"MIK" (space) message & send to 7575

ہم کون ہیں؟

سیاسی اور معاشرتی تجزیوں میں ایک سوال پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ یہ کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ یہ سوال بہت اہم ہے مگر اہم تر سوال یہ ہے کہ ہم کون ہیں، ہماری ماہیت کیا ہے اور یہ ہم کس مِٹّی سے بنے ہیں۔ 
خاکسار کے سوال پر حیرت ہو رہی ہے؟ 
خیر، حیران ہونے کی کچھ خاص ضرورت تو نہیں ہے۔ کبھی آپ نے اپنا اور اپنے ماحول کا جائزہ نہیں لیا؟ ہم جو کچھ کر رہے ہیں یعنی جس طرح کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس سے ہمارے بارے میں بہت کچھ بیان ہو جاتا ہے۔ مگر ہمیں اس کا پتا اس لیے نہیں چلتا کہ ہم ایسی باتوں پر توجہ دینے کے لیے اب تک تیار نہیں۔ 
بے حِسی، بے دِلی، بے حواسی، بے دماغی، بیزاری ... کون سی چیز ہے جو حد سے بڑھ نہیں گئی؟ معمولات میں عدم توجہ کا گراف اتنا بلند ہوچکا ہے کہ اب تو اپنے آپ پر بھی یقین نہیں آتا۔ کیا کوئی اتنا لاپروا ہوسکتا ہے کہ اپنے ہی وجود کو مکمل طور پر بھول جائے یا اپنے ماحول سے یکسر بے تعلق ہوکر زندگی بسر کرے؟ مگر کیا ستم ہے کہ ہمارے ساتھ ہمارے ہی ہاتھوں ایسا ہو رہا ہے اور دم بہ دم ہو رہا ہے۔ ؎ 
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا 
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا 
لوگ بے دھیانی اور لاپروائی کی زندگی اس قدر انہماک سے بسر کر رہے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ کام کوئی ہے نہیں اور وقت ہے کہ بچتا نہیں! خیالوں کی دنیا ہر دم آباد ہے اور عمل کی دنیا پر ویرانی کا راج ہے۔ ہر شخص پورے ماحول سے تعلق ترک کرکے اپنے آپ میں یوں گم ہے جیسے کئی نئی دنیا کا خاکہ تیار کر رہا ہو! زندگی یوں بسر کی جارہی ہے کہ صرف ضائع ہونے پر مائل ہے۔ ؎ 
اس کاروبارِ شوق کا انجام کچھ نہیں 
مصروفیت بہت ہے مگر کام کچھ نہیں! 
کئی مناظر ایسے ہیں جو ہماری بے ذہنی اور لاپروائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ایک منظر آپ نے بھی کئی بار دیکھا ہوگا اور بے ذہنی کی ''داد‘‘ دی ہوگی۔ بہت سی خواتین موٹر سائیکل پر اس قدر لاپروا ہوکر سفر کرتی ہیں کہ کپڑوں کا زیادہ دھیان نہیں رہتا۔ کبھی برقع چین میں لپٹ جاتا ہے اور کبھی دوپٹہ یا چادر۔ بیشتر خواتین کو اس کا خیال اس وقت آتا ہے جب لوگ توجہ دلاتے ہیں۔ 
ہر سال عید الاضحی پر قربانی کے جانوروں کے حوالے سے ہم جو طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں وہ ہماری ذہنی حالت سے دنیا کو روشناس کرانے کے لیے کافی ہے۔ اوٹ پٹانگ حرکتوں کے نتیجے میں ایسا ماحول پیدا ہوا ہے کہ سال بہ سال پستی کی بلندی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے! ہر سال کوئی نہ کوئی نیا ٹرینڈ متعارف کرایا جارہا ہے۔ 
اور تو اور، قربانی کے جانوروں کی منڈیوں کو بھی کچھ ایسا منفرد ٹچ دے دیا گیا ہے کہ عبرت پکڑنے والوں کے لیے یہ منڈیاں ہی کافی ہیں۔ سیلفی لینے، بلکہ لیتے رہنے کی بیماری پوری قوم کو ایسی لاحق ہوئی ہے کہ اب لوگ بات بے بات موبائل کیمرے سے سیلفیاں لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب کے عید الاضحی پر سیلفی اور کیٹ واک کا چلن اتنا رہا کہ ہمیں یقین ہے جانوروں کے لیے بھی ہنسی ضبط کرنا انتہائی دشوار ثابت ہوا ہوگا۔ جن کے دلوں میں شعائرِ اسلام کے تقدس کا کچھ خاص خیال نہیں ان بدبختوں نے اللہ کے ایک برگزیدہ نبی کی سُنّت کو بھی تماشا بنا ڈالا ہے اور اس پر ذرا سے بھی شرمندہ نہیں۔ 
فیس بک اور سوشل نیٹ ورکنگ کی دیگر مشہور سائٹس نے اچھے اچھوں کو پاگل کر ڈالا ہے۔ پاگل پن تو خیر پھر بھی سمجھ میں آنے والی بات ہے مگر سنگ دِلی اور سفّاکی! کوئی پھولوں کو آگ کی نذر کرتا ہے؟ آپ سوچیں گے ایسا تو دیوانے ہی کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کی سوچ درست ہے تو کیا ہمارے ماحول میں بسے ہوئے لوگ دیوانے ہیں؟ آپ کہیں گے یقیناً نہیں مگر ہم کہیں گے یقیناً ہاں۔ 
عجیب و غریب واقعات کی وڈیو بنانا اور ویب سائٹس پر اپ لوڈ کرنا انتہائی عام ہوگیا ہے۔ یہ تماشا دل پشوری کے نام پر جاری ہے۔ بچے اگر موبائل کیمرے کی مدد سے کوئی الل ٹپ وڈیو بنائیں تو بات کچھ سمجھ میں آتی ہے۔ مگر جب بڑے بھی بچپنا دکھانے پر اُتر آئیں تو؟ 
شعائرِ اسلام کے نام پر دین سے جو کھلواڑ کی جارہی ہے اسے دیکھ کر ہر غیرت مند مسلمان تاسّف کی موجوں میں بہنے لگا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ ہم آپ قربِ قیامت کے زمانے ہی میں جی رہے ہیں؟ بہت کچھ تلپٹ ہوچکا ہے اور جو تھوڑا بہت رہ گیا ہے اس کا بھی کچھ بھروسہ نہیں، کسی بھی وقت داغِ مفارقت دے سکتا ہے۔ جب عملاً سرد خانے میں ڈال دی جانے والی اقدار پر چار آنسو بہانے کی گھڑی آتی ہے تو سمجھ میں نہیں آتا ع 
کسے یاد رکّھوں، کسے بھول جاؤں! 
عید الاضحی کے دوسرے دن ایک وڈیو کلپ دیکھا تو چند لمحات کے لیے دِل و دماغ سُنّ ہوکر رہ گئے۔ چند لمحوں کے لیے ایسا لگا کہ روح کانپ رہی ہے۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا دیکھا ہے اور جو دیکھا ہے واقعی وہی دیکھا ہے۔ ایک نیوز چینل نے رات نو بجے کے مرکزی بلیٹن میں یہ وڈیو کلپ پیش کیا۔ منظر یہ تھا کہ ایک بڑا بیل کھونٹے سے بندھا ہوا ہے اور اس طور بندھا ہوا ہے کہ زیادہ حرکت نہیں کرسکتا۔ دھائی تین سال کا ایک بچہ لُوسن کی گڈّی تھامے بیل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ سہم کر رکتا ہے تو وڈیو بنانے والے کی آواز آتی ہے ... ہاں ہاں، آگے بڑھو۔ ڈرو مت۔ بچہ ڈرتے ڈرتے آگے بڑھ کر بیل کو لُوسن کی گڈّی کھلانے کی کوشش کرتا ہے مگر پھر رک جاتا ہے۔ ایک بار پھر وڈیو بنانے والے کی آواز آتی ہے ... ''ڈرو مت، آگے جاؤ۔‘‘ بچہ مزید آگے بڑھتا ہے اور لُوسن کی گڈّی آگے بڑھاتے ہی بیل کی رینج میں آ جاتا ہے! بیل اپنا سَر دُنبے کی طرح جھکاکر بچے کے سینے پر دے مارتا ہے، بچہ پیچھے گرتا ہے اور رونے لگتا ہے! اور ساتھ ہی وڈیو بنانے والی کی ہنسی سُنائی دیتی ہے!! ڈھائی تین سال کے بچے کے سینے پر بیل کی ٹکر اور وڈیو بنانے والے کی ہنسی! 
پھر وہی بات۔ ''ہم کہاں کھڑے ہیں‘‘ سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ہم کون ہیں۔ ہم اگر انسان ہیں تو ہم میں انسانیت بھی پائی جاتی ہوگی۔ اور اگر واقعی ایسا ہے کہ ہم میں کچھ انسانیت بچی ہے تو ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ وہ کس درجے کی ہے؟ ہم اپنا دل بہلانے اور محض ایک وڈیو کلپ بنانے کے لیے ڈھائی تین سال کے بچے کو چار پانچ من کے بیل کے آگے کردیتے ہیں! بہت محتاط الفاظ میں بھی یہ عمل بے غیرتی اور سفّاکی سے کم کیا کہلائے گا؟ اپنی دل بستگی کی خاطر اب کیا ہم دو تین سال کے بچوں کو بھی موت کے منہ میں دینے پر تُل جایا کریں گے؟ 
بے ذہنی، بے حِسی، بے دِلی، بے ضمیری، انسان کی بے توقیری اور صریح بے غیرتی کا یہ سفر کہاں ختم ہوگا، کوئی نہیں جانتا۔ انتہائے الم یہ ہے کہ بظاہر سبھی اس سفر کو جاری رکھنے کے موڈ میں ہیں۔ ایسے میں زوال کی کوئی حد آئے تو کیسے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں