جب سے ہماری زندگی میں سوشل میڈیا نے انٹری دی ہے، ہماری سوشل لائف کہیں کسی کونے میں دبک کر بیٹھ گئی ہے، اور اس قدر سہمی ہوئی ہے کہ لاکھ ترغیب دیجیے، باہر نکلنے کا نام نہیں لیتی۔ نئی نسل کا یہ حال ہے کہ پڑھنے لکھنے، کوئی ہنر سیکھنے، کھانے پینے، ملنے ملانے اور سونے کے لیے جو وقت قدرت کی طرف سے عطا ہوا ہے وہ سوشل میڈیا کی نذر کردیتی ہے۔ لڑکے ہوں یا لڑکیاں، سبھی اس مزار کے مجاور ہیں۔ یہ تو وہ طلسمات ہے جس میں داخل ہونے والے اس خوف سے مڑ کر نہیں دیکھتے کہ کہیں پتھر کے نہ ہوجائیں!
کوئی دشمن بھی ہم پر کیا تسلط قائم کرے گا جو سوشل میڈیا کی ویب سائٹس نے قائم کیا ہے۔ مشہور زمانہ اور مقبول ترین سوشل ویب سائٹس نے کروڑوں پاکستانیوں کے ذہنوں کو جکڑ رکھا ہے۔ بہت کچھ، بلکہ تقریباً سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ہر وقت ایک دوسرے سے جُڑے رہنے کا خبط ذہنوں پر ایسا سوار ہوا ہے کہ دوسری بہت سی ترجیحات اب ذہن کے کسی دور افتادہ سرد خانے کی نذر ہوچکی ہیں۔ ''کنیکٹیویٹی‘‘ کی ''معراج‘‘ یہ ہے کہ ایک گھر میں رہنے والے بھی ایس ایم ایس اور فیس بک پر رابطہ رکھتے ہیں! عام سا سیل فون بھی کسی بلا سے کیا کم تھا؟ اب سمارٹ فونز نے آکر قیامت ہی ڈھادی ہے۔ واٹس ایپ اور دیگر ایپلی کیشنز نے لوگوں کے خیالات کو پَر لگادیئے ہیں۔ ان ایپلی کیشنز کے ذریعے لوگ دنیا بھر میں اڑتے پھرتے ہیں اور اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھ نہیں آتے!
چند برس پہلے تک گھر کے بزرگ کچھ سمجھانے کی کوشش کرلیا کرتے تھے۔ اب ان کی سمجھ میں بھی آگیا ہے کہ معاملہ ان کی ''جیورسڈکشن‘‘ سے نکل چکا ہے! بزرگ بھی کیا کریں، یہاں تو ہر چیز نے اُلٹنے اور پلٹنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ع
ہم سے تو تم کو ضد سی پڑی ہے!
کسی کو کسی بھی کام سے جس قدر روکیے وہ اس کام کی طرف اسی قدر لپکتا ہے! نئی نسل کو سوشل میڈیا سے دور رہنے کا مشورہ دیجیے تو وہ مزید اُس کی طرف جاتی ہے۔ گویا ع
مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی!
یہ بھی سوشل میڈیا ہی کا کمال ہے کہ جنہیں اور کوئی ہنر نہیں آتا انہیں سوشل میڈیا پر ہر وقت اپ ڈیٹیڈ رہنے اور اپنی تازہ ترین مصروفیات سے دنیا والوں کو باخبر رکھنے کا ہنر تو آتا ہی ہے! ایک زمانے سے ہم سمیت بہت سوں کو شکایت رہی ہے کہ یہ قوم وقت جیسی انتہائی قیمتی نعمت کو ٹھکانے لگا رہی ہے اور اس معاملے میں بھی انتہائی بے ڈھنگے پن کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اب اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ایک بے ہنر قوم کے لوگ کسی نہ کسی طور کوئی ہنر سیکھ جائیں اور اپنے وقت کو ذرا ڈھنگ سے قتل کریں! اور سچ تو یہ ہے صاحب کہ جب دیگر اقوام کو ہمارے مشاغل کا کچھ اندازہ ہوتا ہوگا اور کوئی انہیں بتاتا ہوگا کہ پاکستان میں وقت کس طور ٹھکانے لگایا جارہا ہے تو اُن کے دل سے بھی نکلتا تو ہوگا کہ ع
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو!
لوگ شادی کی تقریب میں بیٹھے ہوں تو بھی سوشل میڈیا کی مہربانی سے وہاں نہیں، بلکہ پتا نہیں کہاں کہاں ہوتے ہیں! خاندان کے لوگ ارد گرد جمع ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں، سوشل میڈیا کی مہربانی سے عجیب ہی سماں پایا جاتا ہے۔ ہاتھوں میں سیل فون یا ٹیبلٹ تھامے ہوئے لوگ اپنی اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں ع
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ، مجھے کام اپنے ہی کام سے!
اور تو اور، لوگ شادی کی تقریب میں شریک ہونے کے باوجود دولھا یا دلھن پر بھی مہربان نہیں ہوتے۔ یہ سارا میلہ ان دونوں ہی کے لیے تو سجایا گیا ہوتا ہے۔ وہ دونوں اسٹیج پر تماشے کی طرح بیٹھے ہوتے ہیں اور لوگ ان سے دعا سلام کرنے پر تصویریں کھینچ کھینچ کر فیس بک اور دیگر سوشل ویب سائٹس پر اپ لوڈ کرتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں! اور جب اپ لوڈنگ نہیں کر رہے ہوتے تب ڈاؤن لوڈنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ اتار چڑھاؤ کچھ اس طرح ہماری زندگی کا حصہ بن گیا ہے کہ اب ہم اس دنیا میں کسی بھی ڈھنگ کی سیڑھی پر چڑھنے اترنے کے قابل نہیں رہے! اور یہ سب کچھ بہت حد تک لاشعوری کیفیت لیے ہوئے ہے۔ بقول غالبؔ ؎
مے سے غرض نشاط ہے کس رُو سیاہ کو
اِک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے!
کسی زمانے میں صرف جامعہ کے طلباء و طالبات تعلیم و تعلّم سے بے نیازی کے متحمل ہوسکتے تھے۔ یعنی کلاس روم میں بیٹھے رہنے پر باہر لابی کی نشستوں یا پارک کی ٹھنڈی گھاس پر بیٹھ کر ایک دوسرے کا حالِ دل سُننے کو ترجیح دیا کرتے تھے! وہ زمانہ سیل فون یا ٹیبلٹ جیسے گیجٹس کے ذریعے قربت پیدا کرنے کا نہیں تھا اس لیے لڑکوں لڑکیوں کو ''بحالتِ مجبوری‘‘ ایک دوسرے کے نزدیک آنا پڑتا تھا!
ٹیکنالوجی میں جدت کا سفر جاری ہے۔ نئی چیزیں آتی رہتی ہیں اور ہمارے مزاج سے مطابقت پاکر زندگی کا حصہ بنتی جاتی ہیں۔ بچے اب ٹیبلٹ کے عادی ہوچکے ہیں۔ کل تک اس سے علم میں اضافے کا کام لینے کی باتیں کی جارہی تھیں۔ اب یہ صرف تصاویر لینے، مووی بنانے اور کارٹون فلم دیکھنے کے کام کا رہ گیا ہے۔ ٹیبلٹ ایسی بیماری ہے جس سے نجات کی کوئی ٹیبلٹ مارکیٹ میں دستیاب نہیں! اب خبر آئی ہے کہ ماہرین نے ایسے ٹیبلٹ تیار کیے ہیں جو کلائی پر باندھے جاسکیں گے۔ یعنی ہمارے قیمتی وقت کے برباد ہونے میں جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی
تھی وہ بھی اب پوری کی جارہی ہے۔ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ میں گم ہونے کے لیے تو پھر بھی کچھ جگہ درکار ہوا کرتی ہے، کلائی پر لگا ہوا ٹیبلٹ تو کہیں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سگنل پر گاڑی رکی ہو تو شروع ہوجائیے یا پیدل جارہے ہوں تو ٹیبلٹ سے بھی مستفید ہوتے جائیے۔ ہوٹل میں چائے کا آرڈر دیا ہے تو چائے آنے میں تین چار منٹ ضرور لگیں گے، فارغ کیوں بیٹھیے، کلائی پر نظر جمائیے اور دنیا سے جُڑے رہیے۔ اور بچے کو پوٹی کراتے وقت بھی تو ٹیبلٹ ساتھ ساتھ ہوگا۔ اُدھر بچہ مصروف، اِدھر ماں مشغول! گویا ع
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی!
اس کے نتیجے میں کون کون سی قباحتیں پیدا ہوسکتی ہیں، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ ہم محض ایک آدھ کالم کے ذریعے اس کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ اس موضوع پر تو آسانی سے پی ایچ ڈی کی جاسکتی ہے!
کل کو یہی ہوگا کہ صاحب کلائی پر بندھے ہوئے ٹیبلٹ میں گم چلے جارہے ہیں کہ سامنے سے آنے والی بھینس سے ٹکراگئے۔ اور سوری کہنے کے بعد جب ''محترمہ‘‘ کو دیکھا تو شرمندہ ہوگئے! کچھ دیر بعد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پھر ٹیبلٹ میں گم ہونے کے بعد اصلی، انسانی محترمہ سے تصادم ہوگیا اور منہ سے نکلا لوگ بھینسیں باندھ کر کیوں نہیں رکھتے! اور ایسی صورت حال کہاں تک پہنچ سکتی ہے اس کا اندازہ لگانے کی صلاحیت تو اللہ نے آپ کو بھی دی ہے۔ اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ایسی کسی بھی صورت حال میں کسی سوشل ویب سائٹ کا عملہ آپ کو ریسکیو کرنے نہیں آئے گا!