"MIK" (space) message & send to 7575

… چلتا رہے یہ کارواں

سندھ کا معاملہ ہے کہ طے ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ تین عشروں سے بھی زائد مدت گزر چکی ہے مگر اب تک معاملات کہیں نہ کہیں اٹکے ہوئے ہیں۔ سیاست کے نام پر ایک کھڑاگ کھڑا کردیا گیا ہے اور کوشش یہ ہے کہ یہ رونق میلہ لگا رہے، چمک دمک ماند نہ پڑے۔سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان ''سٹینڈ آف‘‘ اس معاملے کا تازہ ترین شاخسانہ ہے۔ رینجرز کو کراچی سمیت سندھ بھر میں جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے لیے اختیارات درکار ہیں۔ اختیارات وفاق براہِ راست بھی دے سکتا ہے (اور حال ہی میں دیئے بھی ہیں) مگر سندھ حکومت کو بائی پاس کرکے ایسا کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ 
ایک سال سے بھی زائد مدت کے دوران کراچی میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جو کچھ کیا گیا ہے اس کے مثبت نتائج بھی سامنے ہیں۔ عوام نے سکون کا سانس لیا ہے۔ شہر کی رونقیں بحال ہوئی ہیں۔ روشنیوں کا شہر واقعی جگمگا رہا ہے۔ اور بھارتی میڈیا میں مروّج اصطلاح بروئے کار لائی جائے تو ''شائننگ کراچی‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں! کراچی کو دیدہ دانستہ نظر انداز کرنے کا نتیجہ صرف اہلِ کراچی نے نہیں بھگتا بلکہ پورے ملک کے لیے یہ خسارے کا سَودا ثابت ہوتا رہا ہے۔ معیشت کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھنے والا شہر تین عشروں سے بھی زائد مدت تک جس انداز سے چلایا جاتا رہا وہ خطرناک، شرمناک، افسوسناک ... سبھی کچھ تھا۔ زندگی کی علامت سمجھا جانے والا شہر پژمردگی کی جیتی جاگتی مثال بن کر رہ گیا تھا۔ ناصرؔ کاظمی نے کہا تھا ع 
گلی گلی مِری یاد بچھی ہے، پیارے رستہ دیکھ کے چل 
کراچی میں بھی گلی گلی انجانا خوف بچھا ہوا تھا اور لوگوں کو رستہ دیکھ کر چلنا پڑتا تھا۔ فضا میں بے یقینی تھی کہ کم ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ کیا غضب تھا کہ لوگ بھری سڑک پر چلتے ہوئے بھی خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے تھے۔ پہلے تو یہ خطرہ تھا کہ کہیں سے کوئی گولی آئے گی اور رگِ جاں میں پیوست ہوکر زندگی کا چراغ گل کردے گی۔ جب دہشت گردی کے خطرے کا گراف گِرا تو لوگ کسی بھی وقت، کہیں بھی لُٹ جانے کے خوف میں مبتلا ہوگئے۔ 
ایک ڈیڑھ سال پہلے تک (یعنی کم و بیش پانچ سال تک) لاقانونیت کا یہ عالم تھا کہ لوگ گھر کے دروازے پر بھی لُٹتے پائے گئے! سڑک پر ذرا بھی سنّاٹا ہو تو لوگ پیدل چلتے خوفزدہ جاتے تھے، بالخصوص رات کے پچھلے پہر۔ کسی مصروف شاہراہ پر بھی رات کے وقت کسی کی موٹر سائیکل یا کار خراب ہوجاتی تھی تو دِل کے پلگ میں بھی خوف کا کچرا اُمڈ آتا تھا۔ موقع کی تلاش میں رہنے والے ایسی صورت حال سے فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں لگاتے تھے۔ ذرا سی دیر میں دو چار موٹر سائیکل سوار نوجوان آتے اور اسلحے کے زور پر لُوٹ مار کرکے اپنی راہ لیتے تھے! جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع کیا گیا ہے تو شہریوں کو ایک نئی، بے خوفی کے ساتھ بسر ہونے والی زندگی میسّر ہے۔ سات آٹھ سال بعد زندگی کا ایسا ورژن ملا ہے جو بھرپور ہے، جس میں خوف ہے نہ بے یقینی۔ کاروباری برادری کا اعتماد بھی ایسا بحال ہوا ہے کہ املاک کی قیمتیں تیزی سے بلند ہوئی ہیں۔ جو لوگ کسی کام میں پیسہ لگاتے ڈرتے تھے وہ اب پورے اطمینان کے ساتھ کسی بھی کام میں ہاتھ ڈالتے دکھائی دیتے ہیں۔ 
سیاست میں جرم پسندی در آئی تھی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ سیاسی ماحول میں جرائم کچھ اِس طور رچ بس گئے تھے کہ اُنہیں الگ کرنا خود سیاسی جماعتوں کے بس میں بھی نہ رہا تھا۔ یہی سبب ہے کہ جب ریاستی مشینری کی طرف سے سیاست کو جرائم سے پاک کرنے کے عمل کی بات چلی، کسی بھی سیاسی جماعت نے بظاہر کوئی مزاحمت نہ کی۔
ہماری سیاست میں جرائم پیشہ عناصر کا نفوذ کب نہیں تھا مگر ایک حد تو بہرحال طے شدہ تھی۔ سب کچھ غنڈوں کے حوالے تو نہیں کردیا جاتا تھا۔ معاملات بگڑے تو حالت یہ ہوئی کہ سیاسی ماحول کو اُنہوں نے یرغمال بنالیا جوعمل تو بہت دور کی بات ہے، کسی قانون پر یقین رکھنے کے بھی قائل نہ تھے! کسی بھی ذی ہوش اور ذی شعور کے لیے ایسی صورت حال قابل برداشت نہیں ہوسکتی۔ کراچی میں سیاست جب پوری کی پوری جُرم پسندی کی نذر ہوئی تو سبھی کچھ تلپٹ ہوتا دکھائی دینے لگا۔ تب سیاسی بڑے جاگے اور معاملات کی درستی ترجیحات میں دوبارہ جگہ پانے میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ 
کسی الگ تھلگ شہر کو بھی قاتلوں، لٹیروِں، بھتہ خوروں، بلیک میلرز اور جعل سازوں کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہی نہیں، قومی وحدت کی تابندہ علامت بھی ہے۔ ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے لوگ عشروں سے کچھ اِس طور آباد ہیں کہ اب اِس شہر کے ہوچکے ہیں۔ کراچی کی بے امنی محض یہاں تک محدود نہیں رہتی، وہاں بھی اثرات مرتب کرتی ہے جہاں کے لوگ یہاں آئے ہوئے ہیں۔ شہر کا پہیہ جام کیا جاتا ہے تو ملک گیر سطح پر معیشت کو مابعد اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریاستی مشینری نے متحرک ہوکر روشنیوں کے شہر کو اندھیروں کے راج سے باہر رکھنے کی خاصی کامیاب کوشش کی ہے۔ خواص اور عوام سبھی خوش ہیں کہ ڈھنگ سے جینے کی فضاء کی بحال ہوئی۔ وہی ہوا ہے جو سب چاہتے تھے۔ یعنی ع 
بڑھتی رہے یہ روشنی، چلتا رہے یہ کارواں 
سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں مستحکم ووٹ بینک رکھنے والی جماعتوں کے لیے یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ اُنہیں اپنی صفوں سے ایسے تمام عناصر کو نکال باہر کرنا ہے جن کے ہوتے ہوئے وہ حقیقی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ چند اور محض قلیل المیعاد فوائد کو مستقبل کے عظیم حاصل پر ترجیح دینے والے کوتاہ بینوں سے جان چھڑانے کا وقت آگیا ہے۔ چھوٹی بڑی جماعتوں کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کا عمل خوبصورتی اور عمدگی سے جاری ہے۔ اور یہ عمل جاری رہے تو اچھا۔ کراچی کو تاریکیوں کے سُپرد کرکے اپنے ذاتی مفادات کے چراغ جلانے والوں کے نصیب میں اب ناکامی کا لکھ دیا جانا ٹھہر گیا ہے۔ یہ عمل رینجرز کے ہاتھوں انجام کو پہنچے یا کسی اور ایجنسی کو زحمتِ کار دی جائے، موت کے سوداگروں کی پیشانی پر خاتمے کی مُہر ضرور ثبت کی جانی چاہیے۔ 
چند گزشتہ ادوارِ حکومت میں جو لوگ قدرتی وسائل کی بہتی گنگا کو باپ کی جاگیر سمجھ کر اس میں دن رات ڈبکیاں لگاتے رہے ‘ ان کے کان مروڑنا کافی نہیں، وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اُن کی گردنیں مروڑ دی جائیں۔ ایسا نہ کیا گیا تو کرپشن کی تاریخ محض چند برس کے وقفے سے خود کو دہراتی رہے گی۔ منظر عام پر رہ کر کام کرنے والوں کو پکڑنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے تو اب قانون کے ہاتھ اُن معشوقوں کی گردن تک بھی پہنچنے چاہئیں جو پردۂ زنگاری میں فعال رہے ۔
رینجرز کے اختیارات کا معاملہ بھی عجیب رہا ہے۔ سندھ حکومت چاہتی ہے کہ بہت کچھ درست ہو مگر مشکل یہ ہے کہ ایسا ہوگا تو بہت کچھ ہاتھ سے جاتا بھی رہے گا! سندھ حکومت کا معاملہ ادھورے مَن والا ہے۔ گویا ع 
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں! 
شش و پنج میں مبتلا رہنے سے کسی کا بھلا ہونے والا نہیں۔ قانون کی بالا دستی کا چُھرا گھوم رہا ہے تو اِس کی زد میں اُن سب کو آنا چاہیے جو شہر کی سیاست اور مفادات کو تہہ و بالا کرتے رہے ہیں۔ صوبے اور وفاق کے درمیان رسّا کشی کا معاملہ کسی کے مفاد میں نہیں۔ چند بڑوں کو بچانے کے نام پر وہی کھیل نہیں کھیلا جانا چاہیے جس کی زد میں آکر پورا صوبہ پس ماندگی کے غبار میں اٹا رہے اور لوگ من کی مرادوں کے بار آور ہونے کا انتظار ہی کرتے رہ جائیں۔ قانون کی بالا دستی دکھائی دے گی تب ہی پُراسرار سرگرمیوں کی راہ بھی مسدود ہوگی اور صوبے کے وسائل پر شب خون مارنے والے اپنے ارادوں سے باز آنے پر مجبور ہوں گے۔ لا قانونیت کا دور سدا کے لیے لَد جائے تو اچھا۔ سندھ سے محبت کرنے والا کون ہے جوڈیڑھ دو سال پہلے تک کی فضاکا احیا چاہے گا؟ اور ایک سندھ پر کیا موقوف ہے، ملک بھر کے لوگ جان و دل سے یہی تو چاہتے ہیں کہ ع 
بڑھتی رہے یہ روشنی، چلتا رہے یہ کارواں 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں