دل و جاں کے موسم کا تذکرہ و تجزیہ پھر کبھی سہی، فی الحال پریشانی یہ لاحق ہے کہ سردی ہے کہ آنے کا نام نہیں لے رہی اور گرمی ہے کہ جانے کا نام لیتے ہوئے شرما رہی ہے یعنی جاتے جاتے کچھ سوچتی ہے اور اٹک جاتی ہے۔ ایسی کیفیت میں عدیمؔ ہاشمی کا یہ شعر بے ساختہ یاد آجاتا ہے ؎
ساتھ دینا ہے تو دے، چھوڑ کے جانا ہے تو جا
تو اضافہ تو نہ کر میری پریشانی میں!
موسم کا یہ مخمصہ لوگوں کو پریشان کر رہا ہے کیونکہ کچھ کچھ ایسی ہی کیفیت بہت سے دوسرے معاملات میں بھی در آئی ہے۔ لوگ بہت کچھ چاہتے ہیں مگر کچھ ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ معاملات کہیں نہ کہیں اٹک جاتے ہیں، الجھ کر رہ جاتے ہیں اور لوگوں کے ذہنوں کو بھی مزید الجھاتے ہیں۔ بہت کچھ ہے جو منطقی نتیجے تک پہنچنے سے بہت پہلے ہائی جیک کرلیا جاتا ہے اور اِس کے نتیجے میں غیر منطقی نتائج کا ایک سلسلہ جنم لیتا ہے جو خرابیوں کو چار چاند لگاتا جاتا ہے!
سیاست ہو یا معیشت، علم کا معاملہ ہو یا فن کا، عمل کی دنیا ہو یا بے عملی کی، ہر جگہ ایک تعطل سا مسند نشین دکھائی دیتا ہے۔ کچھ کرنے کا ڈھنگ تو خیر ہم میں تھا ہی کہاں، کچھ نہ کرنے کا ''سلیقہ‘‘ بھی اب جاتا رہا! ع
کوئی ناکامی سی ناکامی ہے!
ہم اور علوم و فنون؟ خبردار، ایسی بات کوئی نہ کرے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ فن کے نام پر جو الٹا سیدھا سیکھا تھا وہ بھی اب ''اَن سیکھا‘‘ ہوتا جاتا ہے! لوگ کسی بھی نئی بات سے دامن چُھڑانے کے معاملے میں ایسے پرجوش ہیں کہ پرانی باتیں بھی بھولتے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم بہت کچھ راستے میں کہیں پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔
چند ہفتوں سے گورننس کا بڑا غلغلہ ہے۔ بہت لے دے ہو رہی ہے۔ اس نکتے پر زور دیا جارہا ہے کہ حکومت گڈ گورننس کی طرف آئے۔ گورننس ... گڈ یا بیڈ تو تب ہو جب ہو! جب ایک چیز ہے ہی نہیں تو اُس کا رونا کیوں روئیے؟ ع
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا
حکومت کو ہدفِ تنقید بنایا جارہا ہے، گورننس کا رونا روکر حکمرانوں کو مطعون کیا جارہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ معترضین کون ہیں۔ ان میں بیشتر وہ ہیں جو حکمران یا حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ کوئی ذرا بتائے تو سہی کہ جب یہ ایوان ہائے اقتدار میں تھے تب اِنہوں نے کون سے مار لیے تھے؟ کون سا انقلاب برپا کردیا تھا؟ ایسا کون سا کام کیا تھا جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ ملک کسی بہتر راہ پر گامزن ہوا؟
جمہوریت ہو یا کوئی اور طرزِ حکومت، حقیقی تبدیلی واقع یا رونما ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ معاملات زور و شور سے شروع ہوتے ہیں اور پھر اچانک ہر معاملے کا بوریا بستر گول ہونے لگتا ہے۔ اچھی خاصی چلتی ہوئی ٹرین جنگل یا ویرانے میں کہیں رک جاتی ہے۔ احتساب کا بہت ڈھول پیٹا جاتا ہے مگر ہوتا ہواتا کچھ نہیں۔ نعروں، وعدوں اور دعووں کی پتنگ اچانک کنّوں سے کٹ جاتی ہے۔ عوام کے نصیب میں صرف انتظار رہ گیا ہے۔ اچھے دنوں کا انتظار، گڈ گورننس کا انتظار، انقلاب کا انتظار، کسی بڑی تبدیلی کا انتظار ... اور سب سے بڑھ کر نئے پاکستان کا انتظار! جاں نثار اخترؔ خوب یاد آئے ؎
ہائے یہ انتظار کے لمحے
جیسے سگنل پہ رُک گئی ہو ریل!
کراچی ہو یا کوئی اور شہر، معاملات کو درست کرنے کا عمل منطقی انجام کی منزل تک نہیں پہنچ پاتا۔ شور بہت ہے، عمل برائے نام ہے۔ یہ سب ایسا ہی ہے جیسے کسی میلے میں لاؤڈ اسپیکر پر بلند والیم سے گائے بجائے جارہے ہوں۔ اور گانے بھی ایسے کہ خاک سمجھ میں نہ آئیں، محض شور پیدا کریں۔ ایسے شور میں ساتھ ساتھ کھڑے ہوئے لوگ بھی بات نہیں کر پاتے۔ اس وقت پاکستانی سیاست اور میڈیا کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ اعمال ہیں کہ وعدوں اور دعووں کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ حکمران ہوں یا ان کے مخالفین، کوئی بھی مکمل مخلص دکھائی نہیں دیتا۔ سب کو اگر فکر لاحق ہے تو بس یہ کہ اس سے پہلے کہ بنجارہ لاد چلے، کچھ کرلیا جائے یعنی منتخب ہونے پر جو کچھ خرچ کیا تھا وہ سُود سمیت وصول کرکے اپنی راہ لی جائے!
کراچی میں معاملات کی درستی کے لیے شروع کیا جانے والا آپریشن نیم دِلی کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔ اور یہ نیم دِلی ایسی نازک یا باریک نہیں کہ صرف ''دانا و بینا‘‘ تجزیہ کاروں کو دکھائی دے اور اُنہی کی سمجھ میں آئے۔ اب تو معاملات ایسے اظہر من الشمس ہیں کہ عام آدمی بھی دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ تب ہی تو اُس کے دکھ بھی بڑھ گئے ہیں، الجھنیں دوچند ہوگئی ہیں!
بات ہو رہی ہے کراچی آپریشن کی۔ پس پردہ کچھ طے پا جانے کا احساس ''میڈیائی خواص‘‘ ہی میں نہیں بلکہ عوام میں بھی توانا ہوچلا ہے۔ لوگ مشکوک معاملات کی بُو سونگھتے پھر رہے ہیں۔ شر پسندوں کو ٹھکانے لگانے کا عمل فُل سوئنگ میں دکھائی دے رہا تھا کہ اچانک افق پر منظر ہی تبدیل ہوگیا ؎
وہ یُوں گئے کہ ہاتھ سے جاتا رہا یہ دل
میں دیکھ ہی رہا تھا کہ منظر بدل گیا!
ایسا کیوں ہوا؟ یا ایسا کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ معاملات ایک بار پھر ''مفاہمت‘‘ کی منزل پر پہنچ گئے ہیں؟ ایک پھر تعطل کی فضاء کیوں پائی جارہی ہے؟ فکر و عمل پر چھایا ہوا جمود ایک بار پھر نمایاں کیوں ہوچلا ہے؟ ایک ہی سوال ہے جو کئی پہلوؤں سے سوچا اور پوچھا جارہا ہے مگر جنہیں کچھ بتانا ہے وہ منہ میں گھنگھنیاں دیئے بیٹھے ہیں۔
سیاسی سطح پر کسی حقیقی تبدیلی کے آثار نہیں۔ عمران خان اپنے تمام کارڈز کھیل چکے ہیں۔ اور اب ان کا اپنا ہاؤس آف کارڈز بھی تقریباً گرچکا ہے۔ وفاقی سطح پر کچھ کر دکھانے کی ان کی حیثیت رہی نہیں۔ اور خیبر پختونخوا کی شکل میں ملنے والا سنہرا موقع بھی اب تقریباً مکمل طور پر ضائع ہونے کی منزل تک پہنچ چکا ہے۔
قومی خزانہ لوٹنے والوں کو احتساب کے پنجرے میں بند کرنے کے دعوے کرنے والے ایسا کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ اُنہیں تو اپنے پَر بچانے کی فکر لاحق ہے، اُن کی اپنی پرواز کو محدود کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں! ایسے میں دوسروں یعنی سابقین کو بُرے انجام سے دوچار کرنے کے خواب؟ قصہ مختصر یہ کہ مِٹّی پاؤ جی!
بہت کچھ سیدھا کرنے کی کوشش میں ہمارے بیشتر معاملات کی کجی کچھ اور بڑھ گئی ہے، مزید بے عملی ہمارا حصہ ہوکر رہ گئی ہے۔ بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، کان کے پردے سے ٹکرانے والے دل کش وعدے آنکھوں میں سُندر سپنوں کی دنیا بسانے پر تُلے ہوئے ہیں مگر جب دن چڑھتا ہے تو رات کے سپنے دُھوپ میں تپنے لگتے ہیں! خیال و خواب کا محل حقائق کی تیز ہوا کے سامنے ریت کا گھروندے سے بھی کمزور ثابت ہوتا ہے۔
ہمارے آس پاس کی دنیا بدل رہی ہے۔ خطے کے حالات ایسے پلٹے کھارہے ہیں کہ اِن کی طرف متوجہ نہ ہونا اپنی (منطقی) موت کو دعوت دینا ہے۔ بڑی طاقتیں جو کچھ چاہتی ہیں وہ ایسا نہیں کہ دکھائی نہ دے اور سمجھ میں نہ آئے۔ مگر بِلّی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے سے کبوتر محفوظ نہیں ہو جاتا۔ بالکل اِسی طور ہم اپنے ارد گرد رونما ہونے والی تبدیلیوں سے بے نیازی برت کر اُن کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
اپنے گھر کو درست کیے بغیر ہم محلّے میں اپنی توقیر کا اہتمام نہیں کرسکتے۔ یہی حال ملک کا بھی ہے۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ ہم اندرونی سطح پر مستحکم ہوئے بغیر بیرونی سطح کا استحکام نہیں پاسکتے۔ یہ کوئی ایسا نکتہ نہیں جسے سمجھنے کے لیے آئن اسٹائن کا سا ذہن درکار ہو!
پاکستانی معاشرہ شکست و ریخت سے دوچار ہے۔ اِس عمل کو روکنے کی خاطر کہیں سے کوئی نہیں آئے گا۔ ہمی کو یہ کام کرنا ہے۔ گڈ گورننس بھی لانی ہے، قومی خزانے کو لُٹنے سے بھی بچانا ہے، دفاعی صلاحیت بھی بڑھانی ہے اور علاقائی و عالمی حالات کو مُنہ دینے کی سکت بھی پیدا کرنی ہے۔ غفلت کا مَحل ہے نہ تاخیر کی گنجائش۔ علامہ کی زبانی وقت کہہ رہا ہے ع
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے