"MIK" (space) message & send to 7575

کچری پاؤڈر

علامہ اقبالؔ نے اپنی نظم ''پنجابی مسلمان‘‘ میں خطۂ پنجاب کے عمومی مذہبی رجحان کی طرف اشارا کرتے ہوئے کہا تھا ؎ 
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیّاد لگادے 
یہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد 
اگر اقبالؔ آج ہوتے تو اپنی رائے سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتے۔ صرف پنجاب کے مسلمانوں پر ہی کیا موقوف ہے، اب تو سرزمین پاک پر بسنے والے بیشتر مسلمانوں کو شاخِ نشیمن سے اتارنے کے لیے تاویل کے پھندے سے کہیں بڑھ کر ہے لذتِ کام و دہن کے اہتمام کا پھندا! سیخ پر بُھنی ہوئی بوٹیاں اور تِکّے دیکھ کر ہم آن کی آن میں شاخِ نشیمن سے اتر آتے ہیں اور پھر نشیمن کو تادیر بُھولے رہتے ہیں۔ 
عید الاضحی کے پہلے دن عارف انصاری کے ہاں جانا ہوا۔ رات ہوچکی تھی۔ دن میں بہت کچھ کھایا پیا تھا مگر معاملہ وہی تھا کہ پیٹ تو بھر جاتا ہے، نیت نہیں بھرتی۔ عارف محض دوست نہیں، ''عارف‘‘ یعنی ''جاننے والے‘‘ بھی ہیں اس لیے ہماری نیت کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے بینش انصاری صاحبہ یعنی اپنی اہلیہ سے کچھ کھسر پھسر کی۔ کوئی اور موقع ہوتا تو ہم چوکنّے ہو جاتے اور کچھ سُن گُن لینے کی کوشش کرتے مگر چونکہ عید الاضحی کا پہلا دن تھا اور اہلیہ بھی ہمارے ساتھ تھیں اس لیے ہم سمجھ گئے کہ بینش سے کچھ اہتمام کرنے کو کہا جارہا ہے۔ بس، یہ بھانپتے ہی ہم چپ رہے، ہم ہنس دیئے! 
ذرا سی دیر میں ہمارا ''خدشہ‘‘ انتہائی درست ثابت ہوا۔ بینش کچن سے برآمد ہوئیں تو دونوں ہاتھوں میں وہ پھندے تھے جن میں پھنسنے کے لیے شاخِ نشیمن سے فوراً اتر آئے۔ ایک پلیٹ میں ''غریب و سادہ و رنگیں‘‘ پلاؤ تھا او دوسری میں کم جلی اور خوب بُھنی ہوئی بوٹیاں۔ بُھنی ہوئی بوٹیوں کے پہلو بہ پہلو جلتی پر تیل چھڑکنے کے لیے گاڑھا رائتہ اور اُس سے گاڑھا کیچ اپ بھی تھا۔ 
عارف خیر سے ہمارے مزاج آشنا ہیں اس لیے خالصاً ذلیل کرنے کی نیت سے کہا: ''کھائیے گا، شرمائیے گا مت۔‘‘ یہ جملہ کچھ اس ادا سے ادا کیا گیا کہ ہمارے لیے انتقاماً بوٹیوں پر ٹوٹ پڑنے کے سِوا چارہ نہ رہا۔ ہم دوستوں سے بالعموم اِسی نوعیت کا انتقام لیا کرتے ہیں۔ اور وہ بھی چونکہ ہمارے ہی دوست ہیں اس لیے ہمارے اِس طرح کے انتقام سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ 
عارف میں ایک اچھی عادت یہ ہے کہ دوست گھر آئیں تو کھانے پینے کا اہتمام خوب کرتے ہیں مگر جس طور گاڑی میں اصل گدھے کے ساتھ چھوٹے سے، کمزور گدھے کی شکل میں ''پخ‘‘ لگی ہوتی ہے بالکل اسی طرح ان کی اِس اچھی عادت کے پہلو بہ پہلو بہت ہی بری عادت یہ ہے کہ کھاتے ہوئے بندے کو مختلف بہانوں سے ٹوک کر، کبھی کبھی طنز فرماکر ''آؤٹ آف فوکس‘‘ کرنے کی کوشش کرتے ہیں! مگر ہم بھی وہ نہیں کہ باتوں میں آ جائیں اور چلتا ہوا ہاتھ روک دیں۔ ہمیں بُھنی ہوئی بوٹیوں کی خبر لیتے دیکھا تو عارف سے رہا نہ گیا اور بولے : ''ذرا دھیان سے کھائیے گا۔ آج کل گدھے کے گوشت کا بھی فیشن چل رہا ہے!‘‘ ہم نے بھی ترک زبان سے عدم واقفیت کے باوجود ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ جب آپ ہمارے سامنے اور سلامت ہیں تو گدھے کے گوشت کا کیا سوچنا! 
خوش فہمی کی انتہا ملاحظہ فرمائیے، ہم نے خواہ مخواہ سوچا کہ یہ بات سن کر عارف تھوڑی سی شرمندگی محسوس کریں گے! ہر بار کی طرح اس بار بھی انہوں نے ''اولو العزمی‘‘ اور ''ثابت قدمی‘‘ کا شاندار مظاہرہ کیا اور ہمارے کرارے جوابی وار کو ہنس کر یعنی پوری ڈِھٹائی کے ساتھ جھیل گئے! ہمیں بہرحال یہ دیکھ کر ایک بار پھر خوشی ہوئی کہ ہمارے احباب میں کوئی تو ہے جو اپنی بات اور مزاج پر قائم رہتا ہے! 
معاملہ کھانے پینے کا ہو پہننے اوڑھنے کا، ہم نے عارف کی کسی بھی بات کا کبھی برا نہیں مانا۔ معاملہ وسیع القلب ہونے کا نہیں بلکہ مزاج آشنا ہونے کا ہے۔ عارف فکشن رائٹر ہیں اور ڈائجسٹوں کے لیے لکھتے رہے ہیں۔ ہر بات میں قصے کہانی کا رنگ ڈالنا یعنی رنگ میں بھنگ ڈالنا ان کی پرانی اور بہت حد تک پتھر پر لکیر جیسی پختہ عادت ہے! 
بہت ہوچکا عارف کا تذکرہ۔ آئیے، دوبارہ بُھنی ہوئی بوٹیوں کی طرف چلتے ہیں۔ 
بوٹیاں بہت لذیذ تھیں۔ اگر کم لذیذ بھی ہوتیں تو ہم کب ان میں کیڑے نکالنے والے تھے۔ ع 
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے 
خیر، بوٹیوں کا مصالحہ بہت متوازن اور عمدہ تھا۔ گوشت اچھی طرح گلا ہوا تھا یعنی اس قدر نرم تھا کہ چبانے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ ہم نے ''وجہہ تسمیہ‘‘ یعنی بوٹیوں کے اچھی طرح گلے ہوئے ہونے کا سبب جاننا چاہا تو بتایا گیا کہ کچری پاؤڈر ڈالا گیا ہے تاکہ گوشت تیزی سے گل جائے اور پکانے میں آسانی ہو۔ 
ہمیں یونہی یعنی مقتضائے طبیعت کے تحت خیال آیا کہ خواتین کا بار بار شاپنگ کی فرمائش کرنا اور شاپنگ مالز کے چکر کاٹنے پر تُل جانا بھی بالکل کچری پاؤڈر جیسا ہے یعنی بے چارے شوہروں کو گلا ڈالتا ہے، بلکہ پلپلا کرکے دم لیتا ہے! 
پپیتیکی خاصیت یہ ہے کہ گوشت کو گلا دیتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پپیتا اپنے آپ کو بھی نہیں بخشتا یعنی ہمارے ہاتھ میں آنے تک خاصا گل چکا ہوتا ہے! سُکھائے ہوئے کچے پپیتیکو پیس کر کچری پاؤڈر بنایا جاتا ہے۔ جب بھی اہلیہ نے ہمیں پپیتا کھانے کا مشورہ دیا ہے، ہم نے جواباً عرض کیا ہے کہ آپ کے ہوتے ہوئے پپیتیکی کیا ضرورت ہے! ہمیں یقین ہے کہ وہ دن زیادہ دور نہیں جب ہم آپ کی معیت میںپپیتے کے بغیر ہی گل چکے ہوں گے! 
فکشن رائٹرز اور بالخصوص ڈائجسٹوں میں چند صفحات کی کہانیاں لکھنے والے عموماً ہر معاملے اور ہر بات کی کوکھ سے کہانی برآمد کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ عارف سے دوستی کا اتنا اثر ضرور ہوا ہے کہ ہم میں بھی اب ہر معاملے کو کالم کے موضوع کے طور پر برتنے کی عادت پختہ ہوچکی ہے۔ کچری پاؤڈر کا ذکر چھڑا تو ہمارا ذہن فوراً کالم کے تانے بانے بُننے لگا۔ عارف بھانپ گئے۔ کیسے نہ بھانپتے؟ سیدھی سی بات ہے عقل مند را عقل مند می شناسد! کہنے لگے : ''من ہی من کالم کا خاکہ تیار کرکے ہماری بیگم کی محنت ضائع مت کیجیے۔ کالم لکھ کر بوٹیوں کو بعد میں پامال کیجیے گا، پہلے اِن سے لذّت تو کشید کرلیجیے!‘‘ 
ان کی بات سن کر ہم حیران رہ گئے۔ ایسا کمال تو عارف کبھی کبھار ہی دکھاتے ہیں یعنی بُھولے بھٹکے ہی کوئی کام کی بات کہہ پاتے ہیں! ان کے کہے پر عمل کرتے ہوئے ہم دوبارہ بوٹیوں کی لذّت کے سمندر میں غوطہ زن ہوگئے۔ 
بوٹیوں کو گلانے کے لیے تو کچری پاؤڈر استعمال کیا گیا۔ اور اتنی اچھی طرح بُھنی ہوئی ہونے کا راز؟ بینش نے بتایا کہ بوٹیاں چھوٹی ہوں تو تیزی سے گل جاتی ہیں اور انہیں بُھوننا آسان ہو جاتا ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ بوٹیوں کو چھوٹا کرنا تو محنت طلب کام ہوا۔ وہ بولیں : ''بالکل نہیں۔ میں نے اس کا بھی شارٹ کٹ تلاش کرلیا ہے۔‘‘ 
شارٹ کٹ؟ ہم نے حیران ہوکر وضاحت چاہی تو بولیں : ''بوٹے پر چُھری پھیرتے وقت شوہر کا تصور کیا جائے تو بوٹیاں خود بخود بنتی چلی جاتی ہیں!‘‘ 
ہمیں یہ سن کر تھوڑی سی خوشی ہوئی کہ چلیے، ہمارے کالم پڑھتے رہنے سے عارف کے ساتھ ساتھ بینش میں بھی حسِ مزاح قابل رشک حد تک پنپ گئی ہے مگر ہم نے جب ان کے چہرے پر جدی پشتی قسم کی سنجیدگی دیکھی تو سہم گئے! 
زیادہ سہمے رہنا بھی اچھا نہیں۔ انسان کو خوش گمان رہنا چاہیے۔ بینش کا سُجھایا ہوا ''طریق واردات‘‘ سن کر ہمارے ذہن میں جھپاکا سا ہوا کہ بہت سے بڑے مسائل کو ہم نے بوٹیوں کی طرح چھوٹا تو کرلیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے مسائل کا ڈھیر لگا ہے۔ اب اِن مسائل کو گلانے کے لیے کچری پاؤڈر کہاں سے لائیں؟ بُھوننے کا مرحلہ اِس کے بعد آئے گا۔ تب تک اپنی ہی آگ میں جلتے بُھنتے رہیے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں