ہماری زندگی نیند سے لڑتے بِھڑتے گزری ہے۔ اور لڑتے بِھڑتے تو خیر ہم یونہی کہہ رہے ہیں وگرنہ سچ یہ ہے کہ ہمارے نصیب میں نیند کے ہاتھوں شکست کھانا ہی لکھا ہے! نیند کے ساتھ ہمارا وہی معاملہ ہے جو جنگل سے تنہا گزرنے والے انسان اور شیر کا ہوا کرتا ہے۔ شیر سامنے آ جائے تو تنہا انسان بھلا کیا کر سکتا ہے؟ پھر تو جوکرنا ہے شیر ہی کو کرنا ہے!
جہاں پورا معاشرہ بے وقعت سی زندگی بسر کر رہا ہے وہاں ہم بھی اپنی زندگی کے لیے کسی وقعت کا دعویٰ نہیں کر سکتے مگر پھر بھی ہم نے اپنی بے وقعت سی زندگی کے تین قیمتی عشرے صحافت کی نذر کیے ہیں۔ ان میں پچیس برس کی مدت یعنی ربع صدی نائٹ شفٹ کے حصے میں آئی ہے یا یوں کہیے کہ ہم نائٹ شفٹ کے نصیب میں لکھے ہوئے ہیں۔ شعرا کے ہاں پائی جانے والی ہجر کی رات کی طرح ہمارے لیے نائٹ شفٹ بھی ہجر کی رات سی ہو گئی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی! اتنی طویل مدت تک نائٹ شفٹ کرتے رہنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب مکمل بیداری یعنی بیدار مغزی کی حالت مشکل ہی سے نصیب ہو پاتی ہے۔ ہم بیداری کی حالت میں بھی اِک گونہ غنودگی سے ''ہم کنار‘‘ رہا کرتے ہیں۔ بیدار ہونے پر بھی یقین نہیں آتا کہ نیند ٹوٹ چکی ہے۔ میرزا نوشہ نے شاید ایسی ہی کیفیت کے لیے کہا تھا ع
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
اب آپ یہ مت سمجھ لیجیے گا کہ ہم کالم بھی غنودگی کی حالت میں لکھتے ہیں۔ کالم کے لیے ہم مکمل اور حقیقی بیداری کا اہتمام کرتے ہیں۔ کڑک چائے پی کر نیند کو بھگاتے ہیں اور پُرلطف جملوں کو دستِ ذہن و قلم کی دسترس میں لاتے ہیں۔ مگر خیر ایسا بھی نہیں ہے کہ پورے کالم کا کریڈٹ کڑک چائے کو دے دیا جائے! چند ایک جملے ہماری اپنی محنتِ شاقّہ کا نتیجہ بھی ہوتے ہیں۔
ضرورت کے مطابق بیدار ہونا اور مکمل ہوش و حواس کی حالت میں آنا ہمارے لیے ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ اللہ بخشے، والدِ محترم عبدالشکور خان مرحوم کہا کرتے تھے کہ اگر کسی خاص وقت اٹھنا ہو تو انسان اپنے آپ سے کہے کہ فلاں وقت اٹھنا ہے اور پھر بے فکر ہوکر سو جائے۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ اپنے آپ سے اٹھنے کا کہہ کر سو جائیے تو دل و دماغ کا میکنزم مقررہ یعنی بتائے ہوئے وقت پر بیدار کر دیتا ہے۔ مشورہ والدِ محترم کا تھا اس لیے ہم نے کئی بار یہ تجربہ کیا یعنی اپنے آپ کو بیدار کرنے کا حکم دے کر سوئے اور ہر بار دفتر دیر سے پہنچے جس کے باعث باس کو ہم سے بہت کچھ کہنا پڑا! اور ہم نے جب بھی والد سے بیدار ہونے کے اِس ''طریقِ واردات‘‘ کے ناکام رہنے کی شکایت کی تو اُن کا جواب کچھ یُوں ہوتا تھا کہ: ع
تِرے دماغ میں بُت خانہ ہو تو کیا کہیے!
بیدار ہونے کا یہ فارمولا کئی بار آزمانے پر بھی ناکام رہنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ والدین کا احترام ہم پر فرض سہی مگر اُن کے ہر مشورے پر عمل لازم نہیں!
ایک زمانے تک ہم نیند کے ہاتھوں شکست کھا کر شرمندہ ہوتے رہے مگر جب معاشرے پر نظر ڈالنے کی توفیق نصیب ہوئی تب اندازہ ہوا کہ ہمیں زیادہ شرمندہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں تو پوری قوم ہی سو رہی ہے یعنی ہم اور قوم ایک ہی پیج پر ہیں! مگر یہ سلسلہ یہیں تک نہیں رکا۔ اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ ہم (پاکستانی) اور مختلف خطوں کی بیشتر اقوام بھی ایک ہی پیج پر ہیں یعنی گہری نیند
سے پنڈ چھڑاکر بیدار ہونا دنیا بھر میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اب تک ہم یہ سوچ کر شرمندہ ہوتے تھے کہ پاکستانی قوم ہی زیادہ سوتی ہے اور ''کھوتی‘‘ ہے۔ اب معلوم ہوا کہ دوسرے بھی بہت سوتے ہیں اور ''کھوتے‘‘ ہیں! اب یہ طے کرنا باقی ہے کہ عالمگیر مسئلے کو ہم نے اپنایا ہے یا ہمارا مسئلہ عالمگیر ہو بیٹھا ہے!
بہت سے لوگ بیدار ہونے کے لیے الارم لگا کر سوتے ہیں۔ اور یہ تماشا بھی عام ہے کہ الارم کی گھنٹی اگر گھنٹہ بن کر بھی بجتی رہے تو لوگ بیدار ہونے کا نام نہیں لیتے اور اگر آنکھ کھل بھی جائے تو الارم کا سوئچ آف کرکے دوبارہ خواب نگری کی سیر کرنے لگتے ہیں۔ ماہرین نے اِس ''سنگین‘‘ مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک ایسا الارم تیار ہے جو گہری نیند میں ڈوبے ہوئے افراد کو مکمل بیدار کرنے کے بعد ہی سکون کا سانس لے گا۔ یہ الازم وزن جاننے کے لیے استعمال کی جانے والی پورٹیبل مشین کی شکل کا ہے۔ اس الارم پر بیدار ہونے کا وقت سیٹ کر دیجیے۔ مقررہ وقت پر الارم بج اٹھے گا اور اس وقت تک بجتا رہے گا جب تک آپ مکمل بیدار ہونے کے بعد بستر چھوڑ کر اس مشینی الارم پر پورے تین سیکنڈ تک کھڑے نہ رہیں!
ماہرین نے الارم میں کسی کو بیدار کرنے کا میکینزم متعارف کرانے کی اپنی سی کوشش تو کرلی مگر یہ نہیں سوچا کہ ہمارے ہاں لوگوں کی نفسی ساخت میں نیند کے مزے لیتے رہنے کا میکنزم مکمل بیداری کی حالت میں ہے! نیند سے محبت سبھی کرتے ہیں۔ اِس سے آگے بھی ایک منزل ہے جہاں کم لوگ پہنچ پاتے ہیں۔ یہ ہے نیند سے عقیدت کا معاملہ! کوئی اور جانور دستیاب ہو یا نہ ہو، بعض لوگ سوتے وقت گھوڑے ضرور بیچ دیتے ہیں! (یہ عُقدہ اب تک وا نہیں ہو سکا کہ ہم سے اِتنے گھوڑے خریدتا کون ہے!) نیند پر سو جان سے قربان ہونے والوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے سرہانے تین چار ڈھولچی اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کریں تب بھی نیند کے خمار کا چڑھا ہوا دریا اُترنے کا نام نہیں لیتا! ایسے لوگ نیند کے مزے لینے کے معاملے میں جو ''پروفیشنل اپروچ‘‘ دکھاتے ہیں اگر ویسی ہی سنجیدگی زندگی کے دیگر معاملات میں بھی دکھائیں تو دنیا کے لیے روشن مثال بن جائیں!
ہم نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو نائٹ شفٹ میں ڈیوٹی ختم ہونے پر گھر جاتے ہوئے موٹر سائیکل پر ہی نیند کے مزے لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسے لوگ خود ہی بتاتے ہیں کہ کبھی کبھی وہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے جھونکے مارتے مارتے ایک ڈیڑھ کلومیٹر تک سو بھی جاتے ہیں! سُبحان اللہ ع
وہی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے!
سُنا ہے نیند تو کانٹوں کے بستر پر بھی آجاتی ہے۔ ہمارے بہت سے منتخب نمائندے اور وزرا شاید منتخب ایوان کو کانٹوں کا بستر سمجھتے ہیں تبھی تو ایوان کی کارروائی کے دوران بھی موقع ملتے ہی نِندیا رانی کی باہوں میں جُھولنے سے نہیں چُوکتے! جب منتخب نمائندوں کا یہ حال ہو تو جمہوریت بھی خوابیدہ خوابیدہ سی کیوں نہ ہو؟
علامہ اقبالؔ نے کہا ہے ؎
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
علامہ کے کہے کی لاج رکھتے ہوئے چینی اب تک سنبھلے ہوئے ہیں اور عالمی طاقت میں تبدیل ہونے کے بعد امریکہ و یورپ کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ شمالی علاقوں کی ایک تنگ سی راہداری کی بدولت چین ہمارا ہمسایا بھی ہے اور دوست بھی۔ افسوس کہ ہم نے چینیوں سے دوستی پر تو بہت فخر کیا ہے مگر ان سے کچھ سیکھنے کی زحمت اب تک گوارا نہیں کی۔ علامہ نے چینیوں کے بیدار ہو جانے کی اطلاع ہمیں دے دی تھی مگر ہم نے بیدار ہوکر بھرپور زندگی کی راہ پر گامزن ہونے کو اپنی ترجیحات میں شامل نہ کیا۔
وقت آگیا ہے کہ ہم گھوڑے بیچنا ترک کریں یعنی نیند کے دامن سے لپٹے رہنے کی روش تج کر زندگی کی شاہراہ پر گھوڑوں کی طرح دوڑیں۔ الارم تو بازار میں بہت سے دستیاب ہیں مگر جنہیں جاگنے سے مطلب ہو وہ کسی بھی الارم کے محتاج نہیں ہوتے۔ اکیسویں صدی کی زندگی ہم سے محض جاگ اٹھنے کا نہیں بلکہ مکمل بیدار مغزی کا تقاضا کرتی ہے۔ ہم جدید ترین ٹیکنالوجی کے شاہکار سمجھے جانے والے کسی الارم کی مدد سے جاگنے پر آمادہ نہیں۔ ہے کوئی ہم کو جگانے والا؟