سوشل میڈیا نے تو ہمارا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ہم نے جنہیں دوست کی سند دے رکھی ہے یعنی جو فیس بک پر ہمارے اپنوں اور دوستوں کی فہرست میں ہیں وہ یومیہ بنیاد پر ثابت کرتے رہتے ہیں کہ ع
اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں!
سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے بہت سے وڈیو کلپس بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو دماغ کو جھنجوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ بعض وڈیو کلپس دیکھنے کے بعد دل بہت دیر تک اداس رہتا ہے کہ شر کو خیر باد کہنے اور خیر کو اپنانے کی صفت ہم میں کب، کون سی صدی میں پیدا ہوگی۔ مگر خیر، ہم کیا اور ہماری ہستی کیا؟ یہ بات تو دنیا کا سب سے بڑا اور مستند ترین تسلیم کیا جانے والا نجومی بھی نہیں بتاسکتا!
آپ سوچیں گے کہ سوشل میڈیا پر تو ہر وقت اوٹ پٹانگ باتوں سے دھماچوکڑی مچی رہتی ہے۔ ایسے میں کچھ سیکھنے سکھانے کی گنجائش کہاں سے نکل آئی؟ اپنی حیرت کو لپیٹ کر ایک طرف رکھیے اور ''سازش‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ ہماری زندگی میں نظم و ضبط کس سطح پر ہے؟ یقیناً آپ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ آپ بھی تو اِسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ نظم و ضبط کی بات ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ ہماری آپ کی زندگی میں جتنی بھی ''بہار‘‘ ہے اور ہمارے گرد جتنا بھی ''رونق میلہ‘‘ برپا ہے یہ نظم و ضبط کے فقدان ہی کا تو فیضان ہے!
ہم نے جب ہوش سنبھالا ہے (یہ جملہ سند کے طور پر ہے کہ ہم ہوش سنبھال چکے ہیں۔ خبردار، کوئی اِسے ''اعترافِ جرم‘‘ کے کھاتے میں نہ ڈالے!) یہی دیکھا ہے کہ لوگ نظم و ضبط کو خیرباد کہتے جاتے ہیں اور زندگی کے صندوق سے لازوال مسرّت کا خزانہ نکال کر خوب مزے کرتے جاتے ہیں!
کسی زمانے میں یہ طے تھا کہ سرکاری دفاتر میں ہر وہ شخص سب کا ناپسندیدہ ٹھہرے گا جو کام کرنے پر یقین رکھتا ہوگا اور کم از کم اپنے حصے کا ہر کام پوری ایمانداری اور مہارت سے کرتا ہوگا۔ مگر اب خیر سے یکسر غیر سرکاری اداروں میں بھی کام کرنے والے اچُھوت سمجھے جاتے ہیں! اب کسی بھی ورک پلیس میں ہر وہ شخص حقیقی ولن ہے جو فلموں کے ہیرو کی طرح پوری ایمانداری سے کام کرکے دوسروں کے لیے مثال بننے کی کوشش میں مصروف ہو!
لوگ آج کا کام کل پر ٹالنے کے عادی نہیں یعنی جو شخص وقت پر آتا ہو اور جاں فشانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کے لیے دردِ سر بننے کی کوشش کر رہا ہو اُسے پہلی فرصت میں ٹھکانے لگاتے ہیں یعنی ادارے سے چلتا کرتے ہیں یا پھر کم از کم اپنے شعبے سے تبادلہ کرواکے دم لیتے ہیں!
اب آئیے ''سازش‘‘ کی طرف۔ ہم نے فیس بک پر ایسے کئی وڈیو کلپس دیکھے ہیں جن کے ذریعے کچھ لوگ ہمیں (یعنی ہم، آپ سب کو) آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایسی ''سازش‘‘ ہے جسے سمجھنا بچوں کا کھیل نہیں۔ چند ماہ قبل ہم نے فیس بک پر ایک ایسا وڈیو کلپ دیکھا تھا جس میں ایک کتے کو ہر طرف دیکھ کر، سبز بتّی جلنے پر زیبرا کراسنگ پر چلتے ہوئے سڑک پار کرتا دکھایا گیا تھا! یہ وڈیو کلپ دیکھ کر ہم کئی دن تک شرمندہ سے رہے تھے اور ہمیں یقین ہے کہ ہماری طرح اِس معاشرے میں اور بھی ہزاروں افراد یہ منظر دیکھ کر کچھ دیر تو ضرور شرمندہ رہے ہوں گے۔ ہم نے از خود نوٹس لیتے ہوئے طے کیا تھا کہ آئندہ زیبرا کراسنگ پر چل کر ہی سڑک پار کیا
کریں گے اور وہ بھی اُس وقت جب سبز بتّی روشن ہو۔ ہم سمجھتے تھے کہ جو کچھ کتے نے کیا وہ کوئی کمال نہ تھا، ہم بھی کرسکتے ہیں۔ مگر دو دن میں ہی ہمارے دماغ کی بتّی گُل ہوگئی! مشکل یہ آن کھڑی ہوئی کہ زیبرا کراسنگ کہاں پائیں۔ اور پھر سبز بتّی وہ کہاں سے لائیں! دو بنیادی شرائط ہی پوری نہیں ہوپائیں تو نظم و ضبط کی عادت کیا اپناتے یعنی ضابطے کی پاس داری کیا کرتے؟ اور پھر ''اتمامِ حجّت‘‘ کے طور پر ہم نے یہ بھی سوچا کہ اب ایک ذرا سے کتے کی برابری کیا کریں!
ٹریفک کے قواعد و ضوابط پر خاصے عقیدت آمیز انداز سے عمل کرکے اُس کتے نے ہماری طبیعت میں جو تکدّر پیدا کیا تھا وہ ابھی ٹھیک سے ختم بھی نہ ہوا تھا کہ فیس بک نے ایک بار پھر خاصی ''کتا وڈیو‘‘ دکھاکر منہ کا ذائقہ خراب کردیا ہے! اور اس بار ہمیں آئینہ دکھانے کے لیے ایک کتے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ سات کتے لائے گئے ہیں۔ ویسے وڈیو کلپ میں کتے نہیں بلکہ ذرا بڑی عمر کے پِلّے ہیں۔ تماشا کچھ یُوں ہے کہ چھوٹے سے کمرے میں یہ سات پِلّے بیٹھے خوراک کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک صاحب اِن ساتوں کے لیے خوراک سے بھرے ہوئے برتن لے کر نمودار ہوتے ہیں۔
خوراک بردار مہربان کو دیکھتے ہی ساتوں پِلّے ''اٹینشن‘‘ ہو جاتے ہیں یعنی متوجہ ہوکر حلقے کی شکل میں بیٹھ جاتے ہیں۔ اب وہ صاحب ہر پِلّے کے سامنے خوراک سے بھرا برتن رکھتے جاتے ہیں۔ ایک ایک کرکے ہر پِلّے کے آگے شمع ... معاف کیجیے گا، خوراک سے بھرا برتن رکھ دیا جاتا ہے۔ خوراک کے لیے اُن پِلّوں میں چھینا جھپٹی ہوتی ہے نہ وہ ایک دوسرے کے برتن کی طرف دیکھتے ہیں۔ اور اپنے آگے برتن دھر دیئے جانے پر بھی وہ کھانا شروع نہیں کرتے۔ ساتوں پِلّوں کے آگے کھانا رکھنے کے بعد وہ صاحب ذرا ہٹ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ اب ساتوں پِلّے ان صاحب کی طرف دیکھتے ہیں۔ وہ چند دعائیہ کلمات ادا رب کا شکر ادا کرتے ہیں اور پِلّوں کو کھانا شروع کرنے کے لیے گرین سگنل دیتے ہیں۔ اب ساتوں پِلّے کھانا شروع کرتے ہیں۔
اب آپ سے کیا چھپانا؟ ہم دراصل بہت سادہ واقع ہوئے ہیں اِس لیے سمجھ ہی نہیں پائے کہ اِس وڈیو کلپ کے ذریعے کیا پیغام دیا گیا ہے! کیا یہ کہ ہم بھی کھاتے وقت اُن پِلّوں کی طرح نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں اور چھینا جھپٹی سے گریز کریں؟ ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم نے اِس وڈیو کلپ سے کچھ سیکھا تو دنیا والے یہی کہیں گے کہ یہ قوم اب وہی کر رہی ہے جو کتے بِلّیوں کا شیوہ ہے! یہ بے ہودہ الزام سہنے سے کہیں بہتر ہے کہ ہم گدھوں کی پیروی کرتے رہیں!