"MIK" (space) message & send to 7575

خیالی پلاؤ

سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ خیالی پلاؤ پکانے کے شوقین رفتہ رفتہ موٹاپے کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں۔ تحقیق کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ ایسا اِس لیے ہوتا ہے کہ خیالی پلاؤ پکانے کے شوقین کھاتے وقت غیر حاضر دماغ ہوتے ہیں۔ خیالوں کی دنیا میں سفر کرتے ہوئے کھانے سے یہ احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ کتنا کھایا ہے۔ ایسے لوگ بے خیالی کے عالم میں کھاتے ہی رہتے ہیں۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص حاضر دماغ رہتے ہوئے کھانا کھائے تو ذہن بتا دیتا ہے کہ کب پیٹ بھرگیا اور کب ضرورت سے زائد کھانے کی ابتداء ہوئی۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچوں کو باضابطہ تربیت دی جاسکتی ہے کہ کھاتے وقت کس طور حاضر دماغ رہا جائے اور صرف اتنا کھایا جائے جتنا اپنے آپ کو ہشّاش بشّاش رکھنے کے لیے ضروری ہو۔ 
پلاؤ خیال کا ہو یا بے خیالی کا، انسان کو سکون اسی وقت نصیب ہوتا ہے جب نیت بھرتی ہے۔ اور مشکل یہ ہے کہ نیت مشکل سے بھرتی ہے۔ سائنس دان اچھی طرح جانتے ہیں کہ خیالی پلاؤ پکاتے رہنا کتنا پُرلطف کام ہے۔ وہ خود بھی تو خیالی پلاؤ پکاتے پکاتے ہی دادِ تحقیق دینے لگتے ہیں! بہت سی ایجادات خیالی پلاؤ ہی کی مہربانی کا نتیجہ ہیں۔ سائنس دان کا ذہن مختلف معاملات میں امکان اور عدم امکان کے حوالے سے سوچتا رہتا ہے۔ اور جب وہ خیالی پلاؤ پکاتے پکاتے تھک جاتے ہیں تو کسی نہ کسی خیال کی دُم پکڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔ جہاں کسی خیال نے انگلی پکڑائی، وہ کلائی تھامنے پر تُل جاتے ہیں۔ 
ہم وہ قوم ہیں جو خیالی پلاؤ پکانے اور کھانے کی عادی ہے۔ لوگ رات دن خیالوں ہی خیالوں میں کائنات کی سیر کرتے رہتے ہیں۔ خیالی پلاؤ پکاتے رہنے کی عادت ہی نے ہمیں بسیار خوری کی راہ پر گامزن کر رکھا ہے۔ لوگ سوچتے جاتے ہیں اور کھاتے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ کچھ پتا ہی نہیں چلتا کہ معدے کی ضرورت کب پوری ہوئی اور ''اوور ایٹنگ‘‘ کا آغاز ہوا۔ اب تک کوئی ایسا آلہ بھی ایجاد نہیں کیا گیا جو انسان کو بتا سکے کہ پیٹ بھرگیا ہے، اب مزید مت کھائیے۔ ہم حلق سے کھانے پینے کی اشیاء انڈیلتے رہتے ہیں اور معدہ اُف تک نہیں کرتا۔ 
ہم زندگی بھر خیالی پلاؤ مدد سے زندگی بھر ذہن کے ساتھ ساتھ پیٹ کی بھوک مٹانے کی بھی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ بھی ہم نے دیکھا اور بھگتا ہے۔ یہی کہ ذہن پر موٹاپا طاری ہوتا جاتا ہے۔ ذہن کا موٹاپا بالآخر عقل کو بھی فربہ اندام کرکے دم لیتا ہے۔ بعض احباب اس معاملے میں ہماری مثال پیش کرتے ہیں کہ جب خیالی پلاؤ کھاتے کھاتے دماغ کے فربہ اندام ہونے سے ہماری عقل موٹی ہوگئی تو ہم نے قلم تھام لیا اور ذہن کی سلِمنگ کے خیال سے کالم نگاری شروع کردی! 
لگی لپٹی رکھے بغیر ہم سچ بیان کرنا چاہتے ہیں اور سچ اس کے سوا کیا ہے کہ ہم کھانے پینے کے بہت شوقین واقع ہوئے ہیں۔ زندگی کھانے پینے میں گزری ہے۔ آپ سوچیں گے اس میں حیرت کی بات کیا ہے۔ ہم سب روزانہ ہی دو تین وقت کھاتے ہیں۔ اور یہ کہ یہ شوق کا نہیں، ضرورت کا معاملہ ہے۔ آپ کا سوچنا بھی ٹھیک ہے مگر ہم کچھ اور کہنا چاہتے ہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ کھانے پینے کی اشیاء و عادات کے بارے میں لکھ لکھ کر ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے ہے۔ 
بات اتنی سی ہے کہ ہم تو پبلک ڈیمانڈ کو سامنے رکھ کر لکھتے ہیں۔ لوگ کھانے پینے کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ پڑھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے جب بھی اشیائے خور و نوش کے حوالے سے کچھ لکھا ہے یعنی کوئی ''لذیذ‘‘ کالم اپنے قارئین کی نذر کیا ہے انہوں نے فوراً اور بھرپور ریسپانس دیا ہے۔ کسی بھی کالم نگار کے لیے عقل اور فائدے کا سودا یہی ہے کہ پبلک ڈیمانڈ پوری کرتا رہے یعنی وہی لکھے جو لوگ پڑھنا چاہتے ہیں۔ جب کچھ دن تک ہم کھانے پینے کے بارے میں کچھ نہیں لکھتے تو لوگ یعنی (چند) ''سرٹیفائیڈ‘‘ قارئین ایس ایم ایس اور ای میلز کے ذریعے ہمارا دماغ چاٹنے لگتے ہیں۔ ہم چونکہ اپنے قارئین کا بھلا چاہتے ہیں اس لیے انہیں دماغ چاٹنے کے نقصانات سے بچانے کے لیے کھانے پینے کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھ کر اُن کے دل کی تشفّی کا سامان کرتے رہتے ہیں! 
سائنس دانوں کی اس بات سے ہم مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ خیالی پلاؤ پکانے اور کھانے کے شوقین بالآخر موٹاپے کے پنجرے میں قید ہو جاتے ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو؟ خیالی پلاؤ پکانے والوں کے پاس آخرِ کار کھانے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ یعنی ہر وقت بے عملی کا شکار رہنے سے وہ کھانے پینے کی کوئی حقیقی چیز حاصل نہیں کر پاتے۔ خیالی پلاؤ سے دماغ کا پیٹ تو بھر سکتا ہے، اصلی پیٹ خالی ہی رہتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایسے لوگوں کے سامنے جب اصلی پلاؤ اور دیگر اشیائے خور و نوش دھری ہوں تو یاد ہی نہیں رہتا کہ صرف اتنا کھانا ہے جتنا جسم کو توانا رکھنے کے لیے لازم ہو۔ 
ہم جس خطے میں رہتے ہیں اُس میں کئی نسلیں پائی جاتی ہیں اور بیشتر نسلوں سے تعلق رکھنے والے جسمانی ساخت کے اعتبار سے یکساں یعنی خاصے دُبلے پتلے ہیں۔ ایک ہم ہی اتنے فربہ اندام ہیں کہ دور سے پہچانے جاتے ہیں۔ پاکستانی قوم میں شامل ہر نسل کے افراد خیالی اور اصلی دونوں طرح کے پلاؤ پکانے اور کھانے کے انتہائی شوقین ہیں یعنی کھانے پینے کے معاملے میں بھی انتہا پسندی کی راہ پر گامزن ہیں! 
کسی بھی قوم کا مزاج راتوں رات نہیں بنتا۔ کسی بھی طرزِ فکر کو اپنانے اور پھر اس پر عمل کی صورت میں عادات کو پختہ کرنے میں زمانے لگتے ہیں۔ ہم نے بھی عشروں کے عمل میں ایک فکری سانچا تیار کیا ہے اور اس پر عمل کی صورت میں اپنا الگ جہاں آباد کیا ہے۔ ہمارے ذہنوں میں بسی ہوئی الگ تھلگ دنیا بہت حد تک خیالی پلاؤ کے محور پر گھوم رہی ہے۔ خوش خیالی، خوش فہمی اور خوش گمانی سے بنی ہوئی اس دنیا میں ہر طرف مزے ہی مزے ہیں، خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔ اور سب سے زیادہ لطف کی بات یہ ہے کہ ہمیں بھی اندازہ ہے کہ یہ خیالی دنیا ہمارے لیے زیادہ کام کی نہیں بلکہ بسا اوقات شدید نقصان کا باعث بنتی ہے مگر پھر بھی ہم اپنی یہ روش ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ 
ہم نے عرض کیا ہے کہ یہ سب کچھ راتوں رات واقع نہیں ہوگیا۔ ایک طرف تو ہماری سوچ خوش فہمی پر مبنی ہے اور دوسری طرف ہمارے قائدین نے بھی اِس آتشِ شوق کو خوب ہوا دی ہے۔ ادب ہو یا سیاست، شوبز ہو یا کوئی اور شعبہ ... ہر معاملے میں سبز باغ دکھانے کی روایت ہی پختہ اور کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ جیسی روح ویسے فرشتے والی مثال تو آپ نے سُنی ہی ہوگی۔ پاکستانی قوم کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ لوگ خیالی پلاؤ پکانے اور کھانے کے عادی ہیں تو قائدین بھی اپنی تقریروں میں جذبات کے چولھے پر خیالی پلاؤ کی دیگیں ہی چڑھائے رکھتے ہیں۔ جنہیں خیالوں کی دنیا میں رہنا پسند ہو انہیں سبز باغ نہ دکھائے جائیں تو پھر کیا دکھایا جائے؟ 
خیالی پلاؤ پر تحقیق کرنے والوں نے تو اپنا کام کرلیا یعنی ہمیں بتادیا کہ اس پلاؤ کو کھاتے رہنے سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم اپنے دل و دماغ کے معدے کو کسی بڑے اور فیصلہ کن قسم کے نقصان سے بچانے کے لیے کیا کرتے ہیں۔ خیالی جنّت بناکر اس میں آباد ہونے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوجاتی۔ خوش فہمی کا میٹھا راگ سُن سُن کر ہم اپنی سماعت کو اُن دردناک چیخوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتے جو ٹھوس اور تلخ حقائق سے تصادم کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ زندگی بسر کرنے کا حقیقی اور مفید ڈھنگ یہی ہے کہ ہر حقیقت کا ثابت قدمی سے سامنا کیا جائے۔ خیالی پلاؤ سے دل و دماغ کو تھوڑی بہت تسلّی مل سکتی ہے ... اور وہ بھی جُھوٹی مگر پیٹ کسی طور نہیں بھرسکتا۔ پیٹ بھرنے کے لیے تو حقیقی دنیا کی اشیائے خور و نوش ہی درکار ہوتی ہیں، خواہ گئی گزری ہوں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں