جب کبھی لافانی مزاح کی تاریخ مرتب کی جائے گی، ازدواجی زندگی سے متعلق تحقیق پر مبنی مضامین اور رائے رامہ کے جائزوں پر مشتمل مواد سر فہرست رہے گا۔ ازدواجی زندگی کی کامیابی یا ناکامی کے اسباب سے متعلق تحقیق یا رائے عامہ کے جائزے پر مشتمل جو بھی خبر اخبارات میں شائع ہوتی ہے اسے لوگ عموماً غیر معمولی دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ کون ہے جو پریشان حالات میں دل بہلانے والی چیز نہیں پڑھنا چاہتا!
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یعنی الٹا سیدھا پڑھنا شروع کیا ہے تب سے ازدواجی زندگی سے متعلق اتنا کچھ پڑھا ہے کہ اگر اسی کو ترتیب دے لیں تو پی ایچ ڈی کا رنگ برنگا اور اپنی مثال آپ ٹائپ کا مقالہ تیار ہوجائے!
امریکی ماہر عمرانیات نک وولفنگر نے نیشنل سروے آف فیملی گروتھ کے اشتراک سے کیے جانے والے ایک مطالعے کے نتیجے میں بتایا ہے کہ شادی کرنے کی بہترین عمر 28 تا 30 سال ہے۔ (ہم نہیں جانتے کہ یہ کمال خبر بنانے والے کا ہے یا تحقیق کرنے والوں کا) ایک کام کا جملہ نک وولفنگر کے منہ سے یہ بھی ادا ہوا ہے کہ 28 تا 30 سال کی عمر میں کی جانے والی شادیاں طلاق سے زیادہ متاثر نہیں ہوتیں! غالباً یہ کہنا مقصود تھا کہ طلاق کا خطرہ خاصی نچلی سطح پر رہتا ہے۔ اس خبر میں آپ کی دلچسپی مزید بڑھانے کے لیے ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ محققین نے شادی شدہ جوڑوں تک محدود رہنا گوارا نہیں کیا بلکہ ریاضی کے اصولوں اور فارمولوں سے بھی مدد لی! گویا شادی نہ ہوئی، کائنات کی کوئی پیچیدہ گتھی ہوئی جسے سلجھانے کے لیے ریاضی دانوں کی کاوش سے بھی مدد لینا پڑ رہی ہے!
ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنی عمر کے تیسرے عشرے کے اواخر اور چوتھے عشرے کے اوائل تک انسان خاصا سنجیدہ ہوچکا ہوتا ہے اس لیے شادی کامیاب رہتی ہے۔ ''گھریلو سماجیات‘‘ کے ایک اور ماہر فلپ کوہن کا کہنا ہے کہ 45 تا 49 سال کی عمر میں کی جانے والی شادیوں کی ناکامی کا امکان خاصا کم ہوتا ہے۔
ہم نے کالم کو جاندار بنانے کے لیے جو چند طریقہ ہائے واردات اپنا رکھے ہیں۔ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ جیسے ہی ازدواجی زندگی سے متعلق کوئی دلچسپ خبر پڑھنے کو ملتی ہے، ہم مرزا تنقید بیگ کی طرف لپکتے ہیں کیونکہ اس موضوع پر پھوڑنے کے لیے ان کے پاس پھپھولوں کی کمی نہیں۔ دس پندرہ منٹ کی گفتگو میں اپنے پسندیدہ موضوع کو مرزا کچھ اس طرح (مزید) پامال کرتے ہیں کہ ہمارے پاس دلچسپ اور جاندار جملوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو مرزا جاندار جملے اتنے بول جاتے ہیں کہ کچھ دیر کے لیے دماغ (ان کے دماغ کی نقّالی کرتے ہوئے) ماؤف سا ہو جاتا ہے۔ ع
''جملوں‘‘ کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے!
جب ہم نے شادی کی موزوں عمر کے حوالے سے تحقیق پر مبنی خبر مرزا کو سنائی تو چند لمحوں تک کوئی ریسپانس نہیں دیا اور پھر مسکرادیے۔ ایسی ہی کیفیت کے لیے قمر جمیلؔ کہہ گئے ہیں ؎
اپنی ناکامیوں پہ آخرِکار
مسکرانا تو اختیار میں ہے!
سچی بات تو یہ ہے کہ جب ایسا کوئی مقام آجائے تو ہمارے پاس بھی مسکرانے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا۔ بہر کیف، مرزا نے اپنے پسندیدہ موضوع کو (مزید) پامال کرنا شروع کیا: ''دنیا کے تمام دانشور مل بیٹھیں تب بھی یہ طے نہیں ہوسکتا کہ شادی کے لیے موزوں ترین عمر کون سی ہے۔ ہماری اپنی ماہرانہ رائے یہ ہے کہ شادی کی کوئی موزوں عمر نہیں ہوتی بلکہ جب انسان شادی کرتا ہے تب تک جو گزری ہوتی ہے وہی اس کی موزوں ترین عمر ہوتی ہے! ماہرین فرماتے ہیں کہ شادی اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب میاں اور بیوی کے مزاج میں سنجیدگی در آئی ہو۔ کوئی ان سے ذرا یہ تو پوچھے کہ جب مزاج میں سنجیدگی در آئی ہو اور اچھے بُرے میں فرق کا شعور پیدا ہوچکا ہو تو انسان شادی کیوں کرے گا! اور شادی جیسے معاملات میں ریاضی کے فارمولوں کو گھسیٹنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کوئی ون ٹو کا فور جیسا معاملہ نہیں بلکہ نو دو گیارہ یا دو دونی چار جیسا سیدھا سا معاملہ ہوتا ہے۔ یعنی جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ جو شادی کرتا ہے اسے جلد یا بدیر لگ پتا جاتا ہے! ایسے میں ریاضی کے فارمولوں کو زحمت کیوں دی جائے؟ یہ تو ایسا حساب ہے کہ بچوں جیسا ذہن رکھنے والوں کی سمجھ میں بھی آئے بغیر نہیں رہ سکتا!‘‘
ہم نے عرض کیا کہ شادی کی موزوں عمر کے تعین میں ریاضی کے فارمولوں کو زحمت دینے سے شاید اس معاملے کی ''ہیبت ناکی‘‘ میں اضافہ مقصود تھا۔ یہ بات سن کر مرزا بولے : ''شادی شدہ زندگی میں بجائے خود اتنی ہیبت ناکی ہے کہ اس میں اضافہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں! شادی کے بعد کی زندگی کا سوچ کر تو اچھے اچھوں کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔‘‘
ہم نے مرزا سے پوچھا کہ اگر انسان کو شادی کامیابی سے ہمکنار کرنی ہو یعنی ہنگامہ و فساد کا خدشہ جڑ سے ختم کرنا ہو تو سر پر کب سہرا باندھنا چاہیے۔ مرزا نے کہا : ''اس معاملے میں فلپ کوہن کا تجزیہ بالکل درست ہے یعنی انسان کو 45 سے 49 سال کی عمر میں شادی کرنی چاہیے۔‘‘
ہم نے متجسس مرزا سے جاننا چاہا کہ فلپ کوہن کی بات کو وہ اتنے یقین کے ساتھ کس بنیاد پر درست قرار دے رہے ہیں۔ مرزا ہماری سادگی پر پہلے تو چپ رہے، پھر ہنس دیئے۔ پھر ہنسی کو بریک لگانے کے بعد فرمایا: ''بات یہ ہے میاں کہ میاں بیوی میں جھگڑا صرف اس وقت ہوتا ہے جب حواس اور دماغ کام کر رہے ہوں۔‘‘
ہم یہ سن کر حیران ہوئے اور سوچنے لگے کہ کیا 45 سے 49 کی عمر میں انسان کے حواس اور دماغ دونوں جواب دے چکے ہوتے ہیں۔ ہمیں گہری سوچ میں ڈوبا ہوا دیکھ کر مرزا نے رحم فرمانے کے انداز سے وضاحت فرمائی : ''سیدھی سی بات ہے۔ اگر کوئی شادی کے بغیر زندگی بسر کرتا آیا ہو اور 45 سال کا ہونے کے بعد گھر بسانے کا سوچے تو یہی سمجھا جائے گا کہ اس کے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ جس عمر میں انسان دنیا چھوڑنے کے بارے میں سوچنے اور اس حوالے سے تیاری کرنے لگتا ہے اس عمر میں شادی کرنا اور گھر بسانا ''آ بیل، مجھے مار‘‘ جیسا معاملہ ہے۔ جس وقت دل و دماغ کو سکون درکار ہوتا ہے اس عمر میں شادی کرنا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے، بلکہ آرا مشین چلانے جیسا ہے!‘‘
گھریلو اور بالخصوص ازدواجی زندگی سے متعلق مرزا جو کچھ کہتے ہیں اُسے نہ ماننے کی ہمارے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ گھریلو معاملات کی کئی سُرنگوں سے گزرے ہیں اور ہر بار ان کا ایک تازہ وجود سامنے آیا ہے۔ ان کا انجام دیکھ کر بہت سے احباب نے یا تو شادی سے اجتناب برتا ہے یا پھر یہ معاملہ خاصی معقول عمر تک موخر کرنے میں عافیت جانی ہے!
فلپ کوہن نے یہ وضاحت نہیں کی کہ 45 تا 49 سال کی عمر میں شادی کے ناکام ہونے کا خطرہ بہت کم کیوں رہ جاتا ہے۔ کیا اس لیے کہ تب تک شادی نہ کرنے والے زندگی کے ہر جبر کو سہنے کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں؟ اور یوں وہ شادی کو بھی ''اِک ستم اور سہی ...‘‘ کے کھاتے میں قبول کرتے ہیں؟
ہم نے جب کبھی شادی شدہ زندگی کے بارے میں غور کیا ہے، اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شادی کی کوئی موزوں عمر نہیں ہوتی۔ کامیاب شادی وہی ہے جس میں کوئی ایک فریق سب کچھ برداشت کرے، جھیل جائے۔ اور ہمارے قارئین سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ کسی ایک فریق سے ہماری کیا مراد ہے۔ شادی کوئی ون ٹو کا فور ٹائپ کا گیم ہے نہ اس میں ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک روح اور ایک ''مجروح‘‘ کا ملن ہے جس میں ایک اور ایک دو ہی ہوتے ہیں۔ اور دو بھی کیا، ایک ہی کہیے کہ سارا بوجھ تو ایک ہی کو اٹھانا ہوتا ہے۔ اب آپ یہ مت پوچھیے گا کہ سارا بوجھ اٹھانے والا وہ ایک گدھا کون ہوتا ہے!