"MIK" (space) message & send to 7575

اصلی کالا جادو

اس بھری دنیا میں کون ہے جسے اپنا مفاد ہر حال میں عزیز نہ ہو؟ لوگ ذاتی مفاد کے لیے (ظاہر ہے، اوروں کا!) بہت کچھ قربان کر دیتے ہیں اور اس حرکت پر خفیف سی بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ آپ سوچیں گے ہم ایسی کون سی انوکھی حقیقت بیان کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ تو آپ کو بہت پہلے سے معلوم ہے۔ ٹھیک ہے، مگر کبھی کبھی کوئی ایسی خبر بھی نظر سے گزرتی ہے جسے پڑھ کر خیال آتا ہے کہ انسان بھی کیا مخلوق ہے کہ بھرپور جوانی کے آٹھ دس سال کسی خاص شعبے کی نذر کرتا ہے، بھرپور محنت کے بعد کسی مقام تک پہنچتا ہے اور پھر اس شعبے میں حاصل کی ہوئی کامیابی پر بخوشی مِٹّی ڈال دیتا ہے! 
بھارت کی مہا منڈلیشوری شیوانی درگا نے کچھ ایسا ہی کیا ہے جس نے ہمیں کالم لکھنے پر مجبور کر دیا۔ محترمہ نے اپنے ملک میں ایم اے تک تعلیم پائی اور پھر امریکہ جا کر شکاگو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ آپ ہی سوچیے امریکہ سے پی ایچ ڈی! اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ایک شاندار کیریئر اُس کا منتظر تھا مگر (اُس کی) قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ شیوانی درگا جب وطن واپس آئی تو ہر طرف وہی کچھ دیکھا جس کے آگے اُس کی تعلیم ناکام سی دکھائی دیتی تھی۔ جس طور ہمارے ہاں لوگ کسی کو ناکام دیکھنے کے لیے تعویذ گنڈوں کا سہارا لیتے ہیں بالکل اسی طرح بھارت میں لوگ تنتر ودیا (منتر، جادو ٹونا وغیرہ) کا سہارا لیتے ہیں۔ جادو ٹونا ہندو ثقافت کا تقریباً لازمی جُز ہے۔ شیوانی درگا نے جب یہ دیکھا کہ پی ایچ ڈی کی بنیاد پر وہ جو کامیابی حاصل کرے گی وہ مُرجھائی ہوئی سی ہو گی۔ یعنی تنتر ودیا کے بل پر گزاری جانے والی زندگی میں کامیابی، دولت، شہرت سبھی کچھ ہے اور زیادہ ہے۔ لیپ ٹاپ کھول کر کسی ٹی وی چینل کے سٹوڈیو میں بیٹھ جائیے اور لائیو کالز پر کالرز کے نام پوچھ پر چار سیکنڈ میں اس کی قسمت کا حال بتائیے‘ اور پھر دیکھیے کہ آپ راتوں رات کس طور بھرپور شہرت کے بامِ عروج پر پہنچتے ہیں۔ 
شیوانی درگا نے جب یہ دیکھا کہ مرگھٹ یعنی شمشان گھاٹ مُردوں کو جلانے کے ساتھ ساتھ تنتر ودیا سیکھنے کے مقام کا بھی درجہ رکھتے ہیں تو اُس نے ایک مرگھٹ میں قیام کرنے والے اگھورے بابا سے رابطہ کیا۔ مرگھٹ میں رہ کر چتاؤں کی اگنی کے شانہ بشانہ عملیات کی آگ بھڑکانے والے سادھوؤں کو اگھورے کہا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ اگھورے جلتی چتا سے گوشت بھی نکال کر کھاتے ہیں! 
شیوانی کے اہل خانہ کو جب اُس کے ارادوں کا علم ہوا تو شدید مخالفت کی اور مشورہ دیا کہ وہ امریکہ سے پائی ہوئی تعلیم کی بنیاد پر زندگی بسر کرے اور تعلیم کے شعبے میں اپنا آپ منوائے۔ مگر اُنہیں معلوم نہ تھا کہ کوئی بھی ڈگری حاصل کیے بغیر محض تنتر ودیا کے ذریعے بھرپور شہرت پانے والوں نے شیوانی کے دل و دماغ میں ہلچل برپا کر دی تھی۔ اُس نے طے کر لیا تھا کہ امریکہ سے حاصل کی ہوئی پی ایچ ڈی کی سند کو بھرپور کامیابی کی راہ میں دیوار نہیں بننے دے گی! ایسا نہیں ہے کہ شیوانی کے دل و دماغ میں اچانک کوئی طوفان برپا ہو گیا تھا۔ اُس کی دادی بھی تنتر ودیا کی طرف جھکاؤ رکھتی تھیں اور شیوانی کو اکثر مرگھٹ لے جاکر چتاؤں کو پرنام کرواتی تھیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ شیوانی کے ذہن میں یہ بات بھی بٹھاتی تھیں کہ موت ہی اس کائنات کی حتمی اور اٹل حقیقت ہے۔ 
تنتر ودیا سیکھنے کے لیے شیوانی نے ناگ ناتھ یوگیشور گرو سے رابطہ کیا اور پھر اُس کی ''چیلی‘‘ بن کر وہ سب کچھ سیکھا جو ہندو عورتیں عام طور پر نہیں سیکھتیں۔ ناگ ناتھ یوگیشور گرو سے تنتر ودیا سیکھنے کے لیے شیوانی کو مرگھٹ میں قیام کرنا پڑا۔ اُس نے خود بیان کیا ہے کہ مرگھٹ میں سیکھے جانے والے عملیات میں اُس کے لیے سب سے مشکل عمل وہ تھا جو مُردوں پر کرنا ہوتا تھا! پہلے تو کسی نہ کسی طور تازہ مُردہ حاصل کرنا پڑتا تھا اور پھر اُس کے سامنے عملیات کرنا ہوتے تھے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ سے جدید ترین تعلیم پا کر آنے والی شیوانی کو تنتر ودیا کی کشش نے جب اس قدر بے ذہن کر دیا تھا تو کسی عام آدمی کے ذہن کو کالا علم کس حد تک متاثر یعنی تباہ کرتا ہو گا! شیوانی نے تنتر ودیا سیکھ کر ''سرویشوری شکتی انٹرنیشنل‘‘ کے نام سے ادارہ قائم کیا جس کی اب کئی شاخیں ہیں۔ بھارت، امریکہ اور یورپ میں شیوانی درگا کے چیلے بڑی تعداد میں ہیں۔ 
شیوانی درگا کی کہانی پڑھ کر ہم نے سوچا کہ جو کچھ اس قدر عجیب لگ رہا ہے وہ ذرا بھی عجیب نہیں۔ وہ تو خیر کالے علم کے چکر میں پڑ گئی ورنہ یہاں تو ''سفید علم‘‘ بھی لوگوں کو گمراہ کر دیتا ہے! اب یہی دیکھیے کہ ایم بی بی ایس اور پی ایچ ڈی کرنے والے بہت سے لوگ اپنے اپنے شعبوں میں ڈھنگ سے کچھ کرنے کے بجائے چینلز پر مخصوص منجن بیچ رہے ہیں! آٹھ دس سال کسی شعبے میں اعلیٰ تعلیم پانے کے بعد جب عملی زندگی میں کچھ کرنے کی باری آتی ہے تو یاروں کو اندازہ ہوتا ہے کہ ناحق اتنی محنت کی! کامیابی، شہرت اور دولت سبھی کچھ بہت آسانی سے مل جاتا ہے۔ بس یہ ہے کہ اصولوں اور مزاج پر تھوڑی سی سودے بازی کرنا پڑتی ہے۔ اور یہ کون سی ایسی مشکل منزل ہے کہ جہاں تک پہنچا نہ جا سکے؟ 
ہمارے ہاں ایسی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ کسی نے اپنے پیشے کو سماج میں زیادہ محترم نہ پا کر اولاد کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجا تاکہ کسی اور شعبے کو اپنائیں مگر واپس آکر اولاد نے مال کی ریل پیل دیکھ کر ماں باپ ہی کے پیشے کو اپنا لیا! اِس طرح کی مثالیں خاندانی گویّوں کے ہاں بہ کثرت پائی جاتی ہیں۔ خاندانی گویّوں کے بچے اعلیٰ تعلیم پانے کے بعد جب عملی زندگی شروع کرنے کا سوچتے ہیں تو تھوڑا بہت جائزہ لینے پر مایا کے موہ میں پھنس کر ''علمی‘‘ زندگی کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے ''فنی‘‘ زندگی ہی کو گلے لگا لیتے ہیں! بہت سوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ معاشرے کی خرابیوں کے لیے آج کے انسان میں پائی جانے والی ٹیڑھ کو موردِ الزام ٹھہراتے نہیں تھکتے۔ سوال یہ ہے کہ انسان کب ایسا نہیں تھا؟ کس دور کا انسان مایا کے موہ کا غلام نہیں تھا؟ کون سی صدی کا انسان اپنی تمام فطری صلاحیتوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف مال و متاع کا حریص نہیں ہو رہتا تھا؟ 
مرزا نوشہ نے کہا ہے ؎ 
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے 
کام اچھا ہے وہی جس کا مآل اچھا ہے 
ہمارے خیال میں اس شعر کے مصرعِ ثانی کو ذرا سے تصرّف کے ساتھ یوں بھی پڑھا جا سکتا ہے ع 
کام اچھا ہے وہی جس میں ''کہ مال‘‘ اچھا ہے! 
غور کیجیے تو شیوانی درگا نے بھارت سرکار کی پختہ اور آزمودہ کار پالیسی پر عمل کیا ہے۔ تقریباً سات عشروں سے بھارت سرکار بھی تو یہی کرتی آئی ہے یعنی دنیا کو دکھانے کے لیے بہت کچھ کرنے کا وعدہ یا دعویٰ کرتی ہے مگر عمل کی بات آئے تو وہی کرتی ہے جس میں اُس کا فائدہ ہی فائدہ اور پڑوسیوں کا نقصان ہی نقصان ہو! جس مایا کے موہ نے شیوانی کے حواس کو جکڑ لیا اُسی موہ نے بھارت سرکار کے حواس کو بھی اپنے شکنجے میں کَس رکھا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شیوانی نے تنتر ودیا کے حتمی مرحلے کے لیے مُردے اپنے ہاں تلاش کر لیے جبکہ بھارت سرکار اِس عمل کے لیے مُردے اڑوس پڑوس میں ڈھونڈتی پھرتی ہے! 
آج کی دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ مایا کے موہ میں گرفتار ہوکر لوگ فطری صلاحیتوں اور رجحان کو بالائے طاق رکھ کر وہ کچھ کرنے لگتے ہیں جو ان کے مزاج سے ذرا بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ اور پھر اس روش پر گامزن ہونے کے منفی اثرات صرف اُنہیں نہیں بلکہ اُن سے وابستہ تمام افراد کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ اپنی فطری صلاحیتوں کو پوری دیانت سے بروئے کار لاتے ہوئے اپنے مزاج کے مطابق زندگی بسر کرنا ہی کائنات کی سب سے بڑی ''تنتر ودیا‘‘ ہے، یہی سب سے بڑا، کارگر اور اصلی ''کالا جادو‘‘ ہے مگر افسوس کہ لوگ اِس حقیقت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ بقول غالبؔ ؎ 
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد 
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں