مسائل کا ڈھیر لگا ہے۔ قدم قدم پر پیچیدگیاں ہیں مگر عشروں سے جُنونی ہندوؤں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے تو صرف یہ کہ کسی نہ کسی طور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو گوشت کھانے سے روکا جائے، بالخصوص گائے یا بیل کا گوشت۔ بھارت کے تمام مسائل سمٹ کر گوشت خوری کے اِیشو میں سما گئے ہیں۔ جب بھی بھارت کے سنگین مسائل کا ذکر چھڑتا ہے، تان ٹوٹتی ہے تو اقلیتوں پر اور اُن کی گوشت خوری پر۔
ڈیڑھ دو سال کے عرصے میں بھارت کے بہت سے مسائل زیادہ نمایاں ہوکر پورے معاشرے کے لیے حقیقی دردِ سر بنے ہیں۔ ایک بہت بڑا مسئلہ خواتین کی آبرو کو تحفظ فراہم کرنے کا ہے۔ دہلی، ممبئی، کولکتہ اور دوسرے بڑے شہروں میں خواتین پر مجرمانہ حملوں کا تناسب اِتنا بڑھ گیا ہے کہ خواتین کی زیادہ توقیر نہ کرنے والے ہندو معاشرے کو بھی پریشانی سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ سَتر پوشی کے تصور سے خطرناک حد تک عدم واقفیت اور مرد و زن کے اختلاط پر بظاہر پابندیاں نہ ہونے کے باعث ہندو معاشرہ نفسی اعتبار سے انتہائی پیچیدگی کا شکار ہے۔
بھارت میں جو لوگ خواتین پر مجرمانہ حملوں کے حوالے سے پریشان ہیں اور سخت تر اقدامات اور سزاؤں کے لیے تحریک چلا رہے ہیں وہ اپنی جگہ درست مگر اس حقیقت کو وہ یکسر نظر انداز کر رہے ہیں کہ معاشرے میں جو کچھ پایا جاتا ہے اُسی کا عکس انفرادی سوچ میں بھی جلوہ گر ہوتا ہے۔ نئی نسل ویسے بھی معاشرے کے چلن کو بہت تیزی سے اپناتی ہے۔ بھارت کی نئی نسل جن مراحل سے گزر رہی ہے اُن کا جائزہ لینے پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خواتین پر مجرمانہ حملے انتہائی افسوس ناک سہی، حیرت انگیز ہرگز نہیں۔
ایک حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں ٹین ایجرز یعنی پندرہ سے بیس سال تک کے لڑکوں اور لڑکیوں میں اختلاط اس قدر بڑھ چکا ہے کہ والدین کی نیندیں اُڑ گئی ہیں۔ لوگ سمجھ نہیں پارہے کہ اختلاط کو ختم یا محدود کرنے کے لیے کون سے طریقے اختیار کریں۔
سب سے بڑا مسئلہ ملبوسات کا ہے۔ ہندو خواتین کے بیشتر پہناوے ہیں ہی اِس قسم کے کہ خواتین کے لیے پورے جسم کو ڈھانپنا ممکن نہیں ہوتا۔ اور جواں سال لڑکیاں ویسے بھی ملبوسات کے حوالے سے کوئی خاص پابندی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ گھٹنوں تک کے اسکرٹس اسکول کی سات آٹھ سال تک کی لڑکیوں کے لیے تو کسی حد تک قابل قبول ہوسکتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ کالج کی سطح تک کی لڑکیاں بھی ایسے ہی اسکرٹس پہننا پسند کرتی ہیں۔ پاکستان میں تین چار سال کی بچی بھی اسکول کے فراک کے ساتھ شلوار پہنتی ہے۔ بھارت میں سیکنڈری لیول تک کی لڑکیاں اسکرٹس پہنتی ہیں اور ٹانگیں برہنہ رہتی ہیں۔ گھروں میں بڑی عمر کی خواتین کے پہناوے بھی اس نوعیت کے ہیں کہ جسم کو پوری طرح ڈھانپنا ممکن نہیں ہوتا۔ جب معاشرے کا یہ چلن ہوگا تو خرابیوں کو پنپنے سے کون روسک سکتا ہے؟
آٹھ میٹرو پولس (یعنی دہلی، ممبئی، کولکتہ، بنگلور، حیدر آباد دکن جیسے بڑے شہروں) اور 12 نسبتاً چھوٹے شہروں میں 13 سے 19 سال کے 15 ہزار لڑکوں اور لڑکیوں سے سوالات کی صورت میں جو سروے کیا گیا ہے اس کے نتائج اتنے خطرناک اور باعثِ شرم ہیں کہ بھارت کی ریاستی مشینری بھی پریشان ہو اٹھی ہے۔ سروے کرنے والی کمپنی میڈی اینگلز کے ڈاکٹر دیب راج شوم کا کہنا ہے کہ جن نوجوانوں کا سروے کیا گیا‘ ان میں سے کم و بیش 8.9 فیصد میں کوئی نہ کوئی خطرناک جنسی مرض پایا گیا۔ یہ انتہائی خطرناک رجحان ہے کیونکہ ایک طرف معاملہ امراض کا ہے اور دوسری طرف اخلاق کا۔ سروے سے اندازہ ہوا کہ چھوٹے بڑے شہروں میں بہت سی لڑکیاں اوسطاً پونے چودہ سال کی عمر کو پہنچنے تک اپنی عِفّت سے محروم ہوچکی ہوتی ہیں اور یہی حال لڑکوں کا ہے یعنی وہ بھی اوسطاً چودہ سال کے ہونے تک اخلاقی اقدار کی تمام دیواریں گراتے ہوئے ناجائز تعلقات استوار کرنے کے مرحلے سے گزر چکے ہوتے ہیں!
ٹی وی ڈراموں میں جو لوگ بھارت کا چمکتا دمکتا چہرہ دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں اور بات بات پر بھارت کی مثال دیتے نہیں تھکتے وہ بھی ذرا غور فرمائیں کہ وہاں کی نئی نسل کن دُنیاؤں میں آباد ہے۔
دہلی کا حال سب سے بُرا ہے۔ وہاں اخلاقی اقدار کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ نئی نسل کسی کے کنٹرول میں نہیں۔ ہندی ویب سائٹ ''نئی دنیا‘‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ دہلی میں 13 سے 15 سال کی عمر کے دوران 25 فیصد سے زائد لڑکے اور لڑکیاں تمام حدود پار کرچکے ہوتے ہیں! ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ لڑکیوں میں ناجائز تعلقات کے منطقی نتیجے کو روکنے والی ادویہ کا استعمال عام ہوچکا ہے کہ اِس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ والدین اپنی اولاد اور بالخصوص لڑکیوں کے معمولات سے کس قدر ناواقف ہیں!
دہلی اور دیگر بڑے شہروں میں لڑکے اور لڑکیاں تیزی سے کسی نہ کسی نشے کی دلدل میں بھی دھنس رہے ہیں۔ دہلی میں 45 فیصد ٹین ایجرز کوئی نہ کوئی نشہ کرنے کے عادی ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ بیشتر کے والدین یا گھر کے دیگر افراد کو اس کا علم ہی نہیں! یہ بات کتنی عجیب ہے کہ کوئی لڑکی یا لڑکا باقاعدگی سے کوئی نشہ آور چیز استعمال کرتا ہو اور اہل خانہ کو علم ہی نہ ہو پائے۔ افسوس اپنی جگہ مگر نئی نسل کی ''فن کاری‘‘ کی داد تو دینا ہی پڑے گی!
معاشرے کے اس زوال کی ذمہ داری والدین‘ بالخصوص اور معاشرے پر بالعموم عائد ہوتی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ بالی وڈ کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اور پھر ٹی وی ڈرامے بھی ہیں۔ ٹی وی والوں کو ریٹنگ اور فلم والوں کو باکس آفس کی پڑی رہتی ہے۔ دونوں ہی اپنی کامیابی کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار رہتے ہیں۔
دہلی، ممبئی اور بنگلور جیسے بڑے شہروں میں لاکھوں لڑکیاں سوشل میڈیا کے سیلاب میں بہہ چکی ہیں۔ کسی بھی اجنبی سے محض آن لائن دوستی کافی نہیں سمجھی جاتی۔ اس سے ملاقات کے لیے لڑکیاں بے تاب رہتی ہیں اور پھر معاملات ان کے اختیار میں نہیں رہتے۔ ممبئی، بنگلور، حیدر آباد دکن، احمد آباد، بنگلور، چنائی (مدراس) اور کولکتہ کے مقابلے میں دہلی کا معاملہ زیادہ سنگین ہے۔ دہلی میں اسکول اور کالج کی لاکھوں لڑکیوں کے درمیان سوشل میڈیا کی مشہور ترین ویب سائٹس پر اس بات کی دوڑ لگی ہے کہ کس کو چاہنے والے کتنے ہیں! ہر لڑکی چاہتی ہے کہ اس کی پوسٹس کو پسند کرنے والے زیادہ سے زیادہ تعداد میں ہوں۔ جس کے پریمی زیادہ اُس کی جے جے کار۔ پڑھائی گئی بھاڑ میں۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر تازہ ترین پوسٹ کتنے لائیکس حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے!
دہلی میں آج کل نئی نسل میں ایک کوڈ ورڈ بہت مقبول ہے۔ ایف ڈبلیو بی یعنی فرینڈ وِد بینیفٹ۔ لڑکی ہو یا لڑکا، دونوں ہی ''دوستی‘‘ کے معاملے میں اپنی ہوس کی تکمیل کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی فائدے کو بھی ضرور ذہن میں رکھتے ہیں۔ یعنی یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس لڑکی یا لڑکے سے تعلقات استوار کیے جا رہے ہیں‘ اس سے کسی نہ کسی شکل میں مالی فائدہ کتنا پہنچے گا۔ لڑکیاں مالدار لڑکوں کو دوستی کے جال میں پھنساتی ہیں تاکہ وہ ایسی چیزیں آسانی سے دلا سکے جو والدین نہیں دلا سکتے! یہی حال لڑکوں کا ہے۔ وہ بھی مالدار گھرانوں کی لڑکیوں کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ موقع ملنے پر اُسے جیون ساتھی بناکر خوب مزے کی زندگی گزاری جا سکے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو اور بات بگڑ جائے تو بلیک میل کرکے مال بٹورنا ممکن ہو! طریقِ واردات خواہ کچھ ہو، دو پہلوؤں پر مشتمل مقصد ایک ہی رہتا ہے ... ہوس کی تکمیل اور زیادہ سے زیادہ زر کا حصول!
یہ ہے وہ ''چمکتا دمکتا‘‘ بھارت جس کے تہذیبی ورثے کا بہت ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ ''پرمپراؤں‘‘ (روایات) کا راگ الاپنے والوں کو اقلیتوں سے تھوڑی سی توجہ ہٹاکر ذرا اپنی نئی نسل میں پنپتی ہوئی پرمپراؤں پر بھی دھیان دینا چاہیے!