اب وہ زمانہ کہاں کہ کوئی بھی نئی چیز دیکھیے یا نئی بات سنیے تو حیران رہ جائیے۔ کیا زمانہ تھا کہ ایک معقول یعنی خاصی طویل مدت کے بعد کوئی ایجاد یا اختراع میدان میں آتی تھی تو حیرت سے دوچار کرتی تھی۔ اور نئی چیز کو پا کر یقین ہی نہیں آتا تھا کہ ہم واقعی ایک نئی سہولت سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ یعنی زندگی میں واضح تبدیلی محسوس ہونے لگتی تھی‘ مگر وہ زمانہ تو ایسا گیا ہے کہ بالیقیں اب کبھی واپس نہ آئے گا۔ آسانیاں تلاش کرنے کے نام پر ہم نے اپنے آپ کو مشکلات کی دلدل میں دھنسا لیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دن رات ایک کرکے ایسی پیچیدگیاں سامنے لائی جارہی ہیں‘ جن کے ہاتھوں ذہن مزید الجھتا جاتا ہے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کمزور سے کمزور تر ہوتی جاتی ہے۔
اب اسی بات کو لیجیے کہ آج کا انسان اوسط عمر میں زیادہ سے زیادہ اضافہ یقینی بنانے پر تُلا ہوا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں سبھی کچھ اعلیٰ معیار کا ہے۔ آلودگی برائے نام ہے جس کے نتیجے میں لوگ صاف سُتھری فضا میں سانس لیتے ہیں۔ غیر آلودہ ہوا جسم کو توانا رکھتی ہے اور بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں بھی مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ ایسے صاف سُتھرے اور صحت بخش ماحول میں اوسط عمر ویسے ہی بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں بُڑھاپا روکنے کی کوشش یعنی اینٹی ایجنگ تحقیق کا غلغلہ! اِسے کہتے ہیں سونے پر سُہاگہ!
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جسم میں جو شکست و ریخت واقع ہوتی ہے اُس کی رفتار کم کرنے یعنی بڑھاپے پر جسم کے دروازے بند کرکے عمر میں اضافہ کرنے کے حوالے سے تحقیق زور پکڑتی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں لوگ زیادہ سے زیادہ جینے کی دُھن میں جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کی جانے والی ادویہ استعمال کرتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اینٹی ایجنگ سے متعلق ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کی جانے والی ادویہ اور اعلیٰ معیار زندگی کی بدولت انسان سوا سو سال تک جی سکتا ہے۔
اللہ نے جو زندگی دی ہے وہ طے شدہ ہے مگر کتنی ہے یہ ہم نہیں جانتے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش ہر انسان پر فرض ہے‘ لیکن اگر یہ تلاش کسی بڑے بحران سے دوچار کر دے تو؟ کسی کو محنت کرنے کی تحریک دینا زیادہ مشکل نہیں۔ اصل آزمائش تو یہ ہے کہ اُسے تساہل اور تن آسانی ترک کرنے پر آمادہ کیا جائے اور وہ بھی مستقل بنیاد پر۔ یہی حال علم کا ہے۔ علم حاصل کرنے کی تحریک دینے سے کہیں بڑی آزمائش کسی کو جہل سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر راضی کرنا ہے۔ یہ ایسا معاملہ ہے کہ اچھے اچھوں کو پسپائی کی راہ دکھاتا ہے۔
انسان کو زیادہ جینے کے قابل بنانے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اگر کسی کا وجود تبدیلیاں قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو اس دنیا میں قیام کی میعاد بڑھانے سے حاصل؟ ترقی یافتہ ممالک، بالخصوص جاپان میں اوسط عمر زیادہ ہے۔ فطرت سے قریب تر ہوکر، سادہ زندگی بسر کرنے کا انعام یہ ملا ہے کہ اب جاپان میں سو سال کا ہو جانا حیرت انگیز بات نہیں رہی۔ پورا ملک شدید بڑھاپے کی لپیٹ میں دکھائی دیتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب کوئی ڈھنگ کی مصروفیت نہ ہو اور کسی انسان کے وجود کا مصرف کچھ بھی نہ ہو تو اِس قدر جی کر کیا کرنا ہے۔ حبابؔ ترمذی کہتے ہیں ؎
محبت کا ہے بس اِک لمحہ کافی
ہزاروں سال جینے کی ہوس کیا!
زندگی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہم اس دنیا میں صرف جینے کے لیے نہیں بھیجے گئے۔ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق نئے علوم و فنون سے واقفیت اور مہارت بھی پیدا کرنی ہے تاکہ زندگی میں کچھ معنویت اور مقصدیت برقرار رہے۔ محض جیے جانے کو زندگی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چڑیا گھروں میں بعض کچھوے بھی ڈیڑھ سو سال تک جی جاتے ہیں مگر ایسے جینے میں آخر دھرا ہی کیا ہے؟ جب کچھ کیا ہی نہیں اور کسی کے کام نہ آئے یا کسی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار نہ کی تو کیا جینا اور کیا مرنا؟ اگر کوئی ادویہ کی مدد سے اور بہتر خوراک کا سہارا لے کر سوا سو برس جی بھی لے تو کیا فائدہ اگر دنیا کو کچھ نہ دیا، کوئی ڈھنگ کا کام نہ کیا؟ ٹیپو سلطان کے الفاظ میں کہیے تو گیدڑ کی طرح سو سال جینے سے بہتر یہ ہے کہ شیر کے مانند ایک دن جی لیا جائے۔
پاکستان جیسے ممالک میں اوسط عمر 55 تک آ گئی ہے۔ کوئی اگر کوشش کرے یعنی اچھا کھائے پیے، اپنے گھر کا ماحول آلودگی سے پاک کرے، صحت کا خاص خیال رکھے اور معمولات میں توازن لائے یعنی آنکھ بھر نیند سوئے تو اوسط عمر سے آٹھ دس سال زیادہ جی سکتا ہے۔ مگر یہ بھی اُس کے لیے ممکن ہے جو معاشرے کی عمومی روش سے بغاوت کرے اور اپنی اصلاح پر مائل ہو۔
معاشرے میں جو کچھ چل رہا ہے‘ اس کے ہاتھوں زندگی انفرادی سطح پر بھی شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ کھانے پینے کا معاملہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ اچھی صحت کے ساتھ جینا اب جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے۔ صحتِ عامہ کی سہولتیں کم اور ناقص ہیں۔ لوگ اس حوالے سے شعور پیدا کرنے اور پروان چڑھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ لوگ خراب صحت کے ساتھ جیتے ہیں اور جلد مر جاتے ہیں۔
بہت سوں کو اس بات پر شدید رنج میں مبتلا دیکھا گیا ہے کہ اوسط عمر گھٹتے گھٹتے اب 55 سال یا اِس سے تھوڑی سی زیادہ رہ گئی ہے۔ یہ روش ہمیں تو بہت حیران کرتی ہے۔ جہاں چاروں طرف بے نظمی، بے قاعدگی اور انصاف سے گریز نے عمومی چلن کا درجہ حاصل کر لیا ہو وہاں زیادہ جینا یا جیے جانا اپنے آپ پر ظلم ڈھانے کے مترادف ہے! فضا اور ذہن دونوں ہی آلودہ ہوں تو کوئی کیا خاک جیے؟ زندگی دو برس کی ہو یا سو برس کی، ڈھنگ سے یعنی آسودگی کے ساتھ اور آلودگی کے بغیر گزرے تو زندگی ہے ورنہ آتی جاتی سانس کے تماشے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایسے میں لوگ زندگی بسر کرنے سے زیادہ وقت سانسیں گنتے رہنے پر صرف یعنی ضائع کرتے ہیں۔ اگر ماحول میں کچھ بھی درست نہ ہو تو سانسوں کی تعداد میں اضافہ کرکے کیا کوئی ایوارڈ لینا ہے! بہت سے لوگ اللہ کے طے کردہ نظام الاوقات کی رُو سے طویل عمر پاتے ہیں مگر اُنہیں زندگی کو بامقصد طریقے سے بسر کرنے کا ہنر نہیں آتا۔ ایسی حالت کو کسی نے یُوں بیان کیا ہے ؎
مصیبت ... اور لمبی زندگانی
بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا!
لفظ age کی توضیح رہ گئی۔ ترقی یافتہ معاشرے اوسط عمر بڑھانے کے لیے age یعنی عمر کے خلاف جاکر anti-aging ادویہ تیار کر رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں ہی کہ عمر کے علاوہ زمانے یا عہد کو بھی انگریزی میں age ہی کہتے ہیں۔ age بمعنی عمر سے تو ہم بعد میں نپٹ لیں گے، فی الحال age بمعنی زمانہ یا عہد سے معرکہ درپیش ہے۔ ہماری anti-aging یہ ہے کہ زمانے کے خلاف جائیے یعنی جو کچھ سب کر رہے ہیں ویسا کچھ نہ کیجیے، دنیا بھر میں لوگ اگر زندگی کا معیار بلند تر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اُس سے دور رہیے اور اپنی تن آسانی ہی کو لگے لگائے جیسے تیسے یہ چند سانسیں گزار دیجیے جسے زندگی کہا جاتا ہے! میر ببر علی انیسؔ نے بہت پہلے خبردار کر دیا تھا کہ ؎
انیسؔ! دم کا بھروسہ نہیں، ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے!
مگر ہم نہ مانے اور زمانے کے سامنے ڈٹ گئے۔ اتنی ''دِلیری‘‘ کم ہی اقوام میں پائی گئی ہے۔
اگر اینٹی ایجنگ ادویہ عام ہو گئیں تو بہت مشکل ہو جائے گی، بالخصوص پاکستان جیسے معاشروں کے لیے۔ جو چند سانسیں نصیب ہوئی ہیں اُنہی کو ڈھنگ سے گزارنا عذاب کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ایسے میں مزید کی تمنا کیا کریں؟ چند ایک مقاصد کے ساتھ جینے والوں کے لیے جو معاملہ سونے پر سُہاگے جیسا ہوتا ہے وہ ہمارے لیے مرے کو مارے شاہ مدار والا کیس بن سکتا ہے! کہیں ایسا نہ ہو کہ زندگی کو بامقصد بنانے کی تیاری کیے بغیر ہم اینٹی ایجنگ ادویہ کو اپنائیں اور آسمان سے نِدا آئے ع
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!