جرمنی کے مروسلو مگولا نے کمال کر دکھایا ہے۔ آپ انہیں چلتا پھرتا مقناطیس قرار دے سکتے ہیں۔ سٹیل کے چمچے ہوں یا پلاسٹک کا کوئی آئٹم، اُن کے جسم پر بہت سی چیزیں اِس طور چپک جاتی ہیں جیسے وہ انسان نہ ہوں، مقناطیس ہوں۔ مروسلو مگولا کہتے ہیں کہ اُنہوں نے کسی بھی طرح کی تربیت حاصل نہیں کی بلکہ اُن کی یہ صلاحیت خداداد ہے۔
مرزا تنقید بیگ سے ملاقات کو بہت دن ہو گئے تھے‘ اس لیے ہم اس انوکھی خبر کے ساتھ اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مرزا (اپنا) سَر پکڑے بیٹھے تھے۔ ہم نے ایسا کرنے کا سبب پوچھا تو ان کے جواب سے معلوم ہوا کہ کسی نے کچھ دیر پہلے کوئی بیان داغا تھا‘ جو چینلز پر چلایا گیا تھا۔ یعنی آڈیو وڈیو پروف موجود ہے مگر ذرا سی دیر میں وہ صاحب مکر گئے کہ اُنہوں نے ایسا کوئی بیان دیا ہی نہیں۔ اور یہ کہ یہ بھی دشمنوں کی سازش ہے جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کی مدد سے اُن کے خلاف مہم چلا رہے ہیں!
ہم نے عرض کیا کہ اب کسی کی کسی بھی بات پر حیرت کیسی؟ تقریباً ہر مذہب میں قرب قیامت کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں‘ اور ہمارا دین بھی احادیث کی مدد سے قرب قیامت کی نشانیوں اور آثار کو خاصی صراحت سے بیان کر چکا ہے۔ ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہ بجائے خود قرب قیامت کی ایک واضح نشانی کا درجہ رکھتا ہے۔ ایسے میں کوئی کس کس بات پر ورطۂ حیرت میں پڑے؟ اب تو ذہن کی یہ حالت ہے کہ کسی بات پر حیرت ہو تو حیرت ہوتی ہے!
مرزا نے موسم کی مناسبت سے ایک سرد آہ بھر‘ ہماری تائید کی اور پھر خیال آیا کہ وہ ہمیں بیٹھنے کے لیے کہنا تو بھول ہی گئے ہیں! قدرے شرمندہ ہو کر مرزا نے ہمیں بیٹھنے کو کہا اور ساتھ ہی گھر کے اندرونی حصے کی رُخ کرکے چائے کے لیے صدا لگا دی۔
ہم نے جرمنی کے جیتے جاگتے مقناطیس یعنی مروسلو مگولا کا ذکر چھیڑا تاکہ مرزا کو بھی معلوم ہو کہ اِس بھری دنیا میں ایک وہی حیرت انگیز آئٹم نہیں! ع
دِل ہارنے والے اور بھی ہیں، سرکار دِوانے اور بھی ہیں!
ہمیں یقین تھا کہ مقناطیسی صفات کے حامل انسان کے بارے میں پڑھ کر مرزا چونک پڑیں گے اور تفصیل جاننا چاہیں گے۔ مگر ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مرزا تو ذرا بھی حیران نہیں ہوئے۔ اور حیران کیا ہونا تھا، وہ تو ٹس سے مس بھی نہ ہوئے یعنی حیرت کا معمولی سا بھی تاثر اُن کے چہرے پر نہ اُبھرا۔
ہمیں حیرت میں مبتلا اور سوچوں میں غرق دیکھ کر مرزا نے کہا: ''تم یہ سوچ کر جرمنی کے اس باشندے کا ذکر کر رہے ہو کہ میں تجسّس کے دریا میں ڈبکیاں لگانے لگوں گا اور اِس کے بارے میں مزید کچھ جاننا چاہوں گا۔ یاد رکھو میاں! اب کوئی مقناطیس کی طرح دھاتوں کو اپنی کھینچنا شروع کر دے یا پرندوں کی طرح اُڑتا پھرے، کوئی متوجہ نہیں ہوتا۔ معاملہ یہ نہیں کہ یہ کوئی معمولی کام ہے۔ کام ضرور غیر معمولی ہے مگر یہ فن بہت سوں کے پاس ہے اِس لیے حیران ہونے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔‘‘
ہم نے حیران ہو کر پوچھا کہ آپ نے کبھی کوئی انسانی مقناطیس دیکھا ہے تو مرزا نے جھٹ جواب دیا: ''کیوں نہیں؟ اگر تم یقین کرو تو ہم بیان کرتے ہیں کہ ہم خود مقناطیس سے کم نہیں۔‘‘
مرزا ... اور مقناطیس؟ یہ بات ہم سے ہضم ہوئی نہ ہم سمجھ پائے۔ وضاحت چاہی تو مرزا یُوں گویا ہوئے: ''دیکھو میاں! بات یہ ہے کہ اپنے بہت سے احباب کے باعث ہمیں گھر والوں کی کڑوی کسیلی باتیں سُننا پڑتی ہیں۔ اور تم بھی اُن احباب میں سے ہو۔‘‘
ہم نے حیران ہونے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہم ... اور مرزا کے لیے پریشانی و ذلت کا باعث بنیں؟ بات کچھ سمجھ میں نہ آئی۔ ہمیں حیرت میں غلطاں دیکھ کر مرزا نے وضاحتی سلسلہ جاری رکھا: ''اہل خانہ احباب کی نوعیت دیکھتے ہوئے ہمیں بھی مقناطیس قرار دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہماری ذات بھی ایک ایسے مقناطیس کی طرح ہے جو 'لکڑ ہضم پتھر ہضم‘ کے اُصول پر کام کرتے ہوئے خدا جانے کیا کیا اپنی طرف کھینچتی رہتی ہے۔ ایک تم ہی نہیں، پتا نہیں یہاں کون کون 'شرفِ ملاقات‘ بخشتا رہتا ہے! احباب میں بعض کم یاب اقسام کی چیزیں بھی شامل ہیں! اب تم ہی بتاؤ، اگر اہل خانہ ہمیں مقناطیس قرار نہ دیں تو کیا کریں؟‘‘
ہم نے مودبانہ عرض کیا کہ اگر آپ کہیں تو ہم آپ کی مقناطیسیت کچھ کم کر دیں یعنی کم کم آیا کریں یا پھر یہ کہ عیدگاہ میں گلے مل کر رخصت ہو جایا کریں۔ ہمیں دل برداشتہ دیکھ کر مرزا نے پینترا بدلنے کے سے انداز سے کہا: ''بھئی، ہم دوسروں کی بات کر رہے ہیں‘ تم تو ہمارے اپنے ہو اور اہل خانہ بھی تمہیں بہ نگاہِ تحسین دیکھتے ہیں۔ ایسے ویسے احباب میں تمہارا تذکرہ تو از راہِ تفنّن کر دیا ورنہ ہم تو دوسروں پر تبرّا بھیج رہے تھے!‘‘
ہم نے عرض کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ دوسروں کے سامنے بھی آپ ایسی ہی بات کہتے ہوئے اُس کا دل رکھتے ہوں! یہ بات سُن کر مرزا چند لمحات کے لیے سُنّ ہو کر رہ گئے، کوئی جواب نہ بن پڑا۔ ہم سمجھ گئے کہ ہماری بات مقناطیس بن کر اُن کے ذہن پر چپک گئی ہے!
اور صاحب، رہی مقناطیس بن جانے والی بات تو ایک مرزا پر کیا موقوف ہے کہ یہاں تو سبھی نے اپنے اندر غضبناک حد تک ''مقناطیسیت‘‘ پیدا کر رکھی ہے۔ نفسی علوم اور شخصی ارتقاء کے ذیل میں کشش کے اُصول کا تذکرہ ہم سُنتے اور پڑھتے ہی رہتے ہیں۔ یعنی یہ کہ ایک جیسے خیالات ایک دوسرے کی طرف کھنچتے رہتے ہیں۔ آپ جیسا سوچیں گے ویسے ہی ہوتے جائیں گے اور ویسے ہی لوگ آپ کی زندگی میں آتے جائیں گے۔ مرزا نے احباب کی ''نوعیت‘‘ کے حوالے سے جو رائے دی وہ خود اُنہی پر منطبق ہوتی ہے!
من حیث المجموع بھی تو ہم ایک ایسا مقناطیس ہیں جو طرح طرح کے گئے گزرے افکار و اعمال کو اپنی طرف کھینچتا رہتا ہے۔ جن نظریات کو دنیا نے کبھی کا مسترد کر رکھا ہے ہم اُنہیں اب تک گلے لگائے ہوئے ہیں اور اپنی اِس روش پر گامزن رہنے سے باز رہنے کو ذرا بھی تیار نہیں۔ ترقی یافتہ دنیا جو کپڑے اتار پھینکتی رہے وہ ہم تن پر سجا کر فخر سے گردن اُٹھائے پھرتے ہیں۔ کپڑوں کا ذکر تو اشارتاً کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہم ہر معاملے میں مغرب کے ایسے خوشہ چیں ہو بیٹھے ہیں کہ اُس کا بچا کھچا اور جُھوٹا کھانا بھی اپنے تازہ کھانے سے زیادہ لذیذ محسوس ہوتا ہے! ہم نے اپنے مزاج کو ایک ایسے مقناطیس میں تبدیل کر لیا ہے جو غیروں کی ہر بات کو اپنا سمجھ کر کھینچتا ہے اور اپنوں کی کوئی بھی چیز اُس کے نزدیک کسی بھی درجے میں قابل قبول نہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ آج دنیا بھر کے نظریات، رواج اور انداز ہماری زندگی کا حصہ ہیں اور ایسے میں یہ معلوم کرنا انتہائی دشوار ہو گیا ہے کہ ہمارا اپنا کیا ہے!
مروسلو مگولا نے اپنے جسم پر چمچے اور پلاسٹک کے آئٹم چپکا کر یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اُس نے کبھی ہمارا مزاج نہیں دیکھا جو زمانے بھر کے کاٹھ کباڑ کو اپنی طرف کھینچتے کھیچتے اب کام اور ڈھنگ کی کوئی بھی چیز اپنی طرف کھینچنے کی صلاحیت سے محروم سی ہوتی جاتی ہے! مروسلو مگولا جس مقناطیسیت کی بدولت شہرت پا رہا ہے اُسی مقناطیسیت نے ہمیں تو کہیں کا نہ رہنے دیا! ہم تو اب اس بات سے تنگ آ چکے ہیں کہ دنیا بھر سے اگڑم شگڑم ہماری طرف کھنچا چلا آ رہا ہے اور ہماری زندگی کو زیادہ سے زیادہ پیچیدہ کیے جاتا ہے! اِس مقناطیسیت کے ہاتھوں کبھی کبھی تو اپنے آپ سے الجھن سی محسوس ہونے لگتی ہے۔
ایک بڑی الجھن یہ بھی ہے کہ لوگ جس مقناطیسیت سے پریشان ہیں اُسے اپنے سے الگ کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے پر بھی کمر بستہ رہتے ہیں! گویا ع
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے