر شکار پر جھپٹنا اور فطری طریقے سے اپنی خوراک کا بندوبست کرنا تو ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ پست حوصلے اور اُس سے بھی گری ہوئی ذہنی حالت کے ساتھ کوئی کیا شکار کرے گا؟ ایسے میں مُردار خوری کا آپشن رہ جاتا ہے۔ سیاسی نظام اور انتظامی مشینری کے گِدھ بھی مُردار پر پلتے ہیں۔ 
اصل گِدھ میں اور انسان نما گِدھ میں کیا فرق ہے؟ صرف ایک بنیادی فرق ہے اور وہی فرق سب کچھ بیان کردیتا ہے۔ اللہ نے مُردار کھانے کے لیے جو گِدھ خلق کیے ہیں وہ صرف مُردار خوری کے عادی ہوتے ہیں کسی کو مُردار کرنے کے نہیں۔ وہ کسی کو ختم نہیں کرتے۔ ہاں، جب وہ ختم ہوچکتا ہے تو اُس کی باقیات کو ختم کر ڈالتے ہیں۔ انسانی شکل میں پائے جانے سیاسی و انتظامی گِدھ اپنے لیے مُردار کا انتظام بھی کرتے ہیں۔ وہ صرف بوٹیاں نوچنے کے عادی نہیں ہوتے بلکہ زندوں کو موت کی منزل تک بھی پہنچاتے ہیں تاکہ دم نکل جانے پر جھپٹنا اور نوچ کھانا آسان ہو! 
ایک زمانے سے ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔ سیلاب آتا ہے تو امدادی کاموں کے نام پر سرکاری خزانے کا منہ چند مفاد پرست اپنے لیے کھول لیتے ہیں۔ پہلے تو بارش بہت سے غم مٹاتی ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر جو کچھ الٹا سیدھا بنایا گیا ہوتا ہے اُس پر پانی پھر جاتا ہے۔ سڑکیں پہلے ہی صرف کاغذوں پر ہوتی ہیں۔ بارش کے بعد صرف ایک بیان داغ دیا جاتا ہے کہ بہت سے سڑکیں بہہ گئیں۔ لیجیے، قصہ تمام ہوا۔ اب کوئی اگر ڈھونڈنے بھی نکلے تو کیا پائے گا؟ صرف کیچڑ اور دلدل۔ سڑکیں جن کاغذات میں پائی جاتی ہیں وہ بھی اِدھر اُدھر کردیئے جاتے ہیں۔ 
سیلاب زدگان کی امداد کے نام پر سرکاری وسائل بے دریغ لٹائے جاتے ہیں، اپنوں کو اس طور نوازا جاتا ہے کہ کائنات کا سب سے بڑا نوازنے والا بھی دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوگا۔ بات ہو رہی تھی اصل اور انسان نما گِدھوں کے فرق کی۔ انسان نما گِدھ اپنے لیے مُردار کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔ وہ ایسے کہ اگر وارے نیارے کرنے والی کوئی مصیبت نازل نہ ہو رہی ہو تو پیدا کرلی جاتی ہے! سیلاب آجائے تو ٹھیک۔ اگر نہ آئے تو اُسے لایا جاتا ہے۔ تین چار سال سے سندھ میں تو یہی ہوا ہے۔ سیلاب سے بچاؤ کی تیاریاں برائے نام بھی نہیں کی جاتیں۔ یعنی سیلابی ریلوں کو غیرت دلائی جاتی ہے کہ اب تو آؤ، کچھ تباہی کا بازار گرم کرو تاکہ گلشن کا کاروبار چلے! بستیاں ڈوبیں گی، لوگ ڈوب مریں گے، مویشی بہہ جائیں گے، فصلیں نذرِ آب ہوں گی تو سرکاری وسائل کی گنگا بہانے کا موقع ہاتھ آئے گا، بہت سے بڑوں کے دلوں کے ارمان نکلیں گے، چند خالی تجوریاں بھریں گی اور کرپشن کے بازار میں کچھ گرما گرمی پیدا ہوگی۔ کبھی کبھی بڑوں کی زمینیں بچانے کے لیے بند اور پشتے توڑ کر سیلابی ریلوں کا رخ تبدیل کیا جاتا ہے۔ غریبوں کی بستیوں کو بچانے کے لیے نیم دلانہ سی بھی کوشش سے گریز کیا جاتا ہے تاکہ ان کا بہت کچھ بہے تو ''مال مفت، دل بے رحم‘‘ کی گنگا بہے! سیلابی ریلے آتے ہیں تو ''سیلابی میلہ‘‘ بھی سجتا ہے۔ غریب اس میلے کو صرف دیکھ سکتے ہیں، کسی چیز کو چُھو نہیں سکتے۔ سیلاب کی مہربانی سے سجنے والے میلے کا ہر آئٹم صرف بڑوں کے لیے ہوتا ہے، چھوٹوں کے لیے یہ ''اعزاز‘‘ کیا کم ہے کہ وہ اس میلے کا وسیلہ بنتے ہیں! 
پاکستان کے غریبوں اور لاچاروں کو مبارک کہ ان کی تباہی کے نام پر چند بڑوں کے لیے مزید وسائل کا اہتمام تو ہوتا ہے۔ غریبوں کے لیے یہ ''سعادت‘‘ بھی کم نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں