ایک بات تو طے ہے۔ کوئی اور چیز ہمیں بخش دے تو بخش دے، تحقیق کے بارے میں بلاخوفِ تردید یہ خدشہ ظاہر کر سکتے ہیں کہ یہ کسی دن ہماری جان لے کر دم لے گی۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے، کسی نہ کسی موضوع پر نرالے انداز کی تحقیق سامنے آتی رہی ہے اور ہماری پریشانی میں اضافہ فرماتی رہی ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے لیے روزمرہ افعال یعنی معمولات اور مشاغل‘ دونوں ہی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا اور پھر اس پر قائم رہنا انتہائی دشوار ہوتا گیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحقیق کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور ہم مزید پریشانی سے دوچار ہوتے جا رہے ہیں۔
اب یہی دیکھیے کہ آئے دن کھانے پینے کی عادات کے بارے میں ایسے نرالے نکات بیان کیے جاتے ہیں کہ ڈھنگ سے کچھ کھانا دشوار، بلکہ جان پر عذاب ہو جاتا ہے۔ تیل والی چیز کھائیے تو کہا جاتا ہے کہ تیل نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اگر کم تیل والی یا بغیر تیل کی اشیا کھائی جائیں تو ارشاد ہوتا ہے کہ جسم میں کچھ تیل تو جائے تاکہ تَری برقرار رہے! نمک زیادہ کھائیے تو مصیبت، کم کھائیے تو مصیبت۔ کبھی میٹھا کھانے کو جی چاہے تو اشیائے خورونوش پر دادِ تحقیق دینے والے ڈراتے ہیں کہ میٹھا زیادہ کھانے سے فلاں فلاں بیماریاں جی کا روگ ہو جاتی ہیں۔ ہم تو ایسی باتیں کرنے والوں کو جی کا روگ سمجھتے ہیں! یہ بھی کوئی بات ہے کہ کسی کو ڈھنگ سے کھانے بھی نہ دیا جائے، طرح طرح کے وسوسے دل میں ڈال کر اشیائے خورونوش سے ہی متنفّر کر دیا جائے!
ہم ایک زمانے سے سنتے آ رہے ہیں کہ جو سوتا ہے‘ وہ کھوتا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ اس کہاوت میں کھوتا پنجابی والا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم نے کبھی اس کہاوت کو اہمیت نہیں دی کیونکہ گدھے بے وقوف ہوتے ہیں جبکہ سونے والوں کو ہم نے عقل مند پایا ہے۔ جاگتے رہنے والوں کو سو طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو سو گیا، سمجھ لیجیے وہ سو جھمیلوں سے چھوٹ گیا۔ بعد میں کسی نے بتایا کہ اس کہاوت کے ذریعے زیادہ سونے والوں کو وعید سنائی گئی ہے‘ یعنی نیند میں ڈوبے رہنے والے بہت کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔ کھونے والی بات سے ہم نے اتفاق کیا کیونکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جب بھی کوئی دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوکر گہری نیند سو رہا ہوتا ہے، اُس کی چیزیں لوگ لے اُڑتے ہیں! یہ بھی ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ کھونے سے یہاں کچھ اور مُراد ہے۔ ہماری سمجھ میں یہ کہاوتیں اور محاورے آج تک نہیں آئے۔ ان میں الفاظ کا وہ مطلب نہیں ہوتا جو دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔
موٹاپے اور نیند کی طرح دماغ بھی تحقیق کرنے والوں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ اس معاملے میں ''ایک دماغ اور سو افسانے‘‘ والی بات بھی صادق آتی ہے۔ دنیا بھر میں دماغ پر جتنی تحقیق کی گئی‘ اتنی اگر خوراک بڑھانے کے طریقوں پر کی جاتی تو یقین کیجیے‘ آج ہر طرف غذائی اجناس کے ڈھیر لگے ہوتے‘ مگر محققین کو دماغ کی دنیا میں گھومنے پھرنے سے فرصت نصیب ہو تو کچھ سوچیں ناں۔ جس دماغ کو زیادہ کام اور تھکن سے بچانے کے لیے انسان سو جتن کرتا ہے‘ اسی دماغ کو زیادہ سے زیادہ تھکن سے دوچار کرنے کے طریقے سوچنے پر عمریں لگا دی جاتی ہیں۔ جو لوگ دماغ کو اللہ کی امانت سمجھ کر زیادہ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں‘ انہیں ایسا نہ کرنے پر ایسی ایسی وعیدیں سنائی جاتی ہیں کہ وہ گھبرا کر کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا کر بیٹھتے ہیں‘ اور پھر اس کے نتائج بھگتتے ہوئے محققین کو کوستے رہتے ہیں۔ دماغ کو ایک الگ تھلگ، انوکھی کائنات ثابت کرنے پر عمریں صرف کرنے والوں کو اب کون سمجھائے کہ دماغ استعمال کرنے کا معاملہ بھی شادی کے لڈو جیسا ہے‘ یعنی جو کھائے وہ پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔
ہم نے جب بھی محققین کی باتوں میں آکر اپنا دماغ استعمال کرنے کے بارے میں سوچا، اپنے ماحول پر ایک نظر ڈالتے ہی ارادہ ملتوی کرتے بنی۔ دماغ استعمال کرنے والوں کا ہم نے جو حشر دیکھا‘ اس کی بنیاد پر تو اب ہم ایسا کرنے سے تقریباً مکمل طور پر تائب ہو چکے ہیں۔ بس اتنا ہے کہ کالم لکھتے وقت دماغ کو تھوڑی سی زحمت دے لیتے ہیں، باقی وقت اس کے لیے آرام ہی آرام ہے۔
محققین کی طرف سے آنے والی تازہ ترین وعید یہ ہے کہ کم سونے سے دماغ سکڑتا ہے بلکہ سکڑتا ہی چلا جاتا ہے۔ سنگاپور میں دماغ پر دادِ تحقیق دینے والوں نے بتایا ہے کہ کم سونے
والوں کا دماغ تیزی سے سکڑتا ہے اور وہ رفتہ رفتہ بنیادی کام کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوتے جاتے ہیں۔ محققین کہتے ہیں کہ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ دماغ ویسے ہی سکڑتا جاتا ہے۔ ایسے میں نیند کی کمی اضافی تازیانے کا کام کرتی ہے یعنی دماغ کے سکڑنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ یہ خبر پڑھ کر ہم کچھ دیر کے لیے سکتے میں رہے کیونکہ نیند کی کمی ہم سمیت اخبارات کی نائٹ شفٹ میں کام کرنے والے تمام صحافیوں کا بنیادی مسئلہ ہے۔ عموماً کوشش کرنے پر بھی نیند پوری نہیں ہو پاتی۔ تو کیا ہمارے دماغ سکڑ رہے ہیں؟
ہم نے اس حوالے سے جب اپنے ایڈیٹر احمد حسن صاحب سے بات کی تو وہ کہنے لگے: ''میاں، ہمارے تمہارے دماغ نیند کی کمی سے کم اور زمانے بھر کی الٹی سیدھی خبریں بھگتنے سے زیادہ سکڑتے ہیں! محققین کی ہر بات تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ نیند کی کمی سے دماغ اگر واقعی سکڑنے لگتا ہے تو یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ صحافیوں اور بالخصوص نائٹ شفٹ کرنے والے عامل صحافیوں کی کھوپڑی میں پایا جانے والا دماغ ٹیبل ٹینس کی گیند سے بڑا نہیں ہو سکتا!‘‘
احمد حسن صاحب نے جو کچھ کہا‘ اس نے ہمیں مزید خوفزدہ کر دیا۔ مرزا تنقید بیگ کو جدید ترین تحقیق کے نتائج بتا کر ہم ان سے بھی ماہرانہ رائے لیتے رہتے ہیں۔ جب دماغ اور ٹیبل ٹینس کی گیند والی بات انہیں بتائی تو انہوں نے فوراً تائیدی انداز سے سَر ہلاتے ہوئے کہا: ''سچی بات تو یہ ہے کہ تمہارے کالم پڑھ کر ہمیں بارہا یہ خیال آیا کہ یہ ساری بے سَر و پا باتیں کسی ایسے ہی دماغ کا نتیجہ ہو سکتی ہیں‘ جو خطرناک حد تک سکڑ گیا ہو! مگر ہم یہ بات تم سے کہتے ہچکچاتے تھے کیونکہ دل آزاری مقصود نہ تھی‘‘۔
ہم نے عرض کیا: اگر محققین کی بات درست تسلیم کرلی جائے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ سونے والوں کا دماغ تیزی سے پھیلتا ہے؟ مرزا نے چند لمحوں کے توقف کے بعد کہا: ''ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہوتا ہو کیونکہ ہم نے جتنے بھی بے فکرے اور زیادہ سونے والے دیکھے ہیں‘ ان کے دماگ میں بے حساب وسعت پائی جاتی ہے۔ وہ دنیا بھر کی باتیں کرتے رہتے ہیں اور ذرا سی بات کا بتنگڑ بنانے میں یدِ طُولیٰ رکھتے ہیں۔ اور یوں بھی زیادہ سونے کا خیال اُسی دماغ میں سما سکتا ہے جس میں وسعت پائی جاتی ہو۔ سکڑے ہوئے دماغ میں بھرپور نیند کا خیال گھس ہی نہیں پاتا‘‘۔
مرزا کی بات سن کر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ہم جیسے نائٹ شفٹ کا عذاب بھگتنے والوں کے دماغ کیا سکڑتے ہی چلے جائیں گے؟ ایسا ہوا تو زندگی کیونکر گزرے گی۔ یہ خدشہ مرزا کے گوش گزار کیا تو بولے: ''تمہیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ جب دماغ پورا تھا یعنی سکڑنے کا عمل شروع نہیں ہوا تھا تب بھی تم اس سے کون سا کام لیتے تھے! اور جب یہ سکڑتے سکڑتے ٹیبل ٹینس کی گیند جتنا رہ جائے گا تب تمہیں کون سا فرق پڑ جائے گا؟ بلکہ تب شاید تمہاری کالم نگاری میں کچھ جان پڑ جائے!‘‘ اس سے پہلے کہ مرزا اپنے سکڑے ہوئے دماغ کو مزید حرکت دیتے، ہم نے جھٹ اپنا دماغ استعمال کیا یعنی وہاں سے کھسک لینے میں عافیت جانی۔