انسان کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے اس حوالے سے سوچ سوچ کر مفکرین تھک ہار گئے مگر انسان نے سُدھرنے کا نام نہیں لیا۔ ہزاروں سال سے مختلف امور پر سوچنے والوں نے عام انسانوں سے کہا ہے کہ اگر بہتر زندگی بسر کرنی ہے تو اپنے وجود کا احساس پوری شدت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ جب تک انسان اپنے وجود کو اہمیت نہیں دیتا، اس پر یہ کائنات بھی منکشف نہیں ہوتی۔ یہی سبب ہے کہ ہر دور کے فلسفیوں اور دانشوروں نے انسان کو سوچنے اور غور کرنے کی تحریک دی‘ بالخصوص اپنے وجود سے متعلق سوچنے کی۔
جو کچھ فلسفیوں اور دانشوروں کی ہزاروں سال کی مساعی سے نہ ہوسکا وہ ایک چھوٹی سی ڈیوائس نے کر دکھایا۔ آج کے انسان کو اپنے وجود کا ایسی شدت سے احساس ہے کہ اب تو اس کے سامنے پوری دنیا، بلکہ کائنات ہیچ دکھائی دے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آج کے انسان نے اپنے سوا کسی بھی چیز کو اہمیت دینے کی قسم کھالی ہے۔
ہم جس چھوٹی سی ڈیوائس کی بات کر رہے ہیں وہ موبائل فون ہے جس میں کیمرا بھی ہے۔ موبائل فون اور بالخصوص کیمرے والے موبائل فون نے ویسے تو خیر اتنی بیماریوں کو جنم دیا ہے کہ دنیا بھر کے ڈاکٹرز اور ماہرین نفسیات مل کر بھی ان کا تدارک نہیں کرسکتے مگر ایک بیماری نے ''اللہ دے اور بندہ لے‘‘ والی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اور یہ کیفیت دن بہ دن شدت ہی اختیار کرتی جارہی ہے۔ ہم سیلفی کی بات کر رہے ہیں۔
اکیسویں صدی کا انسان کائنات کی عجیب ترین مخلوق ہے۔ ماچس کی جلتی ہوئی تیلی دکھانے سے جس طور بارود کا ڈھیر پھٹ پڑتا ہے بالکل اسی طور کوئی رجحان اچانک نمودار ہوتا ہے اور ہر شے پر چھا جاتا ہے۔ اور جب تک وہ رجحان چھایا رہتا ہے تب تک کچھ اور نہیں سُوجھتا۔ سیلفی کے رجحان ہی کو لیجیے۔ کئی برس سے دنیا کی حالت یہ ہے کہ ہر طرف سیلفیوں کی بہار ہے۔ جسے دیکھیے وہ سیلفی کے بخار میں مبتلا ہے۔ پل پل سیلفیاں، قدم قدم سیلفیاں، بات بے بات سیفلیاں! انسان سیلفیوں کے جال میں ایسا پھنسا ہے کہ اب نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ زندگی کا سارا کاروبار اب سیلفی کے بازار میں مرتکز ہوکر رہ گیا ہے۔
آج کا انسان صبح آنکھ کھلنے سے رات کو آنکھ لگنے تک اپنے ذہن میں سیلفی کا بٹن ہر آن ON رکھتا ہے۔ اور سیلفیاں لیتے رہنے کے چکر میں اس کے وجود کے بہت سے کام کے بٹن بیشتر وقت OFF رہتے ہیں۔ مگر کون ہے جسے کچھ پروا ہو۔
انسان کا یہی تو سب سے بڑا کمال ہے کہ اگر کوئی ٹرینڈ چل پڑے تو سیلابی ریلے کی طرح سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ کوئی کتنا ہی (اپنا) سر پھوڑے اور کتنا ہی سمجھائے، اپنے اور دوسروں کے مفاد کا کچھ خیال نہیں رہتا ؎
لوگ سمجھاتے رہ گئے دل کو
ہوش جاتے رہے تو ہوش آیا!
سیلفی لینے، بلکہ لیتے رہنے کا بخار اکیسویں صدی کے پندرہویں سال کے انسان پر ایسا چڑھا ہوا ہے کہ دوسری تمام ذہنی بیماریاں فی الحال بارہویں کھلاڑی کی طرح میدان سے باہر بیٹھی سکون کا سانس لے رہی ہیں۔ بات بات پر سیلفی لینے کا ٹرینڈ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے ٹرینڈز کا دی اینڈ کرنے پر تُلتا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو اس ٹرینڈی، بیماری یا عذاب میں مبتلا ہیں وہ بھی حیران ہیں کہ آخر انہیں ہوا کیا ہے۔ دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ کوئی سیلفی پر سیلفی لے رہا ہے اور تھوڑے تھوڑے وقفے سے سوشل میڈیا پر وہ سیلفیاں اپ لوڈ بھی کر رہا ہے مگر خود اسے اس عارضے کی شدت کا احساس نہیں۔ آج کے انسان کو مختلف ذہنی عوارض کے گڑھوں میں دھکیلنے والوں کا کمال یہ ہے کہ ان کے جال میں پھنسنے والوں کو نہ صرف یہ کہ جال میں پھنسنا برا نہیں لگتا بلکہ بیشتر کیسز میں تو وہ زیرِ دام آنے پر تفاخر کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں!
بات ہو رہی تھی فلسفیوں اور دانشوروں کی جو ہر دور کے انسان کو اپنے ہونے کے احساس سے سرشار کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ ان کی کوششیں بہت دیر سے رنگ لائی ہیں۔ کاش گزرے ہوئے زمانوں کے مفکر آج ہوتے تو یہ دیکھ کر کس قدر خوش ہوتے کہ اکیسویں صدی کا انسان اپنے ''اسٹیٹس‘‘ کے بارے میں اس قدر حسّاس ہے کہ دن میں دس بار سوشل میڈیا پر جاکر اسٹیٹس کو اپ ڈیٹ کرتا ہے۔ یہ دوڑ ایسی ہے کہ پیچھے رہ جانے والے خود کو مردہ تصور کرنے لگتے ہیں! صبح اٹھ کر منہ ہاتھ دھوئیے تو اسٹیٹس اپ ڈیٹ۔ ناشتہ کیجیے تو اسٹیٹس اپ ڈیٹ۔ دن کی پہلی فون کال ریسیو کرتے وقت اسٹیٹس اپ ڈیٹ۔ رات کی آخری کال ریسیو کیجیے تو اسٹیٹس اپ ڈیٹ۔ کوئی ملنے آجائے تو اسی وقت اسٹیٹس اپ ڈیٹ۔ ایک ہی دن دو شادیوں میں شرکت کی دعوت ملی ہو تو میاں نکاح میں جاتے ہیں اور بیگم ولیمے میں۔ اتنی دیر کی ''جدائی‘‘ کے حوالے سے بھی اسٹیٹس اپ ڈیٹ۔ فیس بک پر کسی کے پیج کا وزٹ کیجیے تو اتنی سی دیر کو بچھڑنے پر بھی ''فیلنگ سیڈ‘‘ کے کمنٹ کے ساتھ اسٹیٹس اپ ڈیٹ ملتا ہے!
ماہرین نے پھر دیر کردی ہے۔ امریکی شہر شکاگو کے ماہرین نفسیات نے چند تجزیوں کی روشنی میں ''انکشاف‘‘ کیا ہے کہ لوگ سیلفی لینے کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اس رجحان کو اب محض خبط قرار دیا جاسکتا ہے! دن میں دو تین بار سیلفی لینے کا زمانہ کب کا گزر چکا۔ اب تو لوگ دن بھر سیلفیاں لے کر اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں۔ اسٹیٹس بلند ہو نہ ہو، اپ ڈیٹیڈ ضرور رہنا چاہیے!
نفسیات کے ماہرین سیلفی لینے کو مرض قرار دے رہے ہیں مگر یہ کوئی نیا معاملہ تو نہیں۔ سیلفی لینا گھوم پھر کر خود پسندی کے زمرے میں آتا ہے۔ اور کس دور کا انسان خود پسند نہیں تھا؟ ہر دور خود پسندوں سے بھرا رہا ہے۔ نرگسیت نے ہر دور کے انسان کو اپنے آغوش میں لے کر اس سے بہت کچھ چھین لیا ہے۔ اور آج بھی یہی ہو رہا ہے۔
یہی اِسی دور کا بھی خاصہ ہے کہ پہلے کسی ٹرینڈ کو خوب بڑھاوا دیا جاتا ہے، بانس پر چڑھایا جاتا ہے اور جب معاملات خطرناک شکل اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں تو تدارک کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ ویسے تو خیر سیلفی لیتے رہنے کا رجحان ایک لحاظ سے قاتل ہی ہے کہ اس کے ہاتھوں انسان کی بہت سی صلاحیتیں دم توڑتی جاتی ہیں۔ اور وقت تو خیر ہر وقت قتل ہوتا رہتا ہے۔ مگر اِسے کیا کہیے کہ سیلفی لینے کے چکر میں دنیا بھر میں لوگ ... اور بالخصوص نوجوان موت کے منہ میں بھی چلے جاتے ہیں۔ ایسے کئی کیسز سامنے آچکے ہیں کہ کوئی چھت پر چڑھا اور سیلفی لینے کی دُھن میں ایسا مگن ہوا کہ اُسے اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ کب وہ کھسکتا ہوں چھت کے کنارے پر پہنچ گیا۔ اور اِس کے بعد؟ موت ... اور کیا!
سیلفی کے ہاتھوں انسان میں در آنے والی بے حِسی کا عالم یہ ہے کہ کہیں حادثہ ہوجائے تو لوگ زخمی ہونے والوں کو اسپتال پہنچانے کی کوشش سے پہلے سیلفیاں لے رہے ہوتے ہیں! بہت سے لوگ سیلفی لینے کے معاملے میں اتنے سفّاک ہوتے ہیں کہ وہ موقع کی نزاکت کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان کی اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور اسٹیٹس جلد از جلد اپ ڈیٹ کردیا جائے تاکہ جاننے والوں یا رشتہ داروں میں کوئی اور بازی نہ لے جائے! اور یوں بازی لے جانے کی دُھن لوگ ہر بازی ہارتے جارہے ہیں۔ اور جناب! ہر بازی ہار جانا بھی کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ کسی بھی بازی کے ہارنے پر شکست کا احساس بھی بہت دور تک دکھائی نہیں دے رہا! سیلفی کے رجحان نے تو ہمیں کہیں کا نہیں رہنے دیا ؎
اب دیکھیے کیا حال ہمارا ہو سَحر تک
بھڑکی ہوئی اِک آگ سی ہے دِل سے جگر تک!