ہارٹ آف ایشیا کانفرنس بہانہ بنی، بھارتی وزیر خارجہ سُشما سوراج آئیں اور ہم نے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے۔
خیر سگالی کی پتیلی ابھی چولھے سے اتری بھی نہ تھی کہ عمران خان دوستی اور مفاہمت کے پیغام پر مشتمل دیگ لے کر نئی دہلی پہنچ گئے۔ موسم اچھا چل رہا تھا۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچنے پر سُشما سوراج کا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا تھا۔ نئی دہلی میں عمران خان کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور وہیں تک نہیں رہنے دیا گیا بلکہ سَر آنکھوں پر بھی بٹھایا گیا!
عمران خان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات کی جو بہت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ دس منٹ کی ملاقات میں تحریک انصاف کے چیئرمین نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کرکٹ کا بھی تذکرہ کیا۔ ملاقات کے بعد عمران خان بہت خوش دکھائی دیئے۔ خوش کیوں دکھائی نہ دیتے؟ ملک میں وہ جس کیفیت سے دوچار ہیں اُس سے کچھ دیر گلو خلاصی کی صورت تو نکلی۔ انہوں نے بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان کپل دیو کے ساتھ میڈیا کا میلہ بھی لُوٹا۔ ماننا پڑے گا کہ کپل دیو نے میزبانی کا حق ادا کرتے ہوئے عمران خان جیسے سابق حریف کے لیے بھی خاصے نیک جذبات کا اظہار کیا اور اُن کی ستائش میں کسی بھی سطح پر بُخل سے کام نہیں لیا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین کہتے ہیں نریندر مودی سے ملاقات بہت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ بھارتی وزیر اعظم کا موڈ بہت اچھا تھا۔ کرکٹ پر بھی بات ہوئی۔ جب دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ سیریز کے انعقاد سے متعلق بات ہوئی تو مودی مسکرادیئے۔
عمران خان کہتے ہیں کہ وہ نریندر مودی کی مسکراہٹ کا حقیقی مفہوم سمجھنے میں ناکام رہے۔ اس ایک بات کو بنیاد بناکر اب ہم ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرسکتے ہیں کہ عمران خان پاکستانی قوم کی قیادت کے مکمل اہل ہیں۔ ہمارے بیشتر قائدین بھارتی قیادت کے gestures سمجھنے میں ناکام رہے ہیں یعنی کچھ کا کچھ سمجھ لیتے ہیں۔ قیادت کے کم از کم اس معیار پر تو عمران خان پورے اترتے ہیں!
مگر خیر، ہمارے قائدین کا بھی اس میں کیا قصور؟ بھارت کی راج نیتی میں اصل فن کاری یہی تو ہے کہ کسی پر اصلیت ظاہر ہی نہیں ہونے دی جاتی۔ لوگ اندازے ہی لگاتے رہ جاتے ہیں مگر جب وقت آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام ہی اندازے یکسر غلط یعنی بے بنیاد اور غیر متعلق تھے! مودی بھی تجربہ کار کھلاڑی ہیں، اناڑی نہیں۔ نچلی سطح سے اٹھ کر وہ وزیر اعظم کے منصب تک پہنچے ہیں۔ وہ سیاسی باریکیوں کو پوری طرح نہ سہی، بہت حد تک ضرور جانتے ہیں۔ آخر کیوں نہ جانیں؟ ع
عمر گزری ہے اِسی دشت کی سیّاحی میں
مودی نے سیاست کے کوچے کی خاک چھانی ہے، گھاس نہیں کاٹی۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس بات پر کب اور کتنا مسکرانا چاہیے۔ اور یہ کہ کس بات پر منہ بنانا یا پُھلانا کارگر رہے گا۔ اب اگر اتنا فن بھی نہ آتا ہو تو راج نیتا کاہے کے کہلائیں گے؟
عمران خان نے نئی دہلی میں راج پتھ (شاہراہِ سیاست) کی سیر تو کی مگر یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اُنہوں نے وہاں کوئی راج پاٹھ (سیاسی سبق) بھی پڑھا کہ نہیں۔ ہم تو یہ آس لگا بیٹھے تھے کہ شاید عمران خان نئی دہلی سے تھوڑی بہت راج نیتی سیکھ کر لَوٹیں گے۔ ایسا کرنے میں ہمارا کم اور ان کا اپنا بھلا زیادہ تھا۔ افسوس کہ وہ ''پیٹی پیک‘‘ ہی واپس آگئے!
انصاف کی بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین بھولے بادشاہ ہیں، مسکراہٹ کے جال میں فوراً پھنس جاتے ہیں۔ اور اگر کسی اور کی مسکراہٹ میسر نہ ہو تو اپنی ہی مسکراہٹ کی دلدل میں دھنسنا بھی گوارا کرلیتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے انہیں مسکراہٹ ہی سے تو زیر کیا تھا۔ اور ریحام خان کی مسکراہٹ پر مَر مِٹنے کا نتیجہ تو پوری قوم نے دیکھا! ان دونوں مسکراہٹوں کے درمیان دھرنے کے دوران آرمی چیف کی طرف سے ملاقات کا بلاوا آنے پر ڈی چوک سے روانہ ہوتے وقت گاڑی میں عمران خان کی شرمیلی ہنسی بھلا کون بھول سکتا ہے!
بھارت ہمارا پڑوسی ہے۔ زمینی حقیقت کے پرچے میں پڑوسی اختیاری نہیں بلکہ لازمی سوال ہوا کرتا ہے۔ اور جب ساتھ ہی جینا ٹھہرا تو پھر خوش دِلی، رواداری اور شادمانی کے ساتھ جینا جس قدر جلد سیکھ لیا جائے اُتنا ہی اچھا ہے!
کالم سردی کے تذکرے سے شروع ہوا تھا۔ سردی زور پکڑتی جارہی ہے۔ ایسے میں ایک قصہ یاد آرہا ہے۔ کسی جنگل میں دو پرندے درخت کی اونچی شاخ پر بیٹھے تبادلہ خیال فرما رہے تھے۔ کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی۔ ایسے میں ایک شکاری وہاں آ نکلا۔ شدید سردی کے باعث شکاری کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ ایک پرندہ بولا: ''ذرا دیکھو تو سہی، بے چارے کی آنکھ سے آنسو ٹپک رہے ہیں۔‘‘ یہ بات سن کر دوسرا پرندہ بولا: ''اے میرے نادان دوست! شکاری کی آنکھ سے بہتے ہوئے آنسوؤں پر نہ جا، یہ دیکھ کہ اس کے ہاتھ میں کمان ہے اور اس میں کسے ہوئے تیر کا نشانہ ہم دونوں ہیں!‘‘
بھارت سمیت خوش نما انداز اختیار کرنے والی ہر ریاست سے تعلقات استوار کرتے وقت ہماری قیادت کو شکاری اور پرندوں والا قصہ ضرور ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ آنکھوں سے بہتے پانی سے دھوکا کھانا مناسب نہیں، توجہ تیر کمان پر مرکوز رہنی چاہیے۔ اعلیٰ معیار کی دانائی کا ذکر رہنے دیجیے، ''عمومی دانش‘‘ یعنی common sense کا بھی ہی تقاضا ہے!
کسی کے بارے میں خواہ مخواہ بدگمانی کا حامل رہنا اچھی بات نہیں مگر بہت زیادہ یعنی غیر ضروری طور پر خوش گمان رہنا بھی تو کوئی مستحسن روش نہیں کہ جس پر گامزن ہی رہا جائے۔ بھارت سے بہتر تعلقات ہماری بھی ضرورت ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوستی کی گنگا میں بہتے ہوئے ہم اپنے ہر مفاد کے گھاٹ پر رکنا بھول جائیں اور خود کو دھارے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ بین الریاستی تعلقات میں قومی مفادات سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہوا کرتا۔ فریق ثانی کے آنسوؤں اور مسکراہٹ دونوں کا سمجھ میں آنا لازم ہے۔ جو لوگ اس حوالے سے ناکام رہتے ہیں ان کے نصیب میں صرف رونا رہ جاتا ہے اور پوری دنیا ان پر ہنستی رہتی ہے!
نریندر مودی کی مسکراہٹ نے ٹائم مشین کا کردار ادا کیا اور ہمیں 1974ء میں لے گئی جب بھارت نے راجستھان کے صحرا میں پہلا ایٹمی دھماکا کیا تھا۔ اگر آپ کو یاد نہ ہو تو ہم یاد دلادیں کہ اِس ایٹمی دھماکے کا خفیہ نام تھا ''بُدّھا اسمائلنگ‘‘ یعنی بُدّھا (گوتم بُدھ) مسکرا رہا ہے!
جس طور آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو کبھی کبھی کچھ اور ہی ہوتے ہیں اِسی طور مسکراہٹ ہر بار مسکراہٹ نہیں ہوا کرتی۔ دعا ہے کہ Buddha Smiling کی طرح Narendra Smiling کا بھی کوئی اور مفہوم نہ ہو!