زندگی کا کون سا معاملہ ہے جس میں ہم نے انوکھی مثال قائم نہیں کی؟ دنیا کو اب تک اتنی فرصت نہیں ملی کہ ہم سے کچھ سیکھے۔ جب تک دنیا والوں کو ہم سے کچھ سیکھنے کی توفیق نصیب ہوگی تب تک ہم خدا جانے کیا کیا کرچکے ہوں گے۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ دنیا بھر میں علاج کے لیے اسپتال قائم کئے جاتے ہیں اور ہمارے ہاں اسپتال بیماریاں پھیلانے کا ''فریضہ‘‘ انجام دیتے ہیں! اور یہ سب کچھ ایسی تندہی سے ہوتا ہے کہ کوئی ذرا سی بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتا۔ اسی طور دنیا بھر میں اسکول تعلیم کے فروغ کا فریضہ انجام دیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اسکول تعلیم کے فروغ کے سوا بہت سے مقاصد کے لیے قائم کئے جاتے ہیں۔ مثلاً گھوسٹ ملازمین کو تنخواہیں اور مراعات دلانا، مویشی پالنا وغیرہ!
چین بھی ہمارے پڑوس ہی میں ہے مگر اب تک وہاں سے عجیب و غریب خبریں کم کم آیا کرتی تھیں۔ پاکستان سے دوستی مضبوط ہوئی ہے تو چین سے بھی حیران کن خبریں آنے لگی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تبدیلی ہمارے بعض رہنماؤں کی چین آون جاون کا نتیجہ ہو!
علاج کے عجیب و غریب طریقے ہمارے ہاں بھی بہت سے ہیں مگر چینیوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں غیر معمولی حد تک عجیب و غریب واقع ہوئے ہیں! پاکستان کے طبیبوں اور دوا ساز اداروں نے علاج کے نام پر حیرت انگیز واقعات کو جنم دینے میں بظاہر کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی مگر چین میں کچھ ایسا ہو رہا ہے کہ آپ بھی پڑھیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔ روایتی طریقوں سے علاج کے معاملے میں چین ساری دنیا میں خصوصی شہرت رکھتا ہے اور اس حوالے سے عالمی برادری میں اچھا خاصا تجسّس پایا جاتا ہے مگر اب چینیوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ حیران کرنے کے معاملے میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔
چین میں آگ سے بھی علاج کیا جارہا ہے۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ چین کے بعض حصوں میں سو سال سے یہ طریق علاج رائج ہے۔ ژانگ فینگاؤ کو فائر تھیراپی کے حوالے سے غیر معمولی شہرت حاصل ہوچکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فائر تھیراپی سے بہت سے امراض کا تسلی بخش علاج ممکن بنایا جاچکا ہے۔ پیٹ کے امراض کے دوسرے بہت سے امراض کے علاوہ شدید بدہضمی اور خواتین میں بانجھ پن کا بھی آگ سے علاج کیا جاچکا ہے۔ یا کم از کم دعویٰ تو یہی کیا جاتا ہے۔
اگر آپ کو فائر تھیراپی پر یقین نہیں آرہا تو ذرا سوچیے، چین جب دوسرے بہت سے معاملات کی زمین میں حیرت کے جھنڈے گاڑ رہا ہے تو پھر علاج کے شعبے میں کوئی انوکھی بات تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کیسی؟
ژانگ فینگاؤ کے طریق علاج سے متعلق آپ پڑھیں گے تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ ژانگ فینگاؤ پہلے تو چند ادویہ کا لیپ مریضہ یا مریضہ کے پیٹ اور پیٹھ پر لگاتے ہیں۔ پھر وہ اس لیپ پر تولیہ لپیٹ دیتے ہیں۔ اس پر وہ الکوحل اور پانی چھڑکتے ہیں۔ آخر میں وہ لائٹر جلاتے ہیں اور اسے تولیے پر پھیرتے جاتے ہیں۔ تولیہ دھیرے دھیرے آگ پکڑتا ہے۔
گزشتہ برس چین کی ایک خاتون کو برین ہیمرج ہوگیا تھا جس کے باعث وہ یادداشت کھو بیٹھی تھی۔ فائر تھیراپی سے اسے بہت فائدہ پہنچا۔ ماہرین یہ کمال دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اسی طور آگ سے پیٹ کے امراض اور پیٹھ کے درد کا بھی کامیاب علاج کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔
جب ہم نے آگ سے علاج کے طریق کا ذکر مرزا تنقید بیگ سے کیا تو وہ ہنس پڑے۔ ہم نے اکثر یہ نوٹ کیا ہے کہ جب وہ کسی بات کو سمجھ نہیں پاتے تو ہنس پڑتے ہیں۔ اور اگر بات بالکل سمجھ میں آجائے تب بھی ہنس پڑتے ہیں۔ یعنی دو بالکل مختلف اور ایک دوسرے کے برعکس امور کا ایک سا ردعمل! مگر حیرت کیسی کہ ''جینیس‘‘ ایسے ہی تو ہوتے ہیں!
ہم نے ہنسنے کا سبب پوچھا تو مرزا نے اہل جہاں کی لاعلمی اور حماقت نوازی کو ''خراجِ تحسین‘‘ پیش کرتے ہوئے کہا: ''آگ سے علاج کون سا نیا طریقہ ہے؟ ہمارے ہاں تو یہ طریقہ ایک زمانے سے رائج ہے اور بہت مقبول ہے۔ اور اگر پورے خطے پر نظر ڈالیں تو یہ طریق ہزاروں سال سے رائج چلا آرہا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے جو آگ ساری دنیا میں چیزوں کو بھسم کرتی اور مسائل بڑھاتی ہے وہ ہمارے ہاں بہت سی مشکلات کو یوں دور کرتی ہے جیسے کبھی ان کا وجود رہا ہی نہ ہو۔‘‘
ہم نے حیران ہوکر وضاحت چاہی تو مرزا نے خالص تجزیہ کارانہ ڈھنگ سے سلسلۂ کلام آگے بڑھایا: ''میاں! ہم نے ہمیشہ آگ ہی سے کامیاب علاج کیا ہے۔ اب یہی دیکھ لو کہ بہت سے لوگ جی بھر کے کرپشن کرتے ہیں اور جب اپنی گردن کو محاسبے کے شکنجے میں کستی ہوئی محسوس کرتے ہیں تو آگ کے دامن میں پناہ لیتے ہیں۔ جب بھی کسی سے حساب طلب کرنے کا وقت آتا ہے وہ اپنی تمام کارستانیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ان پر آگ کا پردہ ڈال دیتا ہے۔ جیسے ہی کسی شخص یا ادارے سے حساب کتاب طلب کیا جاتا ہے اچانک خبر آتی ہے کہ شارٹ سرکٹ سے آگ بھڑک اٹھی اور سب کچھ خاکستر ہوگیا۔ فائلوں کا ایک ڈھیر راکھ کا ڈھیر بنتا ہے اور راکھ کے اس ڈھیر میں کرپشن کے تمام فسانے دفن ہوکر رہ جاتے ہیں۔ گویا
نہ مدعی نہ شہادت، حساب پاک ہوا!
اور جب کسی اور پر بس نہیں چلتا تو کمزوروں پر آگ کا حربہ آزماکر دل کو تسلی دی جاتی ہے، اپنی ڈھارس بندھائی جاتی ہے۔ بہو مرضی کا جہیز نہ لائے تو آگ میں جھونک دو۔ گھریلو جھگڑا قابل قبول انداز سے یا اپنی مرضی کے مطابق نمٹتا دکھائی نہ دیتا ہو تو فریقِ ثانی کو آگ لگادو۔ کوئی مخالف اگر بات نہ مانتا ہو یا بے جا شرائط تسلیم نہ کرتا ہو تو آگ میں ڈال دو۔ اگر کوئی لڑکی بات ماننے کو تیار نہ ہو تو کوئی بات نہیں، تیزاب ڈال کر چہرہ جلادو۔ غور کرو کہ آگ نے ہر مشکل مرحلے میں ہماری مدد کی ہے!‘‘ ہم نے مرزا کے اشہبِ کلام کو لگام دینے کی کوشش کی۔ ہمارا استدلال یہ تھا کہ آگ سے علاج کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ تو معاملات کو جڑ سے ختم کرنے والی بات ہوئی۔ ایسی حالت میں تو خرابیاں دو چند ہوجاتی ہیں۔
مرزا نے ہماری بات ان سنی کرتے ہوئے کہا: ''بالکل نہیں۔ آگ نے ہمارے لیے ہمیشہ نجات دہندہ کا کام کیا ہے۔ یہی آگ ہے جو پیار میں جلنے والوں کو راکھ کرکے ابدی سکون عطا کرتی ہے اور یہی آگ ہے جس میں جلنے والوں کو چین کہاں، آرام کہاں؟ بات ہے سمجھ کی۔ جو یہ بھید پاگیا وہ گویا مراد پاگیا۔ ہمارے شعراء نے آگ کے بہت سے فوائد گِنوائے ہیں مگر ہم ہیں کہ غور ہی نہیں کرتے۔ غالبؔ نے کہا ہے ؎
جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے!
اور ظہیرؔ کاشمیری نے خوب کہا ہے ؎
برقِ زمانہ دور تھی لیکن مشعلِ خانہ دور نہ تھی
ہم تو ظہیرؔ! اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے
یعنی جل مرنے کے لیے زیادہ دور جانا پڑا نہ کسی کا احسان لینا پڑا۔ دیکھو، جلنے کا عمل کس قدر خوبصورتی اور آسانی سے ہر جھنجٹ سے نجات دلا دیتا ہے۔ پاک چین دوستی کا زمانہ ہے۔ ہم چین کی ہر بات پر آمنّا و صدقنا کہنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ مگر بھئی، یہ آگ سے علاج والا معاملہ کچھ چین کا خاصہ نہیں۔ ہم صدیوں سے آگ کو اپنا معالج بناتے اور مانتے آئے ہیں۔ اب یہی دیکھو کہ ہزاروں برس سے ہندو معاشرے میں بیوہ کی زندگی جانور سے بدتر رہی ہے۔ قدیم ادوار میں اس کا ایک علاج یہ تھا کہ بیوہ ستی ہوجائے یعنی شوہر کے ساتھ چِتا میں جل مرے! تنگ نظر معاشرے میں بیوہ کے دُکھوں کا اِس سے اچھا علاج بھلا کیا ہوسکتا تھا؟‘‘
مرزا کے استدلال سے متفق ہونے کے سِوا چارہ نہ تھا، وگرنہ ممکن تھا وہ بحث و تمحیص کی آگ اور بھڑکاکر ہمارا بھی حتمی علاج کر ڈالتے!