"MIK" (space) message & send to 7575

بات پہنچی … موٹاپے تک

ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں وہ کوئی چھوٹی موٹی چیز نہیں، اچھی خاصی بڑی ہے۔ اور جتنی بڑی ہماری دنیا ہے اتنے ہی مسائل بھی ہیں۔ ہمارا دکھڑا یہ ہے کہ سارے مسائل ایک طرف اور موٹاپے کا رونا ایک طرف۔ جس طرح عمران خان کو ہر معاملے میں تان دھاندلی پر توڑنے کی عادت سی پڑگئی ہے بالکل اسی طرح پاکستان میں لوگ خواہ کسی موضوع پر بات کر رہے ہوں، اچانک کانٹا بدل کر موٹاپے کے ٹریک پر آجانے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ موٹاپا جسے لاحق ہوتا ہے اسے تو خیر لاحق ہوتا ہی ہے مگر اس سے زیادہ تو وہ ان لوگوں کے ذہنوں پر سوار رہتا ہے جو رات موٹاپے اور اس کا شکار ہونے والوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ 
یہ تو ممکن ہی نہیں کہ کوئی بھی گفتگو گھوم پھر کر موٹاپے تک نہ پہنچے اور پھر مرزا تنقید بیگ کا سلسلۂ کلام ہماری ''صحت مندی‘‘ نہ آئے۔ موٹاپے پر بات ہو رہی ہو تو کہیں نہ کہیں سے ہمارا تذکرہ اس میں شامل کرکے دل کی بھڑاس نکالنے کا مرزا کو صرف موقع چاہیے۔ جہاں کسی نے موٹاپے کا نام لیا اور مرزا نے ہمارا نام لیا! ہم نے جب بھی اپنے وجود پر اچٹتی سی نظر ڈالی ہے یہ سوچ کر ایک گونہ مسرت ہوئی ہے کہ چلیے اور کچھ نہ سہی، ہم میں ''کچھ‘‘ فربہی تو ہے جس کے دم سے مرزا کو کچھ دیر خوش گوار موڈ میں رہنا نصیب ہو جاتا ہے! 
مرزا ٹی وی دیکھتے اور اخبار پڑھتے وقت ہر اس خبر کی تاک میں رہتے ہیں جو موٹاپے سے متعلق ہو یا جس میں ضمنی طور پر ہی موٹاپے کا ذکر شامل ہو۔ جیسے ہی موٹاپے سے متعلق کسی تازہ تحقیق پر مبنی کوئی خبر ہاتھ لگتی ہے، مرزا یا تو ہمارے ہاں آ دھمکتے ہیں یا پھر ہمیں طلب کرلیتے ہیں۔ ہمارے لیے دونوں معاملات یکساں ہیں۔ چُھری خربوزے پر گِرے یا خربوزہ چُھری پر، نتیجہ ایک ہی رہتا ہے۔ ضمناً یہ بھی بتاتے چلیں کہ بھابی کے ہاتھ سے بنی ہوئی ''پھٹے دودھ کی سِویّاں‘‘ وہ لالچ ہے جس کے پھندے میں گرفتار ہوکر ہم مرزا کے سامنے فوراً سے پیشتر حاضر ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں! 
گزشتہ دنوں برطانیہ سے خبر آئی کہ ایک خاتون نے وزن گھٹایا تو زندگی میں خوشیوں کا وزن بڑھ گیا۔ صبح کا بُھولا شام کو گھر آگیا یعنی وزن کم ہوتے ہی دل کشی ایسی بڑھی کہ پرانا بوائے فرینڈ خاتون کی زندگی میں واپس آگیا! 
قصہ کچھ یوں ہے کہ لارین کو کھانے کا بہت شوق تھا۔ یہ شوق ایسا بڑھا کہ کھانے پینے کی اشیاء اسے کھانے لگیں یعنی وزن بڑھنے لگا اور موٹاپا طاری ہوتا گیا۔ موٹاپے نے جسم کو بھدّا کردیا۔ اور پھر یہ بھدّا پن اتنا بڑھا کہ لارین کا بوائے فرینڈ اس سے کنارہ کش ہوگیا۔ 
لارین کی ماں چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی دل کش دکھائی دے۔ مگر لارین کی اس طرف کچھ توجہ ہی نہ تھی۔ ماں اپنی بیٹی کو دوبارہ دل کشی کی طرف مائل ہوتی ہوئی دیکھنے کی حسرت لیے اس فانی دنیا سے کوچ کرگئی۔ 
موٹاپے نے لارین کو زیادہ پریشان کیا اور وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہوئی تو ایک سائکیاٹرسٹ سے رابطہ کیا۔ دو سیشن ہوئے مگر ذہنی پیچیدگیوں کے اس ماہر کی سمجھ میں بھی نہ آیا کہ لارین کو کس طور سمجھایا جائے کہ وزن کم کرنے ہی سے وہ دوبارہ جاذبِ نظر بن سکتی ہے۔ ایک دن گفتگو کے دوران لارین نے اپنی ماں کی خواہش اور وصیت بتائی۔ ماں نے لارین کو وصیت کی تھی کہ وہ وزن کم کرنے پر توجہ دے۔ سائکیاٹرسٹ پورا معاملہ سمجھ گیا۔ اس نے باتوں ہی باتوں میں تمام معاملات کو لارین کی ماں تک پہنچایا اور پھر لوہا گرم دیکھ کر چوٹ مار دی۔ یعنی لارین کو ماں کی وصیت پر عمل کرنے کا مشورہ دے کر جذباتی کردیا! لارین پر ماں کو یاد کرکے وزن کم کرنے کی ایسی دُھن سوار ہوئی کہ اس نے صرف 6 ماہ میں وزن 40 کلو گرام تک کم کر ڈالا۔ نتیجہ؟ اُس کی جاذبیت لوٹ
آئی۔ لوگ دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہونے لگے۔ کون کہتا ہے گیا وقت لوٹ کر نہیں آتا؟ جو بوائے فرینڈ لارین کو چھوڑ گیا تھا وہ بھی پلٹ کر آگیا! یہ اور بات ہے کہ واپس آنے تک وہ بوائے فرینڈ کم اور ''مین فرینڈ‘‘ زیادہ تھا۔ مگر خیر، لارین بھی اب کون سی گرل فرینڈ رہی تھی؟ وہ بھی تو ''وومن فرینڈ‘‘ کی کیٹیگری میں داخل ہوچکی تھی۔ آپ چاہیں تو کہہ سکتے ہیں ع 
کب کے بچھڑے ہوئے ہم آج کہاں آکے ملے! 
ہمارے خیال تو یہ معاملہ ''لوٹ کے بُدّھو گھر کو آئے‘‘ سے کم نہ تھا۔ بات کچھ یوں بھی ہے کہ دونوں کے پاس ایک دوسرے کو اپنانے کے سوا کوئی آپشن بچا نہیں تھا! 
مرزا نے جب یہ خبر پڑھی تو ہماری خبر لینے پر تُل گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی ایک لڑکی نے دل کش دکھائی دینے کے لیے اپنا وزن کم کرلیا اس لیے اب ہمیں بھی کچھ سوچنا چاہیے! ہم نے عرض کیا کہ ہمارے لیے کوئی ترغیب تو ہو۔ لارین کو تو آسرا تھا کہ بوائے فرینڈ واپس آجائے گا۔ ہمیں ایسی کوئی آس نہیں! اور ہو بھی کیسے؟ کسی کو متوجہ کرنا ہو تو کچھ بات بھی ہے، ہم تو خیر سے شادی شدہ ہیں! اب معاملہ یہ ہے کہ ہمیں کسی کی آس نہیں اور کسی کو ہمارا انتظار نہیں۔ شاید ایسی ہی کیفیت کے لیے ظفرؔ اقبال صاحب نے کہہ رکھا ہے ؎ 
یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا 
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا! 
لارین اور اسی قبیل کی دوسری بہت سی خواتین کسی نہ کسی آسرے پر موٹاپا کنٹرول کرتی ہیں اور ہم جیسوں کو پریشان کرتی ہیں، باتیں سُنواتی ہیں۔ آپ ہی سوچیے کہ معاملہ صرف اتنا تھا کہ لارین کو اپنے گئے گزرے وقت کے بوائے فرینڈ کو متوجہ کرنا تھا اور بات کو پہنچادیا ورک آؤٹ تک۔ ورزش سے جب گئی ہوئی دل کشی لوٹ آئی تو لارین اور اس کا ''بوائے‘‘ فرینڈ بھی ایک دوسرے کی طرف لوٹ آئے۔ یعنی دونوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ع 
کام اچھا ہے وہی جس کا مآل اچھا ہے 
لارین نے یہ ثابت کرنے کی اچھی کوشش کی ہے کہ ڈائٹنگ اور ورزش کے ذریعے وزن گھٹانے اور موٹاپا کنٹرول کرنے سے اور کچھ ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو، گیا وقت ضرور پلٹ آتا ہے۔ لارین نے جب ماں کی خواہش اور وصیت کے ہاتھوں جذباتی ہوکر موٹاپا کنٹرول کرنے کا عمل شروع کیا ہوگا تب اس کے ذہن میں یقیناً یہ بات ہوگی کہ ؎ 
پھر تصوّر ترے پہلو میں بٹھا جائے گا 
پھر گیا وقت گھڑی بھر کو پلٹ آئے گا 
اور ایسا ہی ہوا۔ مگر خیر، ایسا سب کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سب لارین جیسے خوش نصیب کہاں ہوتے ہیں؟ 
مصیبت تو ہم جیسوں کے لیے ہے جو اپنے وجود کو ہلکا کرنے کی کوئی ایسی ''حسین وجہ‘‘ بھی نہیں پاتے جس کا دامن پکڑ کر خود کو کم کھانے اور دن رات بیٹھکیں لگانے پر مائل کیا جاسکے! نتیجہ یہ ہے کہ مرزا تنقید بیگ جیسے لوگ طنز کے تیر برساکر ہمارے دل و دماغ کو اٹھک بیٹھک لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔ جس طور کراچی کچھ کا کچھ ہوگیا اور لوگ دیکھتے ہی رہے بالکل اسی طرح ہم بھی کبھی دھان پان سے ہوا کرتے تھے، مگر پھر ''امتدادِ زمانہ‘‘ کے ہاتھوں ہمارے جسم کی دنیا میں ''انقلاب‘‘ برپا ہوتا گیا اور لوگ بس تماشائی بنے رہے۔ اگر کسی نے ذرا پیار سے روکا اور ٹوکا ہوتا تو ہم بھی خوش خوراکی کو بریک لگانے اور خود کو پہلا سا دل کش بنانے کی راہ پر مُڑنے کا سوچتے! اب جب بھی ہم پہلے کی طرح سلِم ہونے کے بارے میں سوچتے ہیں، ایک شعر یاد آتا ہے اور ہم اچھی خاصی سرد آہ بھر کر رہ جاتے ہیں۔ ؎ 
یاد رہ جاتی ہے اور وقت گزر جاتا ہے 
سب چلے جاتے ہیں، کب دردِ جگر جاتا ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں